اور جب چائے کی پیالی سے ابلنے والے طوفان نے امریکہ کو برطانوی غلامی سے آزادی دلوائی۔۔

ویب ڈیسک

’چائے کی پیالی میں طوفان‘ کا محاورہ تو آپ ںے سنا ہی ہوگا، لیکن یہ چائے کسی ایسے طوفان کو جنم دے سکتی ہے، جو کسی ملک کو غلامی کی زنجیروں کو توڑنے پر ابھارے، ایسا شاید آپ نے سوچا بھی نہ ہو۔۔ لیکن ایسا ہوا تھا۔۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے ہی واقعے کی

16 دسمبر 1773 کو امریکہ کے شہر بوسٹن کے گریفن میں تین جہاز لنگر انداز تھے، جہازوں کے اندر تین سو چالیس ڈبوں میں لگ بھگ اکتالیس ہزار کلو گرام چائے (کی پتی) بھری ہوئی تھی۔ اس وقت یہ امریکہ کے اس خطے میں سب سے زیادہ مقبول اور مرغوب مشروب تھا

اس رات نصف شب کو ان تینوں جہازوں پر مسلح افراد کا ایک ہجوم سوار ہوتا ہے۔ جہاز کے عرشے پر چند ریڈ انڈین نظر آرہے ہیں۔ ان کے سروں پر سجے ہوئے پر ہوا سے ہلتے ہیں اور وہ بڑی بڑی پیٹیوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک رہے ہیں۔ بندرگاہ پر کھڑا ہوا ایک ہجوم انہیں ہاتھ اٹھا کر داد دے رہا ہے

یہ دسمبر 1773 کا وہ امریکی احتجاج تھا، جو انہوں نے اپنے آقائوں کے خلاف کیا تھا۔ تصویر میں نظر آنے والے ریڈ انڈین دراصل بوسٹن کے شہری تھے۔ یہ واقعہ تاریخ میں ’بوسٹن ٹی پارٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہیں سے امریکی جنگ آزادی کی چنگاری پھوٹی تھی، جس نے بعد میں تمام امریکی ریاستوں میں آگ لگا دی اور آخرکار ایک طویل خونیں جنگ کے بعد برطانیہ کو اپنی اس شاندار اور دولت مند نوآبادی سے ہاتھ دھونے پڑے

دراصل بوسٹن کے مشتعل شہریوں کی جانب سے شہر کی بندرگاہ میں لنگر انداز برطانوی بحری جہازوں پر حملے کر کے ان پر لدی ہوئی چائے سمندر میں پھینکنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ برطانوی نوآبادیاتی سیاست کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے۔ تب ان مظاہرین کے اہم ترین مطالبات یہ تھے کہ ٹیکسوں میں کمی کی جائے اور فیصلہ سازی میں شراکت داری کا حق زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے

برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے مطابق اس سے انہیں آج کے حساب سے دس لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا

اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ چائے کے زیان کا یہ واقعہ ایک ایسے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جس نے برطانیہ کی تیرہ کالونیوں کو انقلاب کی طرف دھکیل دیا اور اس کی کوکھ سے امریکی انقلاب نے جنم لیا

16 دسمبر کو پیش آنے والے اس واقعے سے قبل تک برطانوی پارلیمنٹ کی طرف سے ان کی رضامندی کے بغیر ٹیکس لگانے کی بار بار کوششوں پر کالونیوں کے اعتراضات کا پرامن حل ممکن نظر آتا تھا، لیکن اس رات کے بعد دونوں فریقوں نے نوآبادیاتی طاقت پر سخت موقف اختیار کیا اور ایک سال کے اندر اس وقت کے برطانیہ اور امریکہ دونوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی

آپ سوچ رہے ہونگے کہ سمندر میں چائے گرا دینے کا یہ واقعہ آخر اس قدر اہم کیوں تھا، تو اس سوال کا جواب اس متنازع معاہدے میں پنہاں ہے، جو برطانوی وزیر اعظم لارڈ نارتھ نے سنہ 1773 کے موسم بہار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ کی سب سے امیر اور طاقتور جماعت تھی۔ اس کی اپنی فوج بھی تھی، جو بادشاہ کی باقاعدہ افواج سے دگنی تھی۔

سیاسی ماہر معاشیات ایڈم اسمتھ نے جنوبی ایشیا میں اس کی علاقائی سلطنت کی انتظامیہ کو ’عسکری اور جابرانہ‘ قرار دیا تھا

تاہم بنگال میں شدید خشک سالی اور اس کی اپنی انتظامیہ میں بدعنوانی کی وجہ سے کمپنی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی۔ چائے کا قانون ہی ناردرن کے لیے ایک حل تھا

1770 وہ زمانہ ہے، جب برصغیر پر قدم بہ قدم قبضہ جماتی ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی سنگین مالی بحران سے دوچار تھی۔ اسے ان پریشانیوں سے نجات دلانے کے لیے برطانوی پارلیمنٹ نے کمپنی بہادر کو یہ اجازت دے دی تھی کہ وہ ہندستانی چائے کسی ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر امریکی بندرگاہوں تک لے جائے اور وہاں فروخت کرے

اس کے شدید مالی نقصانات چائے درآمد کرنے والے امریکیوں کو ہوئے۔ انہوں نے پہلے تو اس معاشی ظلم کے خلاف تاجِ برطانیہ سے احتجاج کیا اور جب ان کی نہیں سنی گئی تو بوسٹن کی بندرگاہ پر آنے والی ہندوستانی چائے سمندر میں پھینک دی گئی

جیسے جیسے چائے کے قانون کی مخالفت پھیلتی گئی، نیویارک اور فلاڈیلفیا میں محب وطن لوگوں نے کمپنی کے بحری جہازوں کو چائے لے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے جہازوں کو برطانیہ واپس جانے پر مجبور کیا۔ جبکہ دوسری جگہوں پر چائے کو بندرگاہ پر اتار کر سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا

شمالی کیرولائنا کے ایڈنٹن میں خواتین نے احتجاج کیا اور ان میں سے اکیاون نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے، جس میں انہوں نے اس وقت تک چائے نہ پینے کا عہد کیا، جب تک کہ ان کے ’آبائی ملک کو غلام بنانے‘ کے قانون کو ختم نہیں کیا جاتا

ولیمنگٹن بندرگاہ کی خواتین نے قصبے کے چوک پر چائے کو آگ لگا دی

برطانوی فوجی دستوں نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا، لیکن ورجینیا اسمبلی میں بوسٹن کے منتخب نمائندوں نے پسپا ہونے سے انکار کر دیا

اس کے بعد یکم جون 1774 کو تاج برطانیہ نے اپنی ’امریکی رعایا‘ کو سزا دینے کے لیے بوسٹن کی بندرگاہ اس وقت تک کے لیے بند کر دی، جب تک شہر دسمبر 1773 میں ہونے والی ’بوسٹن ٹی پارٹی‘ واقعے پر معافی مانگے، اس بغاوت میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے اور انہیں سزا دی جائے اور اس کے ساتھ ہی چائے کی اس دعوت کے دوران سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم بھی جاری ہوا

اس مطالبے کا آنا تھا کہ ورجینیا اسمبلی کے نوجوان اراکین اپنے ایک نہایت قابل قانون دان اور دانشور رکن اسمبلی تھامس جیفرسن کی سرکردگی میں اکٹھا ہوئے اور انہوں نے یکم جون کو روزہ رکھنے اور عبادات کا اعلان کیا۔ انہوں نے بوسٹن کے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ بھی اس احتجاج میں ان کا ساتھ دیں

برطانوی گورنر نے یہ اعلان ہوتے ہی ورجینیا اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ یہاں سے حقوق کے حصول کی وہ قانونی جنگ شروع ہوئی، جو آخر کار میدان جنگ میں برطانوی فوجیوں اور امریکی محبِ وطن نوجوانوں کے خون سے فیصل ہوئی

اسی تناظر میں تھامس جیفرسن نے 1774 کی وہ تاریخی دستاویز تحریر کی، جو ’آزادی کے منشور‘ کے نام سے مشہور ہے اور حقوق انسانی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے

برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے والے امریکی محب وطنوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اگر برطانیہ کا واحد آپشن طاقت ہے، تو ان کے پاس بھی صرف ’مسلح مزاحمت‘ رہ گئی ہے۔ اس کا نفاذ جولائی میں ہوا اور 4 جولائی سنہ 1776 کو آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔

بوسٹن کی بندر گاہ میں لندن سے آنے والے بحری جہاز پر ریڈ انڈینز کے لباس میں کھڑے ہوئے اور لندن سے آنے والی چائے کی پیٹیوں کو سمندر میں پھینکنے والوں نے بھلا کب تصور کیا ہوگا کہ چائے کی پیالی سے ابلنے والا یہ طوفان جہاں انھیں تاج برطانیہ کی غلامی سے نجات دلائے گا وہیں یہ غلامی کی لعنت کو بھی بہا لے جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close