ہر جاندار ایک فوڈ چین کا حصہ ہے، اس لیے انسان غذائی اجزاء کے لیے دیگر تمام انواع کے ساتھ جو ماحولیاتی نظام میں موجود ہیں، ان کے ساتھ براہ راست مقابلہ کرنے کی ضرورت کا اشتراک کرتے ہیں۔ پودے سادہ کیمیائی عناصر کو پیچیدہ مالیکیولز میں تبدیل کرنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال کرکے دیکھ بھال اور کام کے لیے اپنی تمام ضروری ضروریات حاصل کرتے ہیں۔ جانور شمسی توانائی کو تبدیل نہیں کر سکتے، اس لیے ضروری غذائی اجزاء کو دوسرے ذرائع سے حاصل کرتے ہیں۔
پودوں کے برعکس، جانور پودوں یا دوسرے جانوروں کے پہلے سے بنائے گئے مواد کو کھا کر موجودہ یا نئے بافتوں کی ترکیب اور کسی بھی پیداواری سرگرمیوں کی دیکھ بھال کے لیے غذائی اجزاء حاصل کرتے ہیں۔
جبکہ انسان، دوسرے جانوروں کے برعکس، ماحول کو تبدیل کرنے کی ذہنی صلاحیت اور دستی مہارت رکھتا ہے۔ وہ اپنی بنیادی ضروریات اور بہت سی اضافی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے پودوں، جانوروں اور طبعی دنیا کا استحصال کرتے ہیں۔
اگرچہ آج انسان کی خوراک کا ایک بڑا حصہ زرعی اشیا اور ان سے تیار ہونے والی مصنوعات پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن کرہ ارض پر انسان کا ارتقا ایک گوشت خور جاندار کے طور پر ہوا تھا اور اس نے نباتات کو اپنی خوراک کا حصہ بنانے سے پہلے لاکھوں سال تک گوشت کھا کر زندگی گزاری۔
ماہرین کا قیاس ہے کہ انسان نے جس پودے کو پہلے پہل اپنی خوراک کے طور پر چن کر اس کی کاشت شروع کی، وہ گندم تھی۔ قدیم تہذیبوں کے ماہرین کو فلسطین، شام، تیونس، لیبیا اور عراق کے علاقوں میں ایسے آثار ملے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تقریباً دس ہزار سال پہلے انسان نے گندم کی کاشت شروع کر دی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس خطے میں گندم کی شروعات ہوئی، بشریات کے ماہرین کے خیال میں انسان نے اسی خطے میں جنم لیا اور پھر وہ دنیا بھر میں پھیل گیا۔
اس وقت دنیا میں بنیادی خوراک کے طور پر سب سے زیادہ استعمال چاول کا ہوتا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق چاول کی کاشت گندم سے کئی ہزار سال کے بعد چین سے شروع ہوئی۔ چین میں چاول کی کاشت کے ابتدائی آثار سات ہزار سال قبل ملتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی انسان کا جنم لگ بھگ تین لاکھ سال پہلے براعظم افریقہ میں ہوا تھا اور اس نے تقریباً پونے تین لاکھ سال شکار کی تلاش میں جنگلوں اور بیابانوں میں گھوم پھر کر گزارے۔
جب انسان نے پھل اور پودے کھانا شروع کیے تو اس کی زندگی میں ایک ٹھہراؤ آیا اور اس نے چھوٹی چھوٹی آبادیوں کی شکل میں رہنا شروع کیا اور پھر کئی ہزار سال کے بعد اس نے اپنے کھانے کے لیے اپنی پسند کے پودوں کی کاشت شروع کر دی۔
ماہرین کو حال ہی میں یہ سراغ ملا ہے کہ باقاعدہ کاشت کاری شروع کرنے سے پہلے انسان کون سے پودے اور پھل کھاتا تھا۔
ماہرین کو یہ سراغ کچھ عرصہ قبل مراکش کے ایک گاؤں ’تافورالت‘ میں ایک غار کے قریب سات انسانی باقیات کی صورت میں ملا، جن میں دانت اور ہڈیاں شامل ہیں۔ ان ہڈیوں کے سائنسی تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ وہ تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار سال پرانی ہیں۔
واضح رہے کہ سائنسدان اب کسی جاندار کی ہڈی کے تفصیلی تجزیے سے یہ کھوج لگا سکتے ہیں کہ اس کی خوراک میں کیا چیزیں شامل رہی ہونگی۔
مراکش سے ملنے والی ان ہڈیوں کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق انسانی نسل ’ایبروموریشین‘ سے ہے۔ اس نسل کے لوگ تقریباً پچیس ہزار سے دس ہزار سال پہلے تک مراکش، لیبیا، تیونس اور الجیریا میں آباد تھے۔
ہڈیوں کے تجزیے سے پتہ چلا کہ ان کی خوراک میں بھیڑ کے گوشت کے ساتھ ساتھ چلغوزے، پستہ، جوار اور دالیں شامل تھیں۔ یہ خود رو پودوں اور درختوں کے پھل اور بیج تھے، جو اس علاقے میں دستیاب تھے۔
آثارِ قدیمہ میں پی ایچ ڈی کی ایک طالبہ زینب منبھرج کہتی ہیں ”عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس علاقے کا قدیم انسان شکار کھیلتا تھا اور گوشت اس کی خوراک کا بنیادی جزو تھا، لیکن ’تافورالت‘ سے ملنے والی ہڈیوں کا تجزیہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ان قدیم لوگوں کی خوراک کا ایک بڑا حصہ پودوں سے حاصل ہونے والے پھلوں اور بیجوں پر مشتمل تھا۔“
زینب جرمنی میں قدیم انسانوں پر تحقیق سے متعلق میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کی طالبہ ہیں اور حال ہی میں تافورالت سے ملنے والی ہڈیوں پر ان کا تحقیقی مضمون سائنسی جریدے ’ایکولوجی اینڈ ایوولوشن‘ میں شائع ہوا ہے۔
اس تحقیق میں ان کے ساتھ شریک مصنفہ کلیروا جاون کہتی ہیں ”اہم چیز یہ ہے کہ ہڈیوں کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کھیتی باڑی کا دور شروع ہونے سے قبل پودوں سے حاصل ہونے والی چیزوں کی ایک معقول مقدار ان آبادیوں کی خوراک میں شامل ہو چکی تھی۔“
کلیروا جاون کا مزید کہنا ہے ”ایبروموریشین نسل کے لوگ تقریباً پچیس ہزار سے دس ہزار سال پہلے مراکش اور لیبیا کے کچھ حصوں میں آباد تھے۔ شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ غاروں کو اپنے رہنے کے لیے اور اپنے مردے دفن کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔“
ایبروموریشین کا ذکر کرتے ہوئے کلیروا جاون نے کہا ”وہ سال کے ان حصوں میں، جب جنگلی درختوں اور پودوں کے پھل پک جاتے تھے، ان غاروں میں اپنی رہائش رکھتے تھے۔ ان کے دانتوں میں پودوں کی چپکی ہوئی باقیات کے انداز سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غاروں میں پودوں کی خوراک کا ذخیرہ رکھتے تھے تاکہ جب شکار نہ ملے تو وہ انہیں کھا کر اپنی بھوک مٹا سکیں۔“
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایبروموریشین نسل کے لوگ صرف جنگلی درختوں اور پودوں کے پھل اور بیج کھاتے تھے۔ انہوں نے کبھی ان پودوں کو خود اگانے کا نہیں سوچا۔ زراعت کا خیال بعد آنے والی نسلوں کو کئی ہزار سال کے بعد آیا۔
زینب کہتی ہیں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہڈیوں کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ایبروموریشن مچھلی اور سمندری خوراک نہیں کھاتے تھے۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے درختوں اور پودوں کی خوراک اپنے چھوٹے بچوں کو بھی متعارف کرا دی تھی۔
زینب نے کہا ”سات افراد کی باقیات میں دو چھوٹے بچوں کے دانت بھی شامل ہیں۔ ماں کے دودھ پر پلنے والے بچوں اور دیگر خوراک کھانے والے بالغ افراد کے دانتوں کی کیمسٹری میں واضح فرق ہوتا ہے۔ دانتوں کے تجزیے سے پتہ چلا کہ بچے کی عمر تقریباً بارہ مہینے تھی۔ دانتوں پر موجود خوراک کی باقیات سے یہ ظاہر ہوا کہ انہیں دودھ کی بجائے ٹھوس غذا دی جا رہی تھی، جو نباتات پر مشتمل تھی۔“
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں مائیں بچے کو بارہ مہینے کی عمر کے لگ بھگ اپنا دودھ پلانا بند کر دیتی تھیں اور انہیں ٹھوس غذا پر منتقل کر دیا جاتا تھا، جب کہ اس سے قبل کے معاشروں میں بچے زیادہ عرصے تک ماں کے دودھ پر پلتے تھے۔
محقق زینب کہتی ہیں ”ایبروموریشین لوگوں کی باقیات پر تحقیق سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ شکار کھیلنے والے اور گوشت پر گزر بسر کرنے والے انسانی گروہوں نے، زراعت کی جانب آنے سے پہلے کئی ہزار سال اپنا تعلق جنگلی پھلوں اور بیجوں سے جوڑ لیا تھا اور اس تعلق نے بعد ازاں اپنی ضرورت اور پسند کی خوراک اپنی مرضی سے پیدا کرنے اور اسے ذخیرہ رکھنے کی راہ ہموار کی جو آگے چل کر کھیتی باڑی کی شکل میں سامنے آئی اور نئے انسانی معاشروں کی بنیاد پڑی۔“
حوالہ جات: جریدہ نیچر، ایکولوجی اینڈ ایوولوشن، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ، رائٹرز اور وائس آف امریکہ