چائے کی پیالی سے خزاں کی بوڑھی تھکن کو بہار کرتے رہے۔۔ چائے کی دلچسپ کہانی

چائے، ایک ایسا مشروب جو صدیوں سے ہماری زندگیوں میں شامل ہے، اپنی سادگی میں چھپی ہوئی پیچیدگیوں کے ساتھ ایک مکمل داستان ہے۔ چائے کا ہر گھونٹ اپنی نوعیت میں ایک نئی کہانی سناتا ہے، ایک ایسی داستان جو دل کو سکون دیتی ہے اور روح کو تروتازہ کرتی ہے۔ یہ محض گرم پانی میں ڈوبے ہوئے پتے نہیں، بلکہ ہر قطرہ اپنے اندر ایک پوری دنیا لیے ہوئے ہے۔

چائے کی خوشبو، جیسے کسی خوبصورت یاد کا لمس، ماضی کے کسی خوشگوار لمحے کی یاد دلاتی ہے۔ وہ لمحہ جب ایک سرسبز باغ میں، ایک نرم ہوا چل رہی ہو اور سورج کی ہلکی روشنی پتوں پر جھلک رہی ہو۔ چائے پینے کا عمل گویا ایک چھوٹا سا توقف ہے، ایک فرصت کا لمحہ جہاں ہم دنیا کی ہنگامہ آرائی سے نکل کر اپنے اندر جھانکتے ہیں۔ جیسے ہر گھونٹ کے ساتھ ہماری اندرونی بےچینی کم ہوتی ہے، اور سکون کی ایک نئی لہر دل میں سرایت کر جاتی ہے۔

چائے پینے والے بھی اس کی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ صبح کی چائے، دن کے آغاز کا استعارہ ہے، جبکہ شام کی چائے دن کے اختتام کا ایک پرسکون لمحہ۔ چائے صرف ایک مشروب نہیں، بلکہ ایک ساتھی ہے جو ہمارے تنہائی کے لمحات میں ہمارے ساتھ ہوتی ہے، دوستوں کی محفل میں خوشی بانٹتی ہے، اور فکر و خیال کی دنیا میں ہمیں غوطہ زن کر دیتی ہے۔

چائے کا ایک کپ گویا ایک لمحہ کا جشن ہے، ایک ایسا لمحہ جہاں زندگی کی سادگی اور خوبصورتی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہر کپ چائے ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ سکون اور راحت کے لمحات ہماری روزمرہ کی زندگی میں کہیں گہرائی میں موجود ہیں، بس انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

سفر کے کاروانوں سے لے کر سیاسی انقلابوں تک، دوستوں کی بیٹھکوں سے ادبی محفلوں تک چائے ہمیشہ انسانوں کی ساتھی رہی ہے۔ چائے کو معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے زندگی چاہے کٹھن راستوں پر گامزن ہو یا پھر خوشیوں کے ہنڈولے جھول رہی ہو۔ زندگی کے کٹھن راستے سے کیسے باہر نکلا جائے یا پھر خوشیوں سے کیسے لطف اندوز ہوا جائے اس بات پر غور و خوض کے لیے بڑے اہتمام سے چائے کی میز سجائی جاتی ہے۔ ذاتی زندگی کے اہم معاملات ہوں یا پھر ملکی اہم امور کے فیصلے ہوں انہیں باہمی مشورہ سے چائے کی میز پر ہی حل کیا جاتا ہے۔ اور تو اور بخار ہو یا سر درد، برسات کا موسم ہو یا سردیوں کی شامیں، گرمی کا زور ہو یا اندرونی گرمی، امتحانات میں راتوں کو جاگنے کے لیے نیند بھگانی ہو یا لکھنے کے لیے تخیل کی ضرورت ہو یا تھکن مٹانی ہو چائے کا ایک کپ ہی کافی ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں چائے کو دو بنیادی الفاظ میں بولا جاتا ہے، پہلا ’ٹی‘ (te) اور دوسرا ’چا‘ (cha) جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ کے بہت سے حصوں میں چائے کا لفظ ’چا‘ سے ماخوذ ہے۔

جبکہ مینڈارن میں: 茶 یعنی (چا) ، عربی میں: شاي (چائی) ، ترکی میں: çay یا (چائے) ، ہندی میں: चाय یا (چائے) ، انگریزی میں: tea ، فرانسیسی میں: thé ، ہسپانوی میں: té اور جرمن میں: tee کہا جاتا ہے۔

ذیل کی سطور میں ہم چائے کی تاریخ، چائے کی شکل میں کارپوریٹ دنیا کی سب سے بڑی چوری، کالی چائے سے دودھ پتی بننے کے سفر اور چائے کے متعلق دلچسپ حقائق کے بارے میں جانیں گے۔

چائے کی تاریخ

چائے کی تاریخ بھی اتنی ہی دلکش ہے جتنی اس کی خوشبو۔۔ چین کی قدیم تہذیبوں سے لے کر انگلستان کے درباروں تک، چائے کا سفر بھی ایک داستان ہے جو ثقافتوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ ایک چھوٹے سے پودے نے کیسے انسانیت کو ایک مشترکہ ذائقے کے دھاگے میں پرویا، یہ حیران کن ہے۔ ہر ثقافت نے چائے کو اپنے انداز میں اپنایا، لیکن اس کا بنیادی مقصد ہمیشہ ایک ہی رہا: چائے کی پیالی سے خزاں کی بوڑھی تھکن کو بہار کیا جائے۔۔

چائے کی دریافت اور ابتدا کے بارے میں کئی دلچسپ اور قدیم کہانیاں موجود ہیں، جن میں سے سب سے مشہور چین کی داستان ہے۔ چائے کا پودا ہزاروں سال سے مشرقی تہذیبوں کا حصہ رہا ہے، اور اس کی ابتدا کے متعلق کئی افسانوی کہانیاں بھی بتائی جاتی ہیں۔

چائے کی ابتدا کی سب سے معروف کہانی چین کے ایک قدیم دیو مالائی شہنشاہ شن نونگ (Shen Nong) سے منسوب ہے، جو تقریباً 2737 قبل مسیح میں زندہ تھا، جو کہ ایک کسان بھی تھا اور چینی عقائد کے مطابق زراعت کے بانی بھی۔ اسے صفائی کا اس قدر خیال تھا کہ اس نے تمام رعایا کو حکم دیا کہ وہ پانی ابال کر پیا کریں۔

اس حوالے سے دو روایات پائی جاتی ہیں، ایک روایت کے مطابق بادشاہ شینونگ نے اپنے ایک مذہبی سفر کے دوران غلطی سے ایک زہریلی جڑی بوٹی کھا لی تھی، جس کے بعد وہ مرنے کے قریب پہنچ گیا۔ اسی وقت ایک پتّا ہوا میں اڑتا ہوا اس کے منہ میں چلا گیا، شننونگ نے اس پتے کو چبا لیا اور اسی پتے نے اسے مرنے سے بچا لیا۔

ایک اور روایت کے مطابق، چونکہ شن نونگ صحت اور زراعت کا بانی و ماہر سمجھا جاتا تھا اور اپنے تجربات کے ذریعے جڑی بوٹیوں اور پودوں کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک دن جب شہنشاہ اپنے محل کے باغ میں آرام کر رہا تھا، اس کے سامنے رکھے ابلتے گرم پانی کے پیالے میں اچانک ایک جنگلی چائے کا پتہ آ کر گر گیا۔

شہنشاہ نے جب اس پانی کا ذائقہ چکھا، تو اسے اس میں تازگی محسوس ہوئی۔ پانی کا رنگ ہلکا سا بدل چکا تھا، اور ذائقہ نہایت خوشگوار اور فرحت بخش تھا۔ اسے نہ صرف اس کا ذائقہ پسند آیا بلکہ اسے پینے سے اس کے بدن میں چستی بھی آ گئی۔ شہنشاہ نے فوراً چائے کی خاصیت کو سمجھا اور اسے ایک صحت بخش مشروب قرار دیا۔ بادشاہ نے عوام کو حکم دیا کہ وہ بھی اسے آزمائیں۔ اسی دن سے، چائے ایک قدرتی دوائی اور روزمرہ کے مشروب کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ یوں یہ مشروب چین کے کونے کونے تک پھیل گیا، وہاں سے یہ چائے سیاحوں اور تاجروں کی مدد سے پوری دنیا میں پھیلی۔

ایک اور مشہور کہانی بھارت سے منسوب ہے، جو چائے کے تعلق کو روحانیت سے جوڑتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گوتم بودھا جب اپنی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے مراقبے میں مصروف تھے، تو انہوں نے طے کیا کہ وہ کئی سالوں تک بغیر سوئے اپنا روحانی سفر جاری رکھیں گے۔ لیکن کئی دنوں کے بعد، وہ تھکن کا شکار ہو گئے اور نیند نے انہیں آ گھیرا۔ اسی وقت انہوں نے قریب کھڑے ایک چائے کے پودے سے کچھ پتے چبا لیے، اور ان پتوں نے انہیں فوراً تازگی بخش دی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ بیدار ہو گئے اور اپنی عبادت جاری رکھی۔ یہ کہانی چائے کو روحانی بیداری سے جوڑتی ہے، اور اس بات کی علامت سمجھی جاتی ہے کہ چائے ذہن کو تازگی بخشنے اور روح کو توانائی دینے کا ذریعہ ہے۔

جاپان میں چائے کی کہانیاں زین فلسفہ سے جڑی ہوئی ہیں۔ جاپانی روایت کے مطابق، چائے کا استعمال وہاں کے راہبوں نے زین بدھ مت کے عمل میں شامل کیا۔ چائے نہ صرف جسمانی تازگی کے لیے تھی بلکہ مراقبے کے دوران ذہنی یکسوئی اور سکون حاصل کرنے کا ذریعہ بھی تھی۔ جاپانی ’چائے کی تقریب‘ (Tea Ceremony) چائے کے ساتھ اس روحانی تعلق کو نمایاں کرتی ہے، جہاں ہر گھونٹ ایک پرسکون اور مراقبہ کے تجربے کا حصہ ہوتا ہے۔

چائے کا مغرب میں تعارف 17ویں صدی میں ہوا، جب پرتگالی اور ڈچ تاجروں نے چین اور بھارت سے چائے کو یورپ میں متعارف کرایا۔ انگلستان میں چائے کا مقبول ہونا خاص طور پر 1660ء کے بعد ہوا، جب پرتگالی شہزادی کیتھرین آف براگنزا نے چائے کو شاہی محل میں رائج کیا۔ اس کے بعد چائے انگلستان کی ثقافت کا اہم حصہ بن گئی اور ’افٹرنون ٹی‘ کی روایت وجود میں آئی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برِصغیر میں چائے کا استعمال ایک دوائی کے طور پر کیا جاتا تھا۔ پانی میں چائے کی پتیاں ابال کر قہوہ بنایا جاتا تھا اور اسے پیا جاتا تھا۔

چائے کی صورت میں کارپوریٹ دنیا کی سب سے بڑی چوری

ایک تحقیق کے مطابق پانی کے بعد چائے دنیا کا مقبول ترین مشروب ہے اور دنیا میں روزانہ دو ارب لوگ اپنے دن کا آغاز چائے کی گرماگرم پیالی سے کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس دوران کم ہی لوگوں کے دماغ میں یہ خیال آتا ہو گا کہ یہ مشروب جو ان کے مزاج کو فرحت اور دماغ کو چستی بخشتا ہے، ان تک کیسے پہنچا۔

چائے کی یہ کہانی کسی سنسنی خیز ناول سے کم نہیں۔ یہ ایسی کہانی ہے جس میں حیرت انگیز اتفاقات بھی ہیں، پرفریب جاسوسی مہم جوئیاں بھی، سامراجی ریشہ دوانیاں بھی، خوش قسمتی کے لمحات بھی اور بدقسمتی کے واقعات بھی۔

کہانی شروع ہوتی ہے ایسٹ انڈیا کمپنی سے، جو مشرق سے ہر قسم کی اجناس کی تجارت کی ذمہ داری تھی۔ اسے چائے کی پتی مہنگے داموں چین سے خریدنا پڑتی تھی اور وہاں سے لمبے سمندری راستے سے دنیا کے باقی حصوں کی ترسیل چائے کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز شدت سے چاہتے تھے کہ خود اپنی نوآبادی ہندوستان میں چائے اگانا شروع کر دیں تاکہ چین کا پتّا ہی کٹ جائے۔

اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس راز سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب کمپنی نے رابرٹ فارچیون کو اس پُرخطر جاسوسی مہم پر بھیجا تھا۔

اس مقصد کے لیے اسے چین کے ان علاقوں تک جانا تھا جہاں شاید مارکوپولو کے بعد کسی یورپی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ فوجیان صوبے کے پہاڑوں میں سب سے عمدہ کالی چائے اگتی ہے، اس لیے اس نے اپنے رہبر کو وہیں کا رخ کرنے کا حکم دیا۔

سر منڈوانے، بالوں میں نقلی مینڈھی گوندھنے اور چینی تاجروں جیسا روپ دھارنے کے علاوہ فارچیون نے اپنا ایک چینی نام بھی رکھ لیا، سِنگ ہُوا۔ یعنی ’شوخ پھول۔‘

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے خاص طور پر ہدایات دے رکھی تھیں کہ ’بہترین چائے کے پودے اور بیج ہندوستان منتقل کرنے کے علاوہ آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ اس پودے کی کاشت اور چائے کی پتی کی تیاری کے بارے میں ہر ممکن معلومات حاصل کر کے لائیں تاکہ انہیں بروئے کار لا کر ہندوستان میں چائے کی نرسریاں قائم کرنے میں ہر ممکن مل سکے۔‘

اس مہم میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ اگر فارچیون کامیاب ہو جاتا تو چائے پر چین کی ہزاروں سالہ اجارہ داری ختم ہو جاتی اور ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں چائے اگا کر ساری دنیا میں فراہم کرنا شروع کر دیتی۔ لیکن دوسری طرف اگر وہ پکڑا جاتا تو اس کی صرف ایک ہی سزا تھی۔ موت! اس کی وجہ یہ تھی کہ چائے کی پیداوار چین کا قومی راز تھی اور اس کے حکمران صدیوں سے اس راز کی حفاظت کی سرتوڑ کوششیں کرتے آئے تھے۔

فارچیون تربیت یافتہ ماہرِ نباتیات تھا اور اس کے تجربے نے اسے بتا دیا تھا کہ چند پودوں سے کام نہیں چلے گا، بلکہ پودے اور ان کے بیج بڑے پیمانے پر اسمگل کر کے ہندوستان لانا پڑیں گے تاکہ وہاں چائے کی پیداوار بڑے پیمانے پر شروع ہو سکے۔

یہی نہیں، اسے چینی مزدوروں کی بھی ضرورت تھی تاکہ وہ ہندوستان میں چائے کی صنعتی بنیادوں پر کاشت اور پیداوار میں مدد دے سکیں۔

فارچیون کی محنت رنگ لائی اور بالآخر وہ حکام کی آنکھ بچا کر کشتیوں، پالکیوں، گھوڑوں اور دشوار گزار راستوں پر پیدل چل کر تین ماہ کے دشوار گزار سفر کے بعد فارچیون کوہِ وویی کی ایک وادی میں قائم چائے کے ایک بڑے کارخانے تک چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھی ہندوستان لانے میں کامیاب ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی نگرانی میں آسام کے علاقے میں یہ پودے اگانا شروع کر دیے۔

لیکن اس معاملے میں ایک سنگین غلطی ہو گئی۔ فارچیون جو پودے لے کر آیا تھا وہ چین کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے ٹھنڈے موسموں کے عادی تھے۔ آسام کی گرم موطوب ہوا انھیں راس نہیں آئی اور وہ ایک کے بعد ایک کر کے سوکھتے چلے گئے۔ اس سے قبل کہ یہ تمام مشقت بےسود چلی جاتی، اسی دوران ایک عجیب و غریب اتفاق ہوا اور فارچیون کے سامنے آسام میں اگنے والے ایک پودے کا معاملہ سامنے آیا۔

اس پودے کو ایک اسکاٹش سیاح رابرٹ بروس نے 1823 میں دریافت کیا تھا۔ چائے سے ملتا جلتا مقامی پودا آسام کے پہاڑی علاقوں میں جنگلی جھاڑی کی حیثیت سے اگتا تھا۔ تاہم زیادہ تر ماہرین کے مطابق اس سے بننے والا مشروب چائے سے کمتر تھا۔

فارچیون کے پودوں کی ناکامی کے بعد کمپنی نے اپنی توجہ آسام کے اس پودے پر مرکوز کر دی۔ فارچیون نے جب اس پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ چینی چائے کے پودے سے بےحد قریب ہے، بلکہ ان کی نسل ایک ہی ہے۔

اور یوں کارپوریٹ دنیا کی تاریخ میں انٹیلیکچوئل پراپرٹی کی سب سے بڑی چوری ناکامی کے دہانے پر پہنچ کر بلآخر کامیاب ہو گئی۔

بہرحال اس سارے عمل میں چین سے اسمگل شدہ چائے کی پیداوار اور پتی کی تیاری کی ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ کارکن بے حد کارآمد ثابت ہوئے۔ جب ان طریقوں کے مطابق پتی تیار کی گئی تو تجربات کے دوران لوگوں نے اسے خاصا پسند کیا۔

 چائے کا دودھ پتی چائے بننا

چینی تو ہزاروں برس سے کھولتے پانی میں پتی ڈال کر پیا کرتے تھے مگر انگریزوں نے اس مشروب میں پہلے چینی اور بعد میں دودھ ڈالنا شروع کر دیا، جس کی اپنی ایک دلچسپ وجہ ہے

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ برصغیر میں چائے کو برطانویوں نے متعارف کرایا تھا اور ان سے ہی ہم نے اس مشروب کی تیاری کا طریقہ کار سیکھ کر اپنایا جو جب سب ایسے ہی چلا آ رہا ہے۔

انگریزوں نے چائے میں دودھ کا اضافہ اٹھارہویں صدی میں اس وقت کیا تھا جب اس مشروب کو پتیلیوں میں تیار کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں چائے کو اسٹیٹس سمبل کی علامت بھی سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس مشروب کو چائنا کپس میں پینے کے عادی تھے۔

مگر متعدد افراد فینسی چائنا کپس کو خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے اور ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ان کپوں میں گرم چائے ڈالنے کے بعد حرارت سے سرامکس میں دراڑیں پڑجاتی تھیں۔

تو اس کا حل دودھ کی شکل میں سامنے آیا۔۔ یعنی کپ میں پہلے دودھ کو ڈالا جاتا اور پھر چائے کو انڈیلا جاتا۔

ٹھنڈا دودھ چائے کو اتنا ٹھنڈا کر دیتا کہ کپ ٹوٹ نہ سکے جبکہ اس مشروب کی تلخی بھی گھٹ جاتی یعنی ذائقے کا ایک اضافی فائدہ بھی مل جاتا۔

اس زمانے میں چائے یا یوں کہہ لیں کہ اس کی پتی اتنی زیادہ قیمتی ہوتی تھی کہ متعدد خاندان زیادہ مقدار میں اسے استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔

تو وہ دودھ کا زیادہ جبکہ چٹکی بھر پتی کا استعمال کرتے جس سے چائے کی دودھ پتی کی قسم بھی وجود میں آ گئی جبکہ اس زمانے میں امیر خاندان زیادہ پتی اور بہت کم دودھ کی چائے پینا پسند کرتے تھے۔

دودھ والی چائے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انڈیا میں اگنے والے چائے کا پودا کیمیلیا سینینسِس آسامیکا کی ہی ایک ذیلی نسل ہے۔ آسام چائے کا ذائقہ سبز کی بجائے کالی چائے کی شکل میں زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ آکسیڈیشن یا عملِ تکسید سے پتے کالے ہو جاتے ہیں جو اس کا پھولوں جیسا ذائقہ ختم کر کے اسے گاڑھا، تیز اور ’جو‘ جیسا بنا دیتے ہیں۔ عموماً پہلے انگلش بریک فاسٹ چائے جس میں آسام کی چائے ہوتی تھی بہت تیز ہوتی تھی اور اسی وجہ سے اس میں دودھ ڈالنے کی ضرورت پیش آئی۔

آج کل برطانیہ میں انگلش بریک فاسٹ چائے میں دودھ ڈالا جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ یورپ کے دوسرے حصوں میں چائے میں دودھ ڈالنے کا رواج نہیں ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ نیدرلینڈز میں چائے انڈونیشیا کے علاقے جاوا سے آتی تھی جو تیز نہیں تھی اور اس میں دودھ ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اور یہی پھر یورپ، سپین اور جرمنی میں مقبول ہوئی۔

ایک اور روایت کے مطابق تیرہویں صدی عیسوی میں جب چین پر منگول فاتح قبلائی خان کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے اپنے پسندیدہ تلخ قہوے کا ذائقہ بہتر کرنے کے لیے اس میں دودھ اور شکر کی آمیزش شروع کی اور پھر چین میں موجود منگول لشکریوں میں بھی یہ ”نیا مشروب“ مقبول ہوگیا۔

اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دودھ، شکر ملی چائے کا برصغیر میں رواج انگریزوں نے انیسویں صدی کے آغاز میں شروع کیا۔ اس سے قبل صدیوں سے ہندوستان میں سبز چائے، سنہری قہوے اور کشمیری چائے کا راج چلتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نے ہندوستانی فوجیوں کو، غذائی قلت کی وجہ سے دودھ کے بجائے، شکر اور دودھ آمیز کالی چائے راشن میں دینی شروع کی۔ لانگری بڑے دیگچوں میں یہ آمیزہ پکاتے اور بھنے چنوں کے ساتھ فوجیوں کو ناشتے میں دیتے۔ کالی چائے میں موجود ”کیفین“ کی زیادہ مقدار چوں کہ پینے والوں کو اس کا عادی بنا دیتی ہے۔ اس لئے فوجی چھاؤنیوں میں یہ مشروب بہت مقبول ثابت ہوا۔

دودھ پتی چائے کے حوالے سے مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب ’غبارِ خاطر‘ میں لکھتے ہیں، ”چائے چینیوں کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جا رہی ہے لیکن وہاں کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔ مگر سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی کہ انھوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔ اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انھی کے ذریعے ہوا، اس لیے یہ بدعتِ سیئہ یہاں بھی پھیل گئی، رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی بجائے دودھ میں چائے ڈال کر پینے لگے۔۔۔ اب لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں، کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان نادانوں سے کون کہے: ہائے کم بخت تم نے پی ہی نہیں!“

چائے کا جدید سفر

برصغیر میں چائے عموما دو وقت پی جاتی ہے۔ صبح نئے دن کی ابتدا کے ساتھ اور شام کو دن بھر کی تھکن دور کرنے کے لیے۔ دوپہر یا شام کی چائے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔

کہتے ہیں کہ بیڈفورڈ کی ساتویں ملکہ این دوپہر کی چائے کی ذمہ دار ہیں۔ صبح اور رات کے کھانے کے طویل درمیانی وقفے کو انہوں نے چائے معہ بسکٹ کے حل کیا۔ رفتہ رفتہ بسکٹ کے ساتھ دوسرے ہلکے پھلکے لوازمات بھی اس میں شامل ہوتے گئے۔ چائے اعلٰی طبقے کا فیشن بن گیا۔ اس عادت کو انگریز ہندوستان لے آئے اور یہاں بھی خاص و عام اس کا عادی ہو گيا۔

چائے بنانے کے بھی مختلف طریقے ہیں۔ ہمارے ہاں عام چائے پانی، دودھ، شکر اور چائے کی پتی کو ابال کر بنتی ہے جو سڑک کے کنارے موجود چائے خانوں اور ریلوے اسٹیشن پر دستیاب ہوتی ہے اور اسے عوام پیتی ہے۔

لیکن اعلٰی طبقے نے انگریزوں کی تقلید میں اس کے تکلفات کو بھی اپنا لیا اور چائے کشتی میں چینک (کیتلی)، شکر کی پیالی دودھ کے جگ کے ساتھ پیش ہونے لگی۔ وہ چائے مکس چائے تھی اور یہ الگ الگ۔ آج بھی بعض ریستورانوں میں خدمتگار یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ کیسی چائے پیئيں گے، مکس یا الگ الگ (سیپریٹ)؟

چائے کی مقبولیت سے کئی چیزیں پروان چڑھیں۔ چائے پہلے مٹی کے پیالے میں پی جاتی تھی۔ اس پیالے کو کلڑھ کہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ پیالی اور طشتری رواج میں آئی۔ طرح طرح کے پیالے اور قلفیاں بازار میں فروخت ہونے لگیں۔ اور اب اس کا رواج بھی ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اب چائے بڑے چھوٹے مگوں میں پیش ہونے لگی ہے۔ اب چائے کی چینک اور کیتلیاں شاذونادر ہی نظر آتی ہیں۔ نئی طرح کی چینک، مختلف قسم کی کیتلی، چائے کو گرم رکھنے کے لیے غلاف یا ٹی کوزی اور کشتی پر بچھا ہوا ٹرے کور سب زندگی کی مصروفیات کی نذر ہو گئیں۔

چائے زندگی کی ضرورت کے ساتھ تہذیب کا بھی حصہ ہیں اور گھر آنے والے کو چائے کے لیے پوچھنا بھی اس میں شامل ہے۔ اہم گفتگو اکثر چائے کی پیالی پر کی جاتی ہے۔

◼️ چائے کے بارے دلچسپ حقائق

◉ ایک پاؤنڈ چائے بنانے کے لیے تقریباً 2000 چھوٹے پتے درکار ہوتے ہیں۔

◉ دنیا میں تقریباً 3000 مختلف اقسام کی چائے پائی جاتی ہیں۔ پانی کے بعد چائے دنیا میں دوسرا سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔ دنیا بھر میں چائے کی سالانہ کھپت 3.6 بلین کپ ہے۔

◉ تمام چائے جیسے کہ سیاہ چائے، سفید چائے، سبز چائے، اور اوولونگ چائے، ایک ہی پودے سے حاصل کی جاتی ہیں جس کا نام Camellia Sinensis ہے۔ ان کا ذائقہ، رنگ، اور خوشبو مختلف ہوتی ہے کیونکہ ان کے پروسیسنگ کے طریقے مختلف ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ مختلف چائے مختلف پودوں سے حاصل ہوتی ہے تو تو آپ بالکل غلط ہیں۔ چائے چاہے سبز ہو، سیاہ ہو یا کوئی اور، یہ سب ایک ہی پودے سے حاصل کی جاتی ہیں۔

◉ دنیا کی سب سے مہنگی چائے کی تھیلی انگلینڈ کے Boodles جیولرز کی بنائی ہوئی ہیروں سے مزین تھیلی ہے۔ اس کی قیمت £7000 ہے اور اسے خیرات کے لیے نیلام کیا گیا۔

◉اب چائے لگ بھگ 52 ممالک میں اگائی جاتی ہے – سب سے پرانا چائے کا درخت چین میں ہے جس کی عمر 3200 سال ہے۔

◉چائے کے پتے مچھروں کو بھگانے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر سبز چائے کے پتے مچھروں سے بچنے کا قدرتی طریقہ ہیں۔

◉ چائے کو صدیوں تک بطور دوا استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس سے پہلے کہ یہ ایک روزمرہ کا مشروب بنے۔

◉ چائے اپنے ارد گرد کی خوشبو کو جذب کر لیتی ہے، لہٰذا چائے کے پتوں کو ہوا بند برتن میں کمرے کے درجہ حرارت پر محفوظ کریں کیونکہ یہ نمی کو جذب کر کے خراب ہو سکتے ہیں۔

◉ روس میں زیادہ تر چائے چین سے آنے والے اونٹوں کے کارواں لاتے تھے۔ یہ اونٹوں کے کارواں مہینوں سفر کرتے اور چائے لے کر برِ اعظم کے دوسری طرف پہنچتے۔ راتوں کو ان کے کیمپوں کے باہر آگ لگانے سے پیدا ہونے والا دھواں آہستہ آہستہ چائے میں جذب ہوتا رہتا اور جب یہ ماسکو یا سینٹ پیٹرزبرگ پہنچتے تو چائے کے پتوں میں دھویں کا ذائقہ آ جاتا جو اس چائے کی خاصیت تھا اور اسی لیے اسے آج بھی ہم رشیئن کارواں چائے کہتے ہیں

◉ جاپان میں چائے چھٹی عیسویں کے آس پاس چین سے واپس آنے والے جاپانی مذہبی پیشوا اور سفارتکار لائے تھے اور دیکھتے دیکھتے یہ مذہبی برادری کا پسندیدہ مشروب بن گیا۔ اور کئی صدیوں تک سبز چائے اونچے طبقے کا خاص مشروب رہا۔
چین کے بودھ بھکشوؤں نے 15ویں صدی میں چائے کی تقریب متعارف کرائی لیکن جاپانیوں نے اسے اپنی ایک باقاعدہ رسم بنا دیا جو کہ بعد میں ایک نیم مذہبی اور سماجی روایت بن گئی۔

◉ کہا جاتا ہے کہ جب پہلی مرتبہ 1657 میں چائے لندن لائی گئی تو لوگ اس بات پر پریشان تھے کہ اس کو پینے کا بہترین طریقہ کون سا ہے۔ یہ ایک مہنگی چیز تھی جو ہر کوئی نہیں خرید سکتا تھا اور دیکھتے ہی یہ نفاست کی علامت بن گئی۔لیکن ہر کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ لوگ انھیں بھگو دیتے اور پھر اسے کھاتے یا مکھن لگے ٹوسٹ پر اسے رکھ کر کھاتے۔

◉ روایتی طور پر ترکی دنیا کی سب سے بڑی چائے کی منڈیوں میں سے ایک ہے۔
زیادہ تر ترکی کی کالی چائے رز علاقے کے زرخیرز ڈھلوانوں سے آتی ہے جو بحیرۂ اسود کی مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اگرچہ ٹرکش کافی پوری دنیا میں مشہور ہے، لیکن ترکی میں سب سے زیادہ مقبول مشروب چائے ہی ہے۔

◉ اور یہ بھی کہ جب آپ مختلف قسم کی چائے پیتے ہیں تو آپ اس کی خوشبو، ذائقے اور شکل پر توجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ چائے کو شڑپ سے یا آواز نکال کر پینے سے اس کے ذائقہ کا فوراً پتہ چل جاتا ہے۔

◉ ٹی بیگ دراصل امریکیوں کی ایجاد ہے۔ گو کہ اس کے کچھ شواہد چین کی قدیم تاریخ میں بھی ملتے ہیں جس کے مطابق چائے کی پتیوں کو کپڑے میں ڈال کر استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن باقاعدہ ٹی بیگ امریکیوں کی دَین ہے۔

◉ اگر آپ جڑی بوٹیوں والی چائے کو چائے سمجھ کر پیتے ہیں تو جان لیں کہ آپ چائے نہیں پی رہے۔ ہربل چائے میں جڑی بوٹیاں، مصالحے اور دیگر پودے تو ضرور شامل ہوتے ہیں مگر کیفین ہرگز نہیں ہوتی جو چائے کا لازمی جزو ہے۔ چنانچہ اسے چائے کی درجہ بندی سے خارج سمجھیں۔

◉ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کے چائے کے باغات سے فصل کی پتیاں خواتین ہی چنتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ مانی جاتی ہے کہ چائے کی پتی اور کپاس چننے کے لیے بڑی نرمی، نفاست اور نزاکت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ خصوصیت عموماً خواتین کے ہاتھوں ہی میں پائی ہے۔

◉ انگریز، جو آج چائے کے گرویدہ سمجھے جاتے ہیں، ان کا تعارف اس سوغات سے 1615ء میں اس وقت ہوا جب ایک انگریز لارڈ رچرڈ وکہم نے مکاﺅ سے دس پونڈ چائے کی پتیاں منگائیں۔

شاہی خاندان اور طبقۂ امرا اس مشروب کی مہک اور ذائقے کے ایسے رسیا ہوئے کہ جلد ہی انگلینڈ، یورپ ملک بھر میں سب سے زیادہ چائے درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔ انگلستان کے عوام میں چائے اتنی مقبول ہوئی کہ 1650ء میں آکسفورڈ میں عوامی چائے خانہ قائم ہوگیا۔

یہ انگلستان کا پہلا چائے خانہ تھا جو اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ اس دور کے بہت سے کاروباری اس بزنس میں کود گئے اور 1682ء تک محض لندن اور اس کے مضاف میں 200 سے زائد چائے خانے قائم ہوگئے۔ ان قہوہ خانوں میں عموماً تین قسم کی چائے تیاری ہوتی تھی یعنی روایتی سنہری چائے، ڈارک براﺅن چائے اور دودھ شکر والی چائے جو تیز براﺅن قہوے سے بنائی جاتی۔

◉ چائے کے بارے ایک دلچسپ بات اس کا امریکہ کی آزادی میں اہم کردار ہے۔ انڈیا کے سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی نے 1985 میں امریکہ کے دورے کے دوران کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں پیدا ہونے والی چائے نے امریکیوں کی برطانیہ سے آزادی کے جذبے کو ہوا دی تھی۔

راجیو گاندھی کا اشارہ کس تاریخی واقعے کی جانب تھا، یہ راز آپ اس لنک پر موجود دلچسپ کہانی پڑھ کر جان سکتے ہیں:

اور جب چائے کی پیالی سے ابلنے والے طوفان نے امریکہ کو برطانوی غلامی سے آزادی دلوائی۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close