ہنڈا اٹلس کمپنی کی غفلت اور انسانی جانوں کا زیاں

مبشر اکرام

واقعے کا پسِ منظر

یہ جو تصویر میں آپ کو خوش شکل سا نوجوان نظر آرہا ہے، اس کا نام محمد عامر ہے، جو گود میں اپنے بچے کو لیے بیٹھا ہے۔ یہ نوجوان میٹلرجی کے شعبے سے وابستہ تھا اور کراچی میں’’ہنڈا اٹلس‘‘ میں ملازم تھا۔ اس نوجوان کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ لیڈ پگھلانے والی فرنس میں ایلومینیم پگھلانا ہے۔ یہ ایک خطرناک عمل تھا لیکن ہائر مینیجمنٹ نے دباؤ ڈال کر یہ خطرناک تجربہ کرنے کا رسک لیا۔ نتیجتاً فرنس پھٹ گیا اور یہ نوجوان اپنے چھ اور ساتھیوں سمیت جھلس گیا۔

حادثہ ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد تک محمد عامر زندہ رہا اور اس حالت میں تھا کہ بیان دے سکتا، لیکن کمپنی مینیجمنٹ نے جان بوجھ کر ہسپتال پہنچانے میں دیر کی تاکہ جو جان باقی ہے، وہ بھی ختم ہوجائے اور بیان نہ لیا جا سکے۔

چھ لوگ اس خطرناک تجربے کی بھینٹ چڑھے تو ’’ہنڈا اٹلس‘‘ نے اب فوت ہونے والے ورثاء کو ڈرایا دھمکایا اور چند لاکھ روپوں کا لالچ دے کر کہا کہ کہ تمہارا بندہ تو گیا اس دنیا سے، لہٰذا اگر قانونی کاروائی کے چکر میں پڑو گے، تو جو چند لاکھ ملنے ہیں، وہ بھی نہیں ملیں گے۔ کپمنی نے ان ورثاء سے اسٹامپ پیپر پر لکھوا لیا کہ ہم عدالتی کاروائی نہیں چاہتے اور یہ ایک حادثہ تھا۔ باقی کے ورثاء تو بیچارے خاموش ہو گئے، لیکن محمد عامر کے بڑے بھائی ’’شریفﷲ‘‘ نے پاکستان کے پولیس اور عدالتی نظام سے مایوس ہوکر اس مقدمے کو سوشل میڈیا پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ آج کے دور میں جب ایک طرف ’’ہنڈا اٹلس‘‘ جیسا سرمایہ دار ہے اور دوسری طرف ایک مڈل کلاس بڑا بھائی تو سوشل میڈیا ہی آخری امید باقی بچتی ہے۔ شریفﷲ صاحب کا مطالبہ ہے کہ ایک انکوائری ہونی چاہیے کہ لیڈ والی فرنس میں ایلومینیم پگھلانے کا فیصلہ کس نے کیا؟ جس کا فیصلہ تھا اسے کٹہرے میں لایا جائے

محمد عامر نے جھلس جانے کے بعد بڑے بھائی کو کال کرکے کہا کہ میرے آفس میں ایک ڈائری پڑی ہے، جس میں آج کے تجربے کے بارے میں کچھ حقائق ہیں۔ اسکو پڑھا جائے، لیکن وہ ڈائری کیوں غائب کر دی گئی؟

حادثہ ہوتے ہی، حادثے کی جگہ کو لاک کر کے فرنس کے آس پاس کی جگہ کی صفائی کر دی گئی۔ کرائم سین سے شواہد کو کس کی اجازت پر صاف کیا گیا؟

کمپنی کو پتا تھا کہ آگ لگنی ہے، اس لیے پہلے سے آگ بجھانے کا سامان پاس لا کر رکھا گیا ، لیکن جب پتا تھا کہ آگ لگنے کا اندیشہ ہے تو چھ لوگوں کو اس آگ میں کیوں جھونکا گیا؟

جج صاب!! بس ایک سوموٹؤ کی درخواست ہے..
(شریفﷲ محمد)

دنیا کا کوئی ایسا آئین نہیں جس میں عدل و انصاف کے متعلق شاندار دفعات موجود نہ ہوں لیکن دنیا کی کسی حکومت کے پاس ایسا دستور موجود نہیں ہے جس کی پشت پر اللہ کی باز پرس کا عقیدہ موجود ہو۔

چیف صاحب پاکستان کی آزادی سے لیکر اج تک بے شمار جج گزرے ہیں لیکن لوگوں کو یا تو بہت اچھے جج یاد ہیں یا بہت ہی برے۔ جسٹس منیر کا نام کس حوالے سے زبان زد عام ہے اپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔

اپ چاہیں تو صرف جج بن کر ریٹائر ہوسکتے ہیں یادرد کے درماں بن کر۔ ماتحت عدالتوں میں جو ظلم کا بازار گرم ہے اس کا ایک چھوٹا سا حصہ اپکو دکھادیا جائے تو اپ کبھی سو نہ سکیں۔

14 نومبر 2018 کو ہنڈا اٹلس کی فیکٹری میں جو کچھ ہوا، وہ اتنا سنگین تھا کہ مکمل اہتمام سے اس سفاک تجربے کو  ٹھکانے لگانے کے باوجود کہیں کہیں کچھ چیزیں جو سامنے ائیں وہ اتنی سنگین ہیں کہ اسکو دنیا کی کوئی عدالت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اگر کوئی تحقیقاتی کمیشن بنتا تو  منی چرنوبل کہلاتا۔ مگر پاکستان میں تو مٹی پاؤ کی پالیسی پر کام چلتا ہے اور پوری طر ح سے مٹی ڈال کر برابر بھی کی جاچکی ہوتی اگر میری فیملی کھڑی نہ ہوتی۔

چیف صاحب آپ اگر چاہیں تو جوڈیشل ایکٹیوازم کا وہ باب  رقم کرسکتے ہیں جو آپکا نام امر کرسکتی ہے۔ اس ملک کے گلے سڑے نظام میں سدھار کا راستہ اسی طرح  نکلے گا ورنہ گدی نشین ہی بدلے گا۔  اگر اپ خاموشی سے آئے اور گئے کی تصویر  بنے تو یاد رکھئے گا کسی کو یاد نہیں رہیگا کہ گلزار کے نام سے ایک جج گزرا ہے جو چیف بھی تھا۔

14 نومبر  2018 کی صبح دس بجے اپنی قبر کے کھلے دہانے پر ایک چھوٹی سی پھونک کے منتظر بوڑھے #یوسف #شیرازی اور اسکی پیسے کی محبت میں غرق بچوں کی کمپنی ہنڈا اٹلس نے سیسے کی فرنیس میں ایلومینم پگھلایا اور بلاسٹ ہوگیا۔ چھ لوگ ناحق راکھ ہوئے اور لواحقین اپنے پیاروں کی لاشوں سے لپٹ کر رو بھی نہ سکے کیونکہ وہ خاک راکھ لاشیں تابوتوں میں ملفوف تھیں۔

سندھ حکومت کے ہر متعلقہ ادارے، پولیس، رینجرز اور دیگر اسوقت تک ہنڈا فیکٹری کے اندر نہ جاسکے جب تک یوسف شیرازی اور ان کی ذریت اور دیگر نے اطمینان بخش کاروائی نہ کرڈالی۔ اس پورے عمل میں پولیس بھی شامل تھی اور سندھ حکومت کے ادارے بھی۔

بعد میں پولیس، انڈسٹری، سیاسی چمچے، ممبران صوبائی اور قومی اسمبلی، مولوی غیر مولوی کوئی شخص ایسا نہیں تھا   جس نے ہم سے  پیسے لو اور کیس چھوڑدو کی فرمائش نہ کی ہو۔

مجسٹریت کی عدالت سے لیکر سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ تک ہنڈا اٹلس کے چار ٹاپ مینجرز کی گرفتاری کے آرڈر جاری ہوجاتے ہیں۔ اور یہ چار "صادق” مینجرز جنہوں نے قران پاک کا حلف اٹھاکر "سچی” گواہی دی تھی، احاطہ عدالت سے بھاگ پڑتے ہیں۔  دو دن پہلے انھیںاپ ہی کی ایک ماتحت عدالت نے کلین چٹ دے رخصت کردیا۔

ہم چاہتے تو ساڑھے آٹھ کروڑ وصول کرسکتے تھے مگر  ہم نے یہی سوچا کہ یہ کروڑوں کی خطیر رقم بھی ختم ہوجائی گی مگر اگر ہمارے کھڑے ہونے سے کسی کا عامر محفوظ ہوجائے تو اللہ کی رضا کمانے کا سودا ہوگا۔

سندھ حکومت کے لیبر ڈائریکٹریٹ کی لرزہ خیز رپورٹ بھی آپکی عدالت کو جھنجھوڑ نہ سکی۔ ویڈیوز سے تو سوشل میڈیا بھری پڑی ہے وہ بھی بے کار گئیں۔اور گواہیاں تو جھوٹی ہوتی ہیں تو معاملہ ختم۔  جذباتی باتیں نہ پہلے کی ہیں اور آئندہ کرنے ارادہ ہے۔ کیونکہ عدالت کو میرے جذبات سے کیا۔ لیکن عدالت ثبوتوں کو تو پرکھ سکتی ہے نا۔

چیف صاحب! یاد رکھئے روز حشر آپ سمیت بہت سارے منصفوں کا گریبان میرے ہاتھ میں ہوگا۔ دعوے سے کہتا ہوں۔ لیکن اگر آپکی عدالت میں یہ کیس لگے اور میں ذاتی طور پر یہ ثابت نہ کرسکا کہ اس دن سیسے کی فرنیس میں ایلومینیم کا تجربہ ہوا تھا تو  جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ لکھ کر رکھ لیں۔

جج صاب!! بس ایک سوموٹؤ کی درخواست ہے۔ کیونکہ جس آئین کی پشت پر اللہ کی باز پرس کا عقیدہ ہو، تو ڈریں اس دن سے جس دن نہ ذولفقار علی کی چلے گی اور نہ جسٹس گلزار کی!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close