ملک بھر کی طرح صوبہ پنجاب کی زرعی زمین بھی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی نذر ہونے سے پاکستانی زراعت کو خطرات لاحق ہیں، ماہرین نے پنجاب میں مسلسل کم ہوتی زرعی زمین کے منفی اثرات اور ملک کے مستقبل کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
جنوبی پنجاب کے شہر جہانیاں میں رہنے والے گندم کے ایک کاشت کار اشفاق جٹ بہت مایوس نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں اپنی آمدنی میں 45 فیصد کمی کے بعد اشفاق جٹ اپنی زرعی زمین بیچنے کے لیے مقامی ریئل اسٹیٹ ڈیویلپرز کی طرف سے کسی مناسب پیشکش کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں
اشفاق جٹ کہتے ہیں ”میرے آس پاس کے تمام کسان بھی یہی کر رہے ہیں، میں زمین بیچ کر اس رقم کو اپنے بچوں کے کاروبار کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔“
اشفاق تین پیڑھیوں سے زراعت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے دس ایکڑ زمین اپنے آباو اجداد سے وراثت میں حاصل کی، جو تقسیم سے پہلے کے زمانے کی ہے۔ تاہم ان کا اپنے بچوں کے لیے یہ میراث جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
پاکستان میں کاشت کاری اب اشفاق جٹ جیسے چھوٹے درجے کے کسانوں کے لیے ایک مسلسل جدوجہد بن چکی ہے۔۔ کئیوں کے لیے ایک لاحاصل جدوجہد۔۔
مسلسل بڑھتی مہنگائی کیڑے مار ادویات، کھادوں اور مشینری کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے اور کسانوں پر مالی بوجھ بڑھا رہی ہے اور ان کے منافع کے مارجن کو کم کر رہی ہے۔ حکومتی عدم توجہی اس پر مستزاد ہے۔
مزید بر آں گزشتہ دہائی میں غیر متوقع موسم نے بھی فصلوں کی پیداوار کو تباہ کیا ہے۔
ایک غیر منافع بخش گروپ جرمن واچ کی طرف سے شائع کردہ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ موسمیاتی خطرے والے ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان پانچویں نمبر پر آتا ہے۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ مالی سال 2022-23 کے لیے پاکستان کےاکنامک سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان نے کئی موسمیاتی جھٹکے دیکھے ہیں، جس نے ملک کے زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس سروے کے مطابق ”زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت غیر معمولی گرمی کی لہروں، بارشوں اور برف کے پگھلنے کے علاوہ سیلاب اور خشک سالی جیسے منفی موسمی واقعات کی وجہ سے انتہائی حساس ہے۔“
آج کسانوں کا خرچ ان کی آمدن سے زیادہ ہو گیا ہے۔۔ یہی وہ صورتحال ہے، جس سے مجبور ہو کر اشفاق پوچتے ہیں ”مجھے بتائیں کہ کاشت کاری کا کیا فائدہ ہے؟“
اس صورتحال کا سامنا صرف اشفاق کو ہی نہیں۔ دیگر کاشتکار بھی اس حوالے سے یہی رائے رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مطالعہ پاکستان میں ’زرعی ملک‘ کہلانے والے پاکستان میں دیگر صوبوں کی طرح صوبہ پنجاب میں کسانوں کی بڑی تعداد اپنی زرعی زمین کو ریئل اسٹیٹ ڈیویلپرز کو اپنی مرضی سے فروخت کر رہی ہے جب کہ باقیوں کو ریاست کی طرف سے رہائشی منصوبوں کے لیے اپنی زمین فروخت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جیسا کہ ہم سندھ کے ضلع ملیر میں گزشتہ کئی سالوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں
دونوں صورتوں میں حتمی نتیجہ ایک ہی ہےکہ زرعی زمین سکڑ رہی ہے۔
صرف پنجاب کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک سوال یہ ہے کہ یہاں کتنی زمین کو نقصان پہنچا ہے؟ اس بارے میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق زراعت پاکستان میں ایک اہم صنعت ہے اور اس کی معیشت کا بنیادی محرک ہے۔ زراعت کا جی ڈی پی میں 22 فیصد سے زیادہ حصہ ہے اور 47 فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے، جب کہ پنجاب ملکی خوراک کی تقسیم میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
حکومت پنجاب کے ایک خودمختار ریسرچ ڈیپارٹمنٹ دی اربن یونٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں صوبے کے بڑے شہروں جیسا کہ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالا، ملتان اور راولپنڈی میں سرکاری اور نجی ہاؤسنگ کالونیوں کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا ہے۔
دی اربن یونٹ میں ریموٹ سینسنگ کے منیجر سمیع اللہ خان کا کہنا ہے ”2000 سے لے کر اب تک صرف لاہور ہی میں 35 فیصد سے زائد زرعی اراضی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل ہو چکی ہے۔“
اربن یونٹ کے شیئر کردہ ڈیٹا کے مطابق، لاہور میں زرعی اراضی جسے 1995 اور 2022 کے درمیان تعمیر شدہ علاقے میں تبدیل کر دیا گیا تھا
دی اربن یونٹ کی طرف سے کی گئی نقشہ سازی سے پتہ چلتا ہے کہ لاہور اور اس کے آس پاس کی زمین کا بیشتر حصہ 3 نمایاں ہاؤسنگ سوسائٹیوں یعنی فوج کے زیرانتظام ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (DHA) اور 2 نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں لیک سٹی اور بحریہ ٹاؤن نے نگل لیا ہے۔
دی اربن یونٹ کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اس وقت صرف ڈی ایچ اے لاہور ہی 3 لاکھ کینال کی اراضی پر پھیلا ہوا ہے اور اسے 12 فیز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
دی اربن یونٹ کے ذریعے لی گئی ایک سیٹلائٹ تصویر سے بھی اس واضح تبدیلی کو دیکھا جا سکتا ہے۔
2003 میں لاہور میں زرعی اراضی کا وسیع و عریض رقبہ 2023 کی تصاویر کے بالکل برعکس ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرعی زمین کو ڈی ایچ اے لاہور کے فیز 6 میں تبدیل کیا گیا ہے۔
اربن یونٹ کے شیئر کردہ ڈیٹا کے مطابق بائیں طرف 2003 میں لاہور کے ایک حصے کی زرعی زمین کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصویر،دائیں طرف اسی زرعی زمین کی 2023 میں لی گئی سیٹلائٹ تصویر جسےبعد میں ڈی ایچ اے فیز 6 میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس بارے میں ڈی ایچ اے لاہور کے دفتر سے پوچھا جائے تو سامنے کوئی بھی جواب موصول نہیں ملتا
نمایاں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے علاوہ متعدد دیگر افراد بھی شہر کے اندر گرین ایریاز پر تجاوزات کر رہے ہیں۔
حکومت کے زیر انتظام لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (LDA) کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ضلع لاہور میں لگ بھگ 380 نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز کام کر رہی ہیں، جب کہ 156 غیر قانونی طور پر قائم ہیں۔
دی اربن یونٹ کی ایک سینیئر ماہر ڈاکٹر عروج سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ”لاہور میں بمشکل ہی کوئی زرعی زمین باقی ہے، اگر آپ شہر کے حالیہ نقشوں کو دیکھیں تو صرف 10 مربع کلومیٹر [سبز] زمین باقی رہ گئی ہے، جو بین الاقوامی سرحد [بھارت اور پاکستان کے درمیان] کے قریب واقع ہے۔
اب تو لاہور کے اطراف میں زیر کاشت زمین پر بھی حکومت کی نظر ہے۔
2020 میں وفاقی حکومت نے دریائے راوی کے کنارے ایک نیا شہر تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جسے راوی ریور فرنٹ سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 900 مربع کلومیٹر کے ایک وسیع رقبہ پر محیط اس نئے شہر کا مقصد 1 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو رہائش فراہم کرنا ہے۔
اگر موازنہ کیا جائے تو لاہور کی آبادی ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد جب کہ اس کا رقبہ سترہ سو مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔
اس حوالے سے معلومات رکھنے والے ایک سینیئر سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ”یہ تمام زمین [راوی ریور فرنٹ سٹی کے لیے] نوے فی صد سے زیادہ بنیادی زرعی زمین ہے، یہاں لاہور کے لیے گندم، چاول اور سبزیاں اگائی جاتی تھیں، اب لاہور کو اپنی سبزیاں باہر سے لانی پڑیں گی جس کا مطلب ہےکہ کھانے کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔“
اس منصوبے کے لیے زمین حاصل کرنے کے لیے ریاستی حکام 1894 کے قانون کو استعمال کر رہے ہیں، جسے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کہا جاتا ہے، جس سے کسانوں اور رہائشیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے۔ کچھ کسانوں نے ان کارروائیوں کو عدالت میں چیلنج بھی کیا ہوا ہے۔
پنجاب کا ایک اور اہم شہر ملتان بھی ایسی ہی حالت زار کا شکار ہے۔ 1995سے 2022 تک اس شہر کی 94.5 مربع کلومیٹر زرعی زمین کم ہوئی ہے، جو پنجاب کے ضلع ساہیوال کے شہر چیچہ وطنی سے تقریباً دس گنا زیادہ ہے۔
2013 کے آخر میں ملتان جسے گندم، کپاس اور گنے کے ساتھ ساتھ آم اور آلو جیسی بڑی فصلوں کی کاشت کے لیے جانا جاتا ہے کو ڈی ایچ اے کی تعمیر کے لیے آم کے باغات کی ایک بڑی تعداد سے محروم کر دیا گیا ۔
اربن یونٹ کے شیئر کردہ ڈیٹا کے مطابق بائیں جانب 2003 میں ملتان میں سیٹلائٹ سے لی گئی آموں کے باغات کی ایک تصویر اور دائیں جانب 2023 میں اسی اراضی کی تصویر جب ان باغات کو ہٹا کر ڈی ایچ اے، ملتان تعمیر کیا گیا
علاقے کا نقشہ مرتب کرنے والے سمیع اللہ خان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ”ڈی ایچ اے [ملتان ] تقریباً پینتیس مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور یہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈی ایچ اے ہے۔ درحقیقت ملتان ڈی ایچ اے پنجاب کے کچھ چھوٹے شہروں سےبھی بڑا ہے۔“
لاہور کی ایک اربن پلینر فضا سجاد کہتی ہیں ”زرعی اراضی کو لاحق یہ خطرہ صرف بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں ہے، ہم چھوٹے شہروں میں بھی ان تبدیلیوں کے آثار دیکھ رہے ہیں جہاں [ریئل اسٹیٹ] ڈویلپرز زمین خرید کر اسے مختلف رہائشی اسکیموں میں تبدیل کر رہے ہیں۔”
فضا سجاد نے مزید کہا کہ ابھی تک ایسا کوئی مکمل ڈیٹا موجود نہیں ہے، جس سے اس بات کا تعین ہوسکے کہ پچھلی دہائی یا اس سے زیادہ عرصے میں پنجاب نے شہری ترقی کے لیےکتنی قابل کاشت اراضی کو مستقل طور پر کھو دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ریاست کو گہرا اور وسیع تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔
ایک اور مسئلہ ہے گھروں کی بڑھتی ہوئی تعداد جو کہ بنیادی طور پر معاشرے کے امیر طبقے کو تو میسر ہیں جب کہ پنجاب میں رہائش کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔
رہائش کی کمی کے تصور کے برعکس جو کہ ان پیشرفتوں کو آگے بڑھا رہا ہے، اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی 2022 کی رپورٹ اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ اصل قلت دیہی علاقوں میں زیادہ شدید ہے۔ تاہم تمام ہاؤسنگ اقدامات شہری علاقوں میں مرکوز ہیں، جو ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں ”غیر فطری مانگ“ کو برقرار رکھتے ہیں۔
دی اربن یونٹ کے ایک محقق فرحان علی کا کہنا ہے ”ان میں سے کچھ [ہاؤسنگ] سوسائٹیوں کی منظوری مل جاتی ہے لیکن پھر وہ برسوں تک غیر تعمیر شدہ رہتی ہیں، اس لیے اب زرعی زمین کو نہ تو فصلیں اگانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس پر مکانات تعمیر کیے جا رہے ہیں، یہ ایک مکمل بربادی ہے۔“
ڈاکٹر عروج سعید نے مزید کہا کہ شہروں میں ہونے والی زیادہ تر ترقی بے ترتیبی سے ہوتی ہے، کیونکہ زیادہ تر شہروں کے ماسٹر پلان یا تو پرانے ہیں یا پھر قانونی مسائل کا شکار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ”آج کل کوئی بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اپنی ہاؤسنگ اتھارٹی کو [حکومت سے] منظور کروا سکتا ہے اور [زرعی] زمین کو تبدیل کر سکتا ہے۔“
سکڑتی ہوئی زرعی زمین، ایک زرعی ملک ہونے کے دعویدار پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے لیکن ارباب اختیار کو اس کا کو ہوش نہیں ہے
تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر پنجاب میں کھیتی باڑی کا رقبہ کم ہوتا رہا تو یہ ملک کے ماحول یا اس کی معیشت کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔
فضا سجاد کے مطابق زرعی زمین کا نقصان فوڈ سکیورٹی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے ”وہ لوگ جو اپنی روزمرہ کی خوراک کے لیے زرعی زمین پر انحصار کرتے ہیں، اب وہ اچانک مارکیٹ پر انحصار کرنے لگے ہیں، اگر شہروں کو مزید اور دور سے خوراک حاصل کرنی پڑتی ہے تو یقیناً [خوراک کی] قیمت بڑھ جاتی ہے۔“
پاکستان، جو کہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، 2023 کی گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں پہلے ہی 129 ممالک میں سے 99 ویں نمبر پر ہے۔
پیداواری زمین کے نقصان کے دیگر اثرات میں درختوں کے کم ہونے سے درجہ حرارت میں اضافہ، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور ہوا کا معیار خراب ہونا شامل ہے۔
فضا سجاد نے کہا ”بے قابو پھیلاؤ کے نتیجے میں پنجاب کے شہروں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں اوریہ تمام [شہری] موٹرائزڈ ٹرانسپورٹ کو استعمال کر رہے ہیں، زیادہ گاڑیوں کا مطلب ہے زیادہ کاربن کا اخراج۔“
گزشتہ برس سوئس گروپ IQAir نے پاکستان کو 5 سب سے زیادہ آلودہ ممالک کی درجہ بندی میں شامل کیا ہے، جس میں لاہور جو پنجاب کا ایک بڑا شہر ہے، نے دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہونےکا انوکھا اعزاز حاصل کیا۔
فضا سجاد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ موجودہ ترقیاتی ماڈل طویل مدت کےلیے غیر پائیدار ہے اس لیے ریاست کو اپنی تمام تر ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینےکی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عروج سعید نے بھی اسی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں کھیتی باڑی کو رہائشی، تجارتی یا صنعتی علاقوں میں تبدیل کرنا ”irreversible“ ہے۔
ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ”اگر ایک بار زرعی زمین کھو جائے، تو وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔“
اجڑتے گاؤں اور مٹتے باغات: ’حیدرآباد کے آس پاس ہاؤسنگ اسکیمیں زرعی اراضی کو نگل رہی ہیں‘