تقریباً ڈیڑھ برس سے بانسری ٹھکر اکیلے گجرات کے اس بڑے نظام کے خلاف لڑ رہی ہے، جس کو اپوزیشن جماعتوں سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں، کارکن اور بیشتر صحافی ابھی تک کسی محاذ پر ہرا نہیں سکے ہیں
جب نظام چلانے والے ناانصافی، بدامنی اور دنگے فساد پر آنکھ بند کر لیتے ہیں تو معاشرے میں پھر لاقانونیت، ہجومی تشدد اور بے ربطگی روزمرہ کا اصول بن جاتا ہے اور اداروں پر سے عوام کا اعتبار ازخود ختم ہو جاتا ہے
بانسری کی ماں مادھوی ٹھکر احمدآباد کے ایک نجی ہسپتال شیلبی میں گھٹنے کا علاج کرنے کے لیے داخل ہوئیں۔ وہاں ان کے گھٹنے کی جراحی کی گئی لیکن آپریشن موثر علاج کے بجائے موت کا سبب بنا
بانسری کہتی ہیں کہ گھٹنے کی تکلیف سے کوئی نہیں مرتا لیکن آپریشن غلط طریقے سے ہونے کی وجہ سے والدہ کی پہلے ٹانگ ناکارہ ہوگئی، پھر اس سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ بانسری نے ہسپتال کے خلاف طبی لاپروائی کا کیس دائر کیا ہے، جس کی سماعت گجرات کی ہائی کورٹ میں جاری ہے
ہسپتال میں ماں کی تیمارداری کے دوران بانسری کو جنسی زیادتی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جو ملازم علاج پر مامور تھے وہ علاج کی بجائے پہلے بانسری کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے پر زور دینے لگے۔ ایک ڈاکٹر نے تو شادی کی بھی پیش کش کر دی تھی
ایک غیرشادی شدہ لڑکی جو ماں کی بگڑتی حالت دیکھ کر اندر ہی اندر گھُلتی جا رہی تھی، اپنا تحفظ کرنے کے لیے ہسپتال کے عملے، پولیس اور خواتین حقوق کے کمیشن سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب تو ہوئی لیکن کسی نے مدد کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا
بقول بانسری ’ماں کو بچاتی یا اپنا تحفظ کرتی، کوئی نہیں تھا جو مدد کے لیے سامنے آیا۔‘
میں نے چند روز پہلے بانسری کو ایک سوشل پلیٹ فارم پر روتے بلکتے پایا جو سپیس میں موجود سینکڑوں بھارتیوں سے سوال کر رہی تھی کہ ’کیا ہندوستان کی ایک ارب آبادی میں کوئی ایک بھی انسان نہیں رہا جو مجھے انصاف دلاسکے، جو پتہ لگائے کہ احمدآباد میں شیلبی ہسپتال چلانے والوں کا سمبندھ کن بڑے لیڈروں سے ہے جہاں طبی لاپروائی کے درجن سے زائد معاملات ابھی تک درج ہوئے ہیں لیکن ان کی جانچ کرنے کی جرت کوئی نہیں کرتا
’کیا ہندوستان میں جہاں سر سوتی کی پوجا کی جاتی ہے وہاں ایک بدقسمت لڑکی کے لیے ہسپتال بھی محفوظ جگہ نہیں ہے جہاں میں دم توڑتی ماں کو دیکھ دیکھ ایک طرف نڈھال ہو رہی تھی اور دوسری طرف چند لوگ میرے جسم کو نوچنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔‘
بانسری کہتی ہیں کہ ایک تو ان کی ماں کا غلط علاج کر کے ان کو مار دیا گیا، دوسرا ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوششیں کر کے انہیں زندہ مار دیا گیا ہے
میں نے بانسری کی دل دہلانے والی داستان گجرات کے بعض میڈیا چینلوں اور سوشل میڈیا پر بھی سنی تھی، مگر پھر میڈیا خاموش ہوگیا یا خاموش کر دیا گیا
بانسری ٹیکنالوجی کی ایک بین الاقوامی کمپنی میں ملازم تھی لیکن ماں کی بیماری اور موت کے بعد ان کی تمام تر توجہ اب کیس پر مرکوز ہوگئی ہے حالانکہ ان کو خاموش کرنے کے کئی حربے بھی آزمائے گئے ہیں
میں نے احمد آباد کے شیلبی ہسپتال کے سربراہ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ فون اٹھانے پر ایک ملازم نے مجھے بتایا: ’اس معاملے کی اندرونی سطح پر جانچ ہوئی ہے اور یہ معاملہ عدالت میں زیر غور ہے لہذا اس پر کوئی بات نہیں کی جاسکتی ہے۔‘
ابھی میں اندرونی جانچ کے بارے میں پوچھنے ہی والی تھی کہ فون کاٹ دیا گیا..
میں نے بانسری سے پوچھا کہ کیا موجودہ ماحول میں تمہیں عدالت سے انصاف ملنے کی امید ہے؟
وہ جذبات میں بہہ کر کہنے لگی: ’اگر میں یہ لڑائی چھوڑ دیتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد ختم ہوگیا ہے۔ میں اپنا قتل معاف کرسکتی ہوں مگر اپنی ممی کا قتل کیسے معاف کروں جن کو میں نے گھٹنے کا علاج کرنے کے لیے مجبور کیا تھا۔ میں خود کو مجرم تصور کر رہی ہوں اگر میں طبی لاپروائی کے اس معاملے کو عدالت میں بےنقاب نہیں کرتی ہوں، نہ جانے کتنے اور عام مریض زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ میں جانتی ہوں کہ یہ لڑائی زندگی بھر کی جنگ ہے۔ میں لڑنے کے لیے تیار ہوں اور ان تمام لوگوں کی آواز بنوں گی جنہیں موجودہ سرکار کیڑے مکوڑوں سے تشبیہ دے کر ان کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔‘
بانسری واحد لڑکی نہیں ہیں جو انصاف کی اس جنگ میں ایک سپاہی ہیں۔ کورونا وائرس میں مبتلا ہزاروں لوگ بیڈ یا آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سڑکوں پر دم توڑ بیٹھے ہیں۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی ہسپتال میں آکسیجن کی کمی نہیں تھی اور نہ کسی کی اس کی وجہ سے موت واقع ہوئی۔ یہ بات سن کر جج بھی ہکا بکا رہ گئے تھے
اسی سرکار سے بانسری بھی انصاف مانگ رہی ہے۔
پتہ نہیں وہ اس انصاف کی جنگ کو کہاں تک لڑ سکتی ہے اور کسے معلوم ہے کہ اس جنگ میں کتنی بانسریاں اپنا سب کچھ کھو کر انصاف حاصل کر بھی سکتی ہیں یا نہیں؟؟؟
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو