کہتے ہیں، کچھ لوگ فطرت کو نہ صرف اپنی آنکھوں سے بلکہ اپنی روح سے دیکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سالم علی بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا۔ ریاضی میں کمزور، مگر پرندوں کی زبان کا ایسا ماہر کہ چڑیوں کی چہچہاہٹ میں اسے فطرت کا سنگیت اور ان کے پروں میں قدرت کے رنگ بکھرتے نظر آتے تھے۔ اس کے لیے پرندے صرف ہوا میں اڑنے والی مخلوق نہیں تھے بلکہ وہ قدرت کا زیور تھے، فضاؤں میں بکھرے رنگین موتی۔۔
یہ کہانی ہے ایک ایسے شخص کی، جس کی زندگی ایک واقعے نے یوں بدل دی، کہ وہ پرندوں کی دنیا کا باسی بن گیا اور ’برڈ مین آف انڈیا‘ کہلایا۔ وہ نہ صرف فطرت سے محبت کرتا تھا بلکہ اس محبت میں اتنا محو ہو گیا کہ اس نے وہ مقام پایا کہ بہت سے لوگ جس کا خواب بھی نہیں دیکھتے۔ سالم علی کی زندگی ایک ایسی روشنی تھی جس کی چمک سے نہ صرف اس کا نام بلکہ اس کا کام بھی جگمگاتا رہا۔ اس کی محنت، لگن اور عزم نے اسے ایک لازوال پہچان دی کہ جہاں ہر اعزاز اس کے سامنے ماند پڑ جائے، اور پرندوں کی تاریخ اس کے بغیر ادھوری نظر آئے۔ اسے ”برڈ مین آف انڈیا“ کے لقب سے نوازا گیا اور، اس کے یومِ پیدائش کو انڈیا میں اب بھی ’برڈ واچر ڈے‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے، اور اس کے نام سے اورنتھولوجی کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
سالم علی انگریز دور میں بامبے پریزیڈنسی میں 12 نومبر 1896 کو ایک سلیمانی بوہرا خاندان میں پیدا ہوا۔ ابھی وہ محض ایک سال کا ہی تھا کہ اس کے والد معیز الدین نے اس جہانِ فانی کو الوداع کہہ دیا اور جب وہ تین سال کا ہوا تو اس کی والدہ زینت النساء بھی اسے داغِ مفارقت دے کر اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ عہدِ طفولیت ہی میں والدین کے سائے سے محروم ہونے کے بعد اس کے ماموں امیر الدین طیب جی اور ان کی اہلیہ حمیدہ بیگم نے باقی بھائی بہنوں کے ساتھ سالم علی کی پرورش کی۔
سالم علی نے اپنی بہنوں کے ساتھ بائبل میڈیکل مشن گرلز ہائی اسکول، گرگام ممبئی میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ان کا سینٹ زیویئر اسکول ممبئی میں داخل کرایا گیا۔
ان کے ماموں امیرالدین طیب جی رتبے والے اور رعب دار شکاری تھے۔ کندھے پر بندوق تانے وہ ہفتوں جنگلوں اور میدانوں میں شکار کی تلاش میں پھرا کرتے۔ ان کی بندوق دیکھ کر سالم علی کے دل میں اپنے پاس بھی بندوق رکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ماموں، جو سالم سے بہت پیار کرتے تھے، نے فوراً اسے ایک ایئر گن خرید کر دی۔ بھانجے نے اپنے ماموں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت جلد اپنا نشانہ پکا کر لیا۔ اب اس کے بچپن کی دوپہریں گھومنے، اور چڑیوں کے شکار میں گزرنے لگیں۔۔ لیکن پھر ایک واقعے نے اس کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔
ڈاکٹر سالم علی نے ایک ایسے وقت میں پرندوں پر اپنی تحقیق کا آغاز کیا جب پیشہ ور آرنتھیولوجسٹ شاید ہی کہیں پائے جاتے تھے۔ اس کے شوق کا آغاز بچپن میں اس کے ماموں کے ذریعے شکار کیے گئے ایک گردن پر پیلی دھاریوں والے پرندے کے نام کی کھوج سے ہوا۔
ایک دن اس کی ایئر گن کی زد میں ایک خوبصورت سی چڑیا آ گئی اور جب اس نے اس چڑیا کو اپنے چچا کو دکھایا تو انہوں نے نوخیز سالم علی کو بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی (بی این ایچ ایس) میں اس کی شناخت کے لیے بھیج دیا، جو ایک پان انڈیا وائلڈ لائف ریسرچ آرگنائزیشن ہے۔ وہاں سالم علی کے رضاعی دادا کام کرتے تھے۔
یہاں اس کی ملاقات سوسائٹی کے اعزازی سیکریٹری ڈبلیو ایس میلارڈ سے ہوئی۔ میلارڈ نے اس چڑیا کی شناخت زرد گردن والی گوریا کے طور پر کی اور دس سالہ سالم علی کو وہاں کے میوزیم میں بھوسے سے بھری چڑیاں دکھائیں۔ میلارڈ نے اس چھوٹے سے دس سالہ لڑکے کی دلچسپی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کو وہاں کے پرندوں کا پورا مجموعہ دکھایا۔ چڑیوں کو حنوط کر کے محفوظ کرنے کے طریقے سکھائے۔ اس کے علاوہ چڑیوں سے متعلق بہت ساری باتیں بتائیں۔ سالم پر حنوط شدہ پرندے، ان کی اقسام اور عادات، گویا ہر راز کھلنے لگا۔ یہی سالم علی کا فطرت سے ایک انوکھا رشتہ بنانے کا آغاز تھا۔ یہاں سے سالم کی زندگی یوں بدلی کہ پھر وہ چڑیوں کا عاشق بے بدل بن گیا اور تمام عمر چڑیوں کے پیچھے بھاگتا پھرا کیا۔
اس کی کہانی کا دوسرا موڑ وہ تھا، جب تیرہ چودہ سال کی عمر میں سالم علی کو مسلسل سر درد کی شکایت پر آب و ہوا کی تبدیلی کا مشورہ دیا گیا۔ اسکول سے چھٹی دلا کر سالم علی کو ان کے بڑے بھائی کے پاس پہلے سندھ اور پھر دوسرے بھائی کے پاس برما بھیج دیا گیا۔ برما کی آب و ہوا سے نہ صرف سالم کو بہت فائدہ ہوا بلکہ یہاں اسے جنگلوں کی سیر کی وہ آزادی ملی، جس میں پرندوں کو گہرائی سے دیکھنے کا مزہ تھا۔ اِس سے اُس کے شوق کو نئی جہت ملی۔ اس نے وہاں کے جنگلات میں سیر کرنے کے بہانے ان میں بھٹک کر پرندوں کا گہرائی سے مشاہدہ کرنے کا خوب لطف اٹھایا۔
ممبئی واپس آ کر سالم نے اپنی آگے کی پڑھائی کا دوبارہ آغاز کیا۔ 1917 میں سالم علی نے بی ایس سی بیالوجی میں مکمل کی۔ پھر قسمت اسے دوبارہ بچپن کے اسی میوزیم میں لے آئی، جہاں میلارڈ نے اسے چڑیوں کی دنیا سے روشناس کرایا تھا۔ وہاں، اس نے اپنے شوق کو اپنے پیشے میں ڈھالا اور فطرت کو سمجھنے کا سفر جاری رکھا۔ اس میوزیم میں وہ گائیڈ کی طرح کام کرنے لگا۔
1918 میں جب وہ بائیس سال کا تھا، اس کی شادی قریبی رشتے دار تہمینہ بیگم سے ہوئی۔ بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی کے میوزیم میں کام کے دوران اسے ایک سنہری موقع ملا۔ وہ ایک سال ٹریننگ کے لیے جرمنی چلا گیا اور ایک سال کی ٹریننگ کے دوران، اس نے پرندوں کی حفاظت اور ان کی نسلیں محفوظ رکھنے کے لیے جدید تکنیکیں سیکھیں۔ اگرچہ جرمنی سے لوٹنے کے بعد اسے غیر متوقع طور پر اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا، لیکن یہ لمحہ شاید ان کی زندگی کا سب سے خوبصورت موڑ تھا، کیونکہ یہی وقت ان کے شوق کو ایک نئے جنون میں بدلنے کا باعث بنا۔ سالم اور اس کی شریکِ حیات تہمینہ بیگم نے ہمت سے کام لیا اور فطرت کے قریب رہنے کے ارادے سے وہ ممبئی کے ایک ویران علاقے ماہیم منتقل ہو گئے۔ پیڑوں کی جھرمٹ کے درمیان واقع ان کا نیا گھر ایک سنسان جگہ پر تھا۔
یہاں کا ماحول سالم علی کو قدرت کے اور قریب لے آیا۔ وہ پو پھٹتے نکل جاتا اور شام تک چڑیوں کا مشاہدہ کرتا رہتا۔ چڑیوں کی مختلف اقسام، نسلیں اور ان کی عادات کا مشاہدہ کرنے کے لیے اب اس کے پاس وقت ہی وقت تھا۔ وہ صبح سے شام تک ان کا مشاہدہ کرنے اور نتائج اخذ کرنے میں وقت گزارتا۔ چلتے وقت اس کی نظریں آسمان کی طرف درختوں اور پہاڑوں پر جمی رہتیں۔ کئی بار ٹھوکر کھا کر وہ پانی سے بھرے گڑھوں میں گرا، لیکن اس کی پرندوں سے محبت اور جنون میں کوئی کمی نہ آئی۔
ایک روز، وہ جب جنگل کی طرف نکلا تو اسے بیا (مرغ جُلا) weaver bird کے گھونسلے نظر آئے۔ پوری لگن سے وہ ان گھونسلوں کے مشاہدے میں لگ گیا۔ مہینوں تک وہ بیا کے آدھے ادھورے گھونسلوں کا مشاہدہ کرنے میں لگا رہتا۔ اس نے دیکھا کہ نر بیا اپنے گھونسلے کو خوبصورتی سے بناتا ہے، تاکہ مادہ بیا اس کا انتخاب کرے۔ نر بیا اپنی محنت میں اس قدر محو ہوتا ہے کہ ایک ہی افزائش کے موسم میں دو یا تین گھونسلے تک بنا لیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دور میں سالم علی بیا کا مشاہدہ کر رہا تھا، اس وقت عالمی ماہرین طیور یہ مان چکے تھے کہ بیا نامی پرندوں کی نسل سو سال قبل ہی معدوم ہو چکی ہے۔ کماؤ کی پہاڑیوں سے سالم علی اس پرندے کو ڈھونڈ لایا تھا۔ یوں سالم علی کی تحقیق نے دنیا بھر میں یہ ثابت کر دیا کہ بیا کا وجود ابھی بھی زندہ ہے اور ان کی نسل معدوم نہیں ہوئی۔ یہی تحقیق اسے عالمی سطح پر شہرت کی بلندیوں تک لے گئی۔
واضح رہے کہ بیا چڑیا انتہائی عمدہ گھر بنانے کی ماہر کہلائی جاتی ہے اور یہ بہت اونچے درخت، عام طور پر تاڑ کے درخت کے چھجوں پر اپنے گھونسلے انتہائی نفاست سے بناتی ہے۔ اس کے گھونسلے میں ایک دروازہ داخلے کے لیے تو دوسرا نکلنے کے لیے ہوتا ہے، اور یہ وہ حفاظتی انتظام کے لیے بناتی ہے تاکہ اگر سانپ اس کے گھونسلے میں ایک دروازے سے داخل ہو تو وہ دوسرے دروازے سے نکل سکے۔ اتنا ہی نہیں وہ تاڑ کے پتوں کے ساتھ اپنے گھونسلے کو اس مضبوطی کے ساتھ بُنتی ہے کہ تیز سے تیز آندھیوں میں بھی اس کا گھونسلا محفوظ رہتا ہے۔ اس کے گھونسلے میں ایک جگہ خاصی مٹی ہوتی ہے اور اس میں مردہ کیڑا ہوتا ہے۔ در اصل وہ گیلی مٹی میں جگنو کو پکڑ کر لاتی ہے اور اس میں اڑس دیتی ہے تاکہ اس سے اسے اور اس کے بچوں کو روشنی ملتی رہے۔
آزادی کے بعد جب ہندوستان کا قدیم ادارے، ’بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی‘ (بی این ایچ ایس) پر مالی بحران کی وجہ سے تالا لگ چکا تھا، یہ سالم ہی تھا، جس نے سو سال قدیم ادارے بی این ایچ ایس کو دوبارہ قائم کیا اور وزیراعظم جواہر لال نہرو سے اپنے تعلقات کی بنا پر حکومت سے ادارے کے لیے فنڈز کی منظوری بھی حاصل کر لی۔ سالم علی کی تحقیق اور جستجو نے بھرت پور برڈ سینکچری کی تعمیر اور بچاؤ میں اہم کردار ادا کیا، جسے آج ’کیولادیو نیشنل پارک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سالم علی کو انگریزی ادب میں بھی گہری دلچسپی تھی۔اس کے انگریزی میں لکھے گئے مضامین کئی کتابوں میں شائع ہونے۔ اس نے چڑیوں پر کئی کتابیں تحریر کی ہیں اور اس کی کتابیں بہت سے تعلیمی اداروں کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔ 1930 میں اس نے اپنی تحقیقات شائع کرنا شروع کیں۔1941 میں ’دی بک آف انڈین برڈز‘ لکھی۔ اس کتاب میں چڑیوں سے متعلق تمام معلومات اور تصاویر جمع کیں۔ 1948 میں سڈنی ڈلن رپلے کے ساتھ مل کر سالم علی نے دس جلدوں پر مشتمل تاریخی اور عظیم الشان کتاب ’برڈز آف انڈیا اینڈ پاکستان‘ کی مشترکہ تصنیف لکھی، جس کا دوسرا ایڈیشن اس کی وفات کے بعد مکمل ہوا۔
ڈاکٹر سالم علی کا فطرت سے یہ رشتہ اس کی زندگی کا بڑا مقصد تھا۔ جنگلوں میں بھٹکتے، پرندوں کے پیچھے چلتے اور ان کے چہچہانے کی آوازوں میں مگن یہ شخص صرف ایک سائنسدان نہیں، بلکہ فطرت کا عاشق تھا۔ اس کے علاوہ ان کے خاندان کے کئی افرد نے ان کی دیکھا دیکھی اس میدان کو اپنایا اور آج وہ بھی ان کے راستے پر گامزن ہیں۔
اپنی عمر کے آخری سالوں میں سالم علی نے اپنی خود نوشت ’دی فال آف اسپیرو‘ (The Fall of Sparrow ) لکھی، جس میں اس کی زندگی کے سفر کا خلاصہ اور پرندوں کے ساتھ اس کی محبت کی داستان بیان کی گئی ہے۔
چڑیوں سے محبت کرنے والے اس شخص کا دوسرا عشق موٹر سائیکل سے تھا۔ اگرچہ اسے رفتار اور موٹر سائیکل سے کم عمری سے ہی لگاؤ تھا لیکن جب وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر صحت کے مسائل اور خاندانی کاروبار کی نگرانی کے لیے میانمار چلا گیا تو اس نے وہاں جرمنی کی بنی اپنی پہلی موٹر سائيکل لی۔
یہ این ایس یو کمپنی کی 5۔3 ایچ پی موٹر سائیکل تھی، جس پر وہ میانمار کے جنگلوں میں فراٹے بھرتا تھا۔ اس کے بعد اس نے جان مارسٹن لمیٹڈ کی سن بیم موٹر سائیکل لی جبکہ اس کے پاس ہارلی ڈیوڈسن کے تین ماڈلز تھے۔ اس کے علاوہ ہڈسن، سکاٹ، نیو ہڈسن اور زینتھ کمپنیوں کی موٹر سائیکلیں بھی اس کے پاس تھیں۔
اس کے موٹر سائیکل کے کریز کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ جب سویڈن کی اپسلا میں 1950 میں ’انٹرنیشنل اورنتھولوجیکل کانگریس‘ کا اجلاس ہوا اور اس میں اسے شرکت کی دعوت دی گئی تو اس نے بمبئی سے ایس ایس سٹراتھیڈن جہاز سے اپنی ’سن بیم‘ موٹر سائیکل منگوائی اور یورپ کے کئی ممالک سے گزرتا ہوا اپسلا پہنچا تو ان کے بارے میں یہ مشہور ہوگیا کہ وہ بمبئی سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اپسلا پہنچا ہے۔
اس ایڈونچر میں فرانس میں اسے کچھ چوٹیں بھی آئیں تھیں اور جرمنی میں وہ کئی جگہ گرا بھی تھا لیکن اس کا اسے افسوس نہیں تھا اور اگر انہیں افسوس تھا تو اس بات کا تھا کہ اس کے پاس بی ایم ڈبلیو کی موٹر بائیک کیوں نہ تھی!
اپنے کار ہائے نمایاں کی بدولت سالم علی کو متعدد اعزازات، جیسے جے پال گیٹی انٹرنیشنل ایوارڈ، انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کا گولڈن آرک، اور برٹش آرنیتھولوجی یونین کا گولڈن میڈل (غیر برطانویوں میں سب سے پہلے) جیسے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ اسے 1958 میں انڈیا کے تیسرے بڑے اعزاز پدم بھوشن اور 1976 میں دوسرے بڑے اعزاز پدم وبھوشن سے نوازا گیا۔ سالم علی پہلے غیر برطانوی شہری تھے جس نے 1967 میں برٹش آرنیتھولوجسٹ یونین کا گولڈ میڈل حاصل کیا۔
سالم علی پہلے ماہر طیور ہیں جس نے مغل بادشاہوں کو چڑیوں کو بچانے والا اور انہیں نیچرلسٹ قرار دیا۔ سالم نے دنیا بھر کے ماہرین طیور کے ساتھ نہ صرف انڈیا بلکہ افغانستان اور یورپ میں کام کیا اس نے ان کے پاؤں یا پنکھ پر شناختی کارڈ لگانے کا ہنر سیکھا اور اس کے ساتھ چڑیے کی کھال اتارنے کا ہنر بھی سیکھا۔
لیکن اس کے ساتھی ماہرین کا کہنا ہے کہ سالم علی کو ان چیزوں سے زیادہ دلچسپی چڑیوں کی زندگی کا مطالعہ کرنے میں تھی۔ سالم علی چڑیوں کے نام سے زیادہ اس کی انواع و اقسام پر فریفتہ تھا اور ان کی حرکات و سکنات پر اس سے زیادہ ماہر شاید کوئی دوسرا ماہر طیور نہیں تھا۔ اس نے آزادی سے قبل متعدد شاہی ریاستوں کی درخواست پر وہاں کے پرندوں پر تحقیق کی ہے اور ان کی درجہ بندی کی ہے۔
اس نے اپنے آخری ایام بمبئی سے دور بتائے لیکن 90 سال کی عمر میں بھی ان میں چڑیوں کے متعلق اُسی دس سال کے بچے کا سا تجسس تھا، جس نے گردن پر زرد ڈوری والی ایک گوریا کو مار گرایا تھا۔
سالم علی کا انتقال 20 جون 1987 کو ممبئی میں ہوا، مگر اس کے بعد بھی اس کے کام کو فراموش نہیں کیا گیا۔ 2016 میں ہندوستان میں پرندوں کی ایک نئی نوع دریافت ہوئی، جسے ان کے نام سے ’ہمالین فاریسٹ تھرش‘ یا سائنسی زبان میں Zoothera salimalii کا نام دیا گیا۔ اس کے علاوہ گوا کے پاس ان کے نام پر ایک برڈ سینکچوری قائم کی گئی۔
پرندوں کی دُنیا میں قدم رکھنے والا یہ شخص کبھی ایک جگہ رکا نہیں۔ حیدرآباد کی روشنیوں سے لے کر نیلگری کی پہاڑیوں، سندھ کے جنگلات سے افغان سرحدوں، دہرہ دون کی خاموشی سے بھرت پور کے دلکش جنگلات تک، اس نے ہر جگہ پرندوں کی جستجو کی۔ اس نے بہاولپور، افغانستان، کیلاش مانسرور، کَچھ اور بھرت پور جیسے علاقوں میں کافی وقت گزارا۔ جب کوئی عام انسان گھر میں آرام سے بیٹھا ہوتا تو سالم علی وادیوں میں گھوم رہا ہوتا، پہاڑی درّوں میں پرندوں کا تعاقب کر رہا ہوتا۔ برصغیر کا شاید ہی کوئی گوشہ بچا ہوگا، جہاں وہ نہ گیا ہو۔ وہ ایک زندگی بھر کی جستجو میں تھا، اور یوں اس نے برصغیر کے پرندوں کی داستان کو ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق میں محفوظ کر دیا۔ اس عظیم مسافر کا سفر فقط جغرافیائی حدود تک محدود نہ تھا، بلکہ اس کے دل اور قلم نے وقت کی وسعتوں میں بھی پرندوں کی داستان کو ثبت کر دیا۔
ڈاکٹر سالم علی کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عشق جب حدوں سے آزاد ہوتا ہے تو وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتا ہے۔ یہ کہانی صرف پرندوں کی نہیں، بلکہ اُس عاشق کی بھی ہے جو آسمانوں میں پرواز کرتے ان معصوم پرندوں کی زبانی اپنے خوابوں کو سچ کر گیا۔