آج سب سے پہلے ہم دشمن کے حوالے سے کچھ باتیں کر لیتے ہیں۔ دشمن کا حلیہ بگاڑ دینا آپ کے بہت بڑے کارناموں میں شمار نہیں ہوتا۔ آپ ہمالیہ کی چوٹی سر کر لیں، یہ کارنامہ بھی آپ کے اعلیٰ کارناموں میں شمار نہیں ہوگا۔ بلکہ ایسا کارنامہ آپ کے کارناموں میں شمار نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ عام فہم اور چھوٹی سی ہے۔ آپ بذات خود بڑے ذہین ہیں۔ حال ہی میں آپ نے اپنا ووٹ بہت بڑے انتخابات میں کاسٹ کیا ہے جس کاحتمی نتیجہ ہفتوں بعد، مہینوں بعد اور برسوں بعد آتا رہے گا۔ ہمالیہ کی چوٹی سر کرنےجیسا غیر معمولی کارنامہ اس لیے آپ کے بڑے کارناموں میں شمار نہیں ہوگا، کیوں کہ ہمالیہ آپ کا دشمن نہیں ہے۔ آپ کی ہمالیہ سے کسی قسم کی کوئی عداوت نہیں ہوتی۔ آپ عداوت کے بغیر چوٹی سر نہیں کر سکتے۔ آپ نے اکثر اشتہاروں میں دیکھا ہوگا کہ ایک ماں کیسے اپنی بیٹی کی چوٹی مضبوط کرتی رہتی ہے۔ کیا پتہ بچی کی شادی کسی ایسے نامراد سے ہوجائے، جسے بیوی کو سبق سکھانے کے لیے بیوی کی چوٹی کھینچنے کی ہدایت ملی ہوئی ہو۔ اس تمہید کا مطلب ہے کہ دشمن کا حلیہ بگاڑنے جیسی کامرانی کا شمار آپ کے عالیشان کارناموں میں نہیں ہوتا۔
تاریخ کے اوراق میں آپ کا نام سرخرو تب ہوتا ہے، جب آپ تہس نہس کرنے کے بعد دشمن کو صفحہ ہستی سے غائب کر دیتے ہیں۔ اس کا نام ونشان مٹا دیتے ہیں… امریکہ کے سب سے بھیانک، ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے کا فعل امریکہ کے نمایاں کارناموں میں اس لیے شمار نہیں ہوتا کہ ہیرو شیما اور ناگاساکی کو مکمل طور پرتہس نہس کرنے کے باوجود آپ اپنے دشمن جاپان کو صفحہ ہستی سے گم کرنے میں ناکام رہے۔ ترقی یافتہ ملک ہونے کے علاوہ آج کل جاپان کا شمار دنیا کے ان گنتی کے ممالک میں ہوتا ہے، جو بے انتہا عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ جب تک آپ اپنے دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹا نہیں دیتے، تب تک آپ کی کوئی کاوش آپ کے بڑے کارناموں میں شمار نہیں ہوگی۔
صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا مطلب سمجھتے ہیں نا آپ؟ آپ اپنے دشمن کو اس طرح غائب کر دیں کہ ڈھونڈنے والوں کو آثار قدیمہ میں بھی ان کے آثار دکھائی نہ دیں۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ دشمن کا حلیہ بگاڑ دینا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے، مگر جب آپ دشمن کو گم کر دیتے ہیں، اس کو غائب کر دیتے ہیں، تب آپ کی کامرانی آپ کے نمایاں کارناموں میں شمار ہوتی ہے۔ مگر یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ اس نوعیت کے کام صرف ذہین لوگ کر سکتے ہیں۔ ہمارا شمار دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ دشمن کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا ہنر ہم بخوبی جانتے ہیں۔
انگریز سے ہماری دیرینہ دشمنی ہے۔ انگریز نے ہم سے ہندوستان کی حکومت چھینی تھی۔ ہندو سے نہیں چھینی تھی۔ انگریز نے ہندو مسلم نفاق کا بیج بویا تھا۔ اس نے پورے ہندوستان میں ریل گاڑیوں کا جال بچھا کر سینکڑوں اسٹیشنوں پر اور گاڑیوں میں ہمارا کھانا پینا ایک دوسرے کے لیے حرام کر دیا تھا۔ انگریز کے دور میں پورے ہندوستان کے ریلوے اسٹیشنوں پر ہندو کھانا اور مسلمان کھانا، ہندو پانی اور مسلمان پانی ملنے لگا تھا۔ یہ ایسا زہریلا پودا تھا، جس کا توڑ کسی کو نہ مل سکا۔ نفرت کا پودا قیامت تک پنپتا رہے گا۔ انگریز کو ہندو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، ہم نہیں سمجھتے کیوں؟ یہ میں نہیں جانتا۔ مگر ہم انگریز کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتے ہیں۔ ہم انگریزوں جیسا لباس نہیں پہنتے۔ اپنی والدہ کی طرح انگریزی میں سوچنے اور بولنے والے بلاول زرداری نے بھی انگریزی لباس ترک کر دیا ہے۔ اب وہ شلوار قمیض پہنتے ہیں۔ تین کروڑ لوگوں کے شہر کراچی میں دو یا تین انگریزی کتاب بیچنے والوں کی دکانیں ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کو لگنے والے بازاروں میں سیکنڈ ہینڈ یعنی پرانی انگریزی کتابیں مل جاتی ہیں۔ ہم انگریزی کھانا بھی نہیں کھاتے۔ یاد رہے کہ برگر امریکی کھانا ہے اور نوڈلز اور پاستہ اٹلی کے کھانے ہیں۔ تین سو لاکھ کی آبادی والے شہر سے شائع ہونے اور بِکنے والے انگریزی اخباروں کی سرکولیشن ایک لاکھ نہیں ہے۔ اپنا ملک ہمیں مل جانے کے بعد ہم نے اپنے دشمن نمبر ایک کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے جیسی حکمت عملی پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ انگریز نے کراچی کو بمبئی جیسا شہر بنانے کے لیے کراچی کے روڈ راستوں کو نامور انگریزوں کے نام دے دیے تھے۔ ہم وہ نام مٹانے کے درپے تھے۔ کراچی کے دو روڈ بہت زیادہ مصروف رہتے تھے اور اب بھی مصروف رہتے ہیں، پہلے سے کہیں زیادہ، ایک برنس روڈ اور دوسرے روڈ کانام تھا فرئیر روڈ۔ دونوں راستوں کا اختتام صدر میں ہوتا تھا۔ بھائی لوگوں نے برنس روڈ کو نیا نام دیا، محمد بن قاسم روڈ، اور فرئیر روڈ کو شاہراہ لیاقت کا نام دیا۔ دونوں راستوں پر خوبصورت فلیٹوں والی عمارتیں تھیں۔ نئے رہنے والوں نے بالکونیوں سے لوہے کی دیدہ زیب گرل نکال کر بیچ دیں اور بالکونیوں کو سیمنٹ کے بلاکوں سے بند کر کے چھوٹا سا کمرہ بنادیا، بلکہ ڈربہ بنا دیا۔
صدر میں ایلفنٹن اسٹریٹ کو نیا نام ملا زیب النسا اسٹریٹ۔۔ اور وکٹوریا روڈ کو کہنے لگے سر عبداللہ ہارون روڈ۔۔ اسی روڈ پر سر عبد اللہ ہارون کا بنگلہ تھا۔ اب اس بنگلے میں سر عبداللہ ہارون کے پڑ پوتے، پڑ پوتیاں، نواسے نواسیاں رہتے ہیں۔ کراچی کے سب سے بڑے، قدیم اور آج تک مصروف ترین روڈ کانام تھا بندر روڈ۔ بھائی لوگوں کو بندر روڈ پر بندر نظر نہیں آئے۔ بھائی لوگوں نے بندر روڈ کو نئے نام سے نوازا ، ایم اے جناح روڈ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)