چالیس سال کی عمر کے بعد انسانی دماغ میں آنے والی حیرت انگیز تبدیلیاں۔۔ اسے صحت مند کیسے رکھیں؟

ویب ڈیسک

سائیکو فزیالوجی جریدے میں پچھلے سال شائع ہونے والے ایک منظم جائزے میں ، آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے محققین نے سائنسی لٹریچر کا جائزہ لیا، جس میں یہ خلاصہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ انسانی دماغ کا رابطہ ہماری زندگی کے دوران کیسے بدلتا ہے۔ جمع کیے گئے شواہد بتاتے ہیں کہ زندگی کی پانچویں دہائی میں (یعنی انسان کے 40 سال کے ہونے کے بعد) دماغ ایک بنیاد پرست ’ری وائرنگ‘ سے گزرنا شروع کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں متنوع نیٹ ورکس آنے والی دہائیوں میں مزید مربوط اور جڑے ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ادراک اور فہم پر اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔

یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھےی جاتی ہے، ہماری جسمانی صلاحیتوں میں بھی کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر چالیس سے پچاس سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے اور عمر کے اس حصے میں ہمارے جسم کے مختلف اعضا میں بگاڑ آنا شروع ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر اِس عمر میں ہمارے پٹھوں کا حجم کم ہو جاتا ہے، بینائی کم ہو جاتی ہے اور جوڑوں میں خرابی آنا شروع ہو جاتی ہے۔

لیکن دماغ کے لیے یہ عمل تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔

بگاڑ کے بجائے کہا جا سکتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں ہمارے دماغ کے اندر کی ’وائرنگ‘ دوبارہ ہوتی ہے۔

آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی سے منسلک محققین کی ایک ٹیم نے انسانی جسم اور دماغ پر بڑھتی ہوئی عمر کے باعث پڑنے والے اثرات ہر ہونے والے ڈیڑھ سو مطالعات کا جائزہ لیا ہے۔

موناش یونیورسٹی کی نیوروسائنٹسٹ شرنا جمادار اس ریسرچ کے بارے میں بتاتی ہیں ”اگرچہ دماغ انسانی جسم کا صرف دو فی صد ہے، لیکن یہ ہمارے جسم میں داخل ہونے والی گلوکوز کا بیس فی صد حصہ اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ گلوکوز کو جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے“

وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا ”دماغ اپنے نظام کی ایک طرح سے ری-انجینیئرنگ کرتا ہے تاکہ جن اجزا کو وہ جذب کر رہا ہے اس کا بہترین استعمال ہو“

سائنسدانوں کے مطابق یہ عمل انقلابی ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں نیورانز کا نظام جسم کے ساتھ مزید ہم آہنگ ہوتا ہے، جس سے ذہنی سرگرمیوں پر اثر پڑتا ہے

لیکن اس تحقیق میں جس چیز نے محققین کو سب سے زیادہ حیران کیا، وہ یہ بات تھی کہ یہ ’ری وائرنگ‘ دماغ کی عمر بڑھنے میں رکاوٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔

شرنا کہتی ہیں ”ہمارے دماغ میں کیا عمل ہوتے ہیں یہ جاننا ضروری ہے، جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ ہم دماغ کی عمر بڑھنے کے منفی اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں“

حالیہ دہائیوں میں نیورو سائنسدانوں کی اہم کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے کسی حد تک یہ معلوم کیا ہے کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے۔

بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ اکائیوں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک سے بنا ہے، جو مختلف علاقوں، ذیلی حصوں اور بعض صورتوں میں انفرادی نیورونز میں تقسیم ہوتے ہیں۔

شرنا کہتی ہیں ”اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہماری نشوونما اور جوانی کے دوران یہ نیٹ ورک اور اس کی اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ بہت بہتر رابطے میں ہوتی ہیں“

یہی وجہ ہے کہ نوجوانی اور بچپن کی عمر میں کھیلوں اور نئی زبانوں کو سیکھنے کے ساتھ ساتھ عام طور پر اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینا آسان ہوتا ہے۔

موناش یونیورسٹی کی ٹیم کے تجزیے کے مطابق، جب ہم چالیس کے پیٹے میں داخل ہوتے ہیں تو یہ دماغی سرکٹس یکسر بدل جاتے ہیں

شرنا جمادار کے مطابق، اس کہ نتیجے میں انسان کی سوچ میں لچک کم ہو جاتی ہے، غیر مناسب رویے کو روکنے اور، لفظی اور عددی استدلال میں کمی آ جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں ”یہ تبدیلیاں عمر کی اِس نام نہاد پانچویں دہائی کے دوران لوگوں میں دیکھی جاتی ہیں۔ یہ ان نتائج سے مطابقت رکھتی ہیں کہ جب آپ اپنی چالیس کی دہائی سے پچاس کی دہائی میں جاتے ہیں تو ان نیٹ ورکس کے رابطوں میں تبدیلیاں عروج پر ہوتی ہیں“

اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے سالوں کی نسبت سرکٹس ایسے نیٹ ورکس کے ساتھ زیادہ جڑتے ہیں، جو عمومی اور نہ کہ مخصوص تھیمز کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔

نیورو سائنٹسٹ کے مطابق ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے چالیس سال سے پہلے سرکٹ ایسی دماغی اکائیوں سے گزرتے ہیں جو انتہائی پیچیدہ نیٹ ورکس سے منسلک ہوتی ہیں اور چالیس سال کے بعد، ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہ سرکٹ بلا امتیاز سبھی سرکٹوں سے جڑ جاتے ہیں“

ایک پہلو جس نے ہماری توجہ مبذول کروائی، وہ یہ ہے کہ وہ کام جو زندگی بھر پریکٹس کیے جانے والے خودکار یا بہت زیادہ دہرائے جانے والے عمل پر منحصر ہوتے ہیں، کم متاثر ہوتے ہیں یا ان میں بہتری بھی آ سکتی ہے۔

محقق کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو زیادہ کارآمد بنانے والی زبان یا دیگر موضوعات جو ہم عام طور پر سیکھتے ہیں وہ بڑھتی عمر کے ساتھ بہتر بھی ہو سکتے ہیں۔‘

بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ دماغ کی صحت اچھی رکھنے کے لیے اچھی غذا اور ورزش کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ لہذا یہ کہا جاتا ہے کہ گری والے میوے، اواکاڈو اور دیگر سبزیوں کو اس عمر میں بطور خاص کھانا چاہیے۔

شرنا کہتی ہیں کہ ’دماغ گلوکوز کو کم مقدار میں اور کم مؤثر طریقے سے استعمال کرے گا لہذا ہم جو غذائیں کھاتے ہیں اس کے ہمارے دماغ کی صحت پر فوری اثرات مرتب ہوں گے۔‘

اس لیے وہ ذہنی مشقیں کرنے کی بھی تجویز کرتی ہیں، جیسے کراس ورڈز اور دیگر دماغ کو تیز رکھنے والی گیمز کھیلنا۔ وہ ان نیٹ ورکس کو فعال رہنے میں مدد کریں گے جبکہ وہ اس وقت ایک دوسرے سے اتنے جڑے نہیں ہوں گے۔

مناسب خوراک، باقاعدہ ورزش ، اور صحت مند طرز زندگی دماغ کو اچھی طرح سے کام کرنے کی ترتیب میں رکھ سکتا ہے اور نیٹ ورکنگ تبدیلیوں کو روک سکتا ہے، بعض اوقات بڑھاپے میں بھی۔

دماغ کے اندرونی کام درحقیقت پراسرار ہوتے ہیں، لیکن سینکڑوں مطالعات اور ہزاروں دماغی سکینوں پر مشتمل اس عظیم الشان منظم جائزے کے ساتھ، ہم کم از کم سطحی نظریہ حاصل کرنا شروع کر رہے ہیں کہ یہ ہماری زندگی بھر میں کیسے بدلتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close