دیرنکویو, ترکی کا ایک چھ منزلہ زیرِ زمین شہر

ویب ڈیسک

ترکی کا صوبہ نیویشیر (نوشہر) اپنے آثارِ قدیمہ کی وجہ سے مشہور ہے، اس صوبے میں ترک دارالحکومت استنبول سے تقریباً 750 کلومیٹر جنوب مشرق میں ایک شہر واقع ہے، جو ’’دیرنکویو انڈرگراؤنڈ سٹی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے. یہ شہر ضلع دیرنکویو میں ہے

یہ شہر طویل عرصے سے ایک راز تھا! یہ پہلی بار تب  دریافت ہوا جب صوبہ نیویسیر کے ایک مقامی شخص نے اپنے گھر میں تزئین و آرائش کرنے کا فیصلہ کیا، دیوار گرانے کے بعد اس نے ایک عجیب کمرہ دریافت کیا اور مزید کھدائی جاری رکھی ، جس میں غار کے کمروں کی ایک سیریز کے ساتھ سرنگوں کا ایک پیچیدہ نظام سامنے آیا۔ اس وقت اسے کم ہی معلوم تھا، لیکن اس نے قدیم زیرزمین شہر ڈیرنکویو کو دریافت کر لیا تھا ، جو ایک وقت میں 20،000 سے زیادہ لوگوں کا گھر اور ان کے مویشیوں کے رہنے کی جگہ تھا۔

شہر کی تاریخ کے تحت ڈیرنکویو کیپاڈوشیا کے خطے میں 1000 میٹر اونچی سطح پر مرتفع اناطولیہ کا علاقہ ہے۔ آتش فشاں پھٹنے سے یہ لاکھوں سال پہلے راکھ میں ڈھک گیا تھا ، جس نے لاوا گنبد اور اہرام تیار کیے تھے ، جو آج بھی واضح ہیں۔ زیریں تلچھٹ پتھر کے کٹاؤ کی وجہ سے آج ہم دیکھ سکتے ہیں چٹانوں کی شکلیں یا زمین کے ستون ہیں.

آثارِ قدیمہ میں ترکی کے کیپاڈوشیا کے خطے میں 200 سے زیادہ زیر زمین شہروں میں سے ایک "دیرنکویو انڈرگراؤنڈ سٹی” ایک منفرد مقام رکھتا ہے، یہاں ایک وسیع زیرِ زمین شہر کے آثارِ قدیمہ موجود ہیں جو تقریباً ڈھائی ہزار سال پرانے ہیں۔ یہ شہر چھ منزلہ ہے جو زمین سے دو سو فٹ گہرائی میں پھیلا ہوا ہے اور یہاں کسی زمانے میں بیس ہزار لوگ آباد ہوا کرتے تھے

اس شہر کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے گلی کوچے ، مکانات اور دکانیں سب کے سب زیرِ زمین ہیں۔ جب کہ حیرت انگیز طور پر اس زیرِ زمین شہر میں مال مویشیوں اور دوسرے پالتو جانوروں کے لئے بھی الگ جگہیں بنائی گئی تھیں جن کے لئے تازہ ہوا کے گزرنے کا بندوبست بھی کیا گیا تھا

شہر میں سیڑھیوں اور چبوتروں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے جو منزل بہ منزل نیچے اترتا چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف حصوں کو آپس میں ملانے کے لئے یہاں چھوٹی بڑی راہداریاں بھی ہیں

محققین کے مطابق بازنطینی دورِ حکومت میں اس شہر کو عروج حاصل ہوا، جسے بازنطینیوں نے آٹھویں سے بارہویں صدی عیسوی تک عربوں کے  حملوں سے بچنے کے لئے استعمال کیا جبکہ اسی دوران اس شہر کو سرنگوں کے راستے دوسرے قریبی زیرِ زمین شہروں سے بھی ملایا گیا تھا۔

محققین کا کہنا ہے کہ بعد میں عیسائیوں نے منگول حملہ آوروں اور دوسری جنگوں سے بچنے کے لئے اسی شہر میں پناہ لی

بعدازاں پہلی جنگِ عظیم کے بعد عیسائیوں کو یہاں سے نکال دیا گیا اور یہ شہر بے آباد ہوگیا۔  1963ع میں ترک محکمہ آثارِ قدیمہ نے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور پھر یہاں سرنگیں اور زیرِ زمین تعمیرات دریافت ہوتی گئیں

اس زیرِ زمین شہر کو آج سے پچاس سال پہلے  سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا اور آج اسے ترکی کے اہم اور تاریخی آثارِ قدیمہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close