کیا کورونا وائرس قدرتی ہے؟

سعد اللہ جان برق

اس وقت دنیا میں شایدہی کوئی ایسا فرد ہو جو ’’کورونا‘‘سے واقف نہ ہو. اس وائرس نے تباہی بھی مچا دی، اس کی ویکسین بھی نکل آئی، علاج اور احتیاط بھی سامنے آئے، تقریباً ہر گھر پر اس نے دستک بھی دی ہے اور سارے عوام اور حکومتوں کے ساتھ جو کرنا تھا، وہ بھی کر لیا لیکن یہ سوال ہمیشہ رہے گا کہ کیا یہ آفت قدرتی ہے یا انسان کی لائی ہوئی ہے؟

امریکا اور بھارت وغیرہ تو چین پر انگلی اٹھا رہے ہیں، لیکن کوئی ٹھوس ثبوت کسی کے پاس بھی نہیں ہے. عام طور پر جب کوئی واردات، خاص طور پر قتل کی واردات ہوتی ہے، تو تفتیشی ادارے سب سے پہلے ’’موٹیو‘‘ (محرک) تلاش کرتے ہیں کہ اس قتل سے کس کو فائدہ ہوا ہے؟ پھر اس پر شک کی سوئی ٹھہرا دی جاتی ہے. اس کیس میں بھی ہم اگر وہی طریقہ اختیار کریں، یعنی انسانیت کے اس ’’قتل عام‘‘ سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچا؟ تو شک کی سوئی عالمی مالی مافیا پر ٹھہر جاتی ہے، جس میں دواساز کمپنیاں سرفہرست ہیں اور ساتھ ہی کچھ اور تجارتی کمپنیاں بھی، جو سب کی سب عالمی مالی مافیا کا حصہ ہیں۔

چنانچہ اس کیس پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو دواساز کمپنیوں اور دوسری متعلقہ کمپنیوں کو بے پناہ منافع ہوا ہے، فوری طور پر ادویات کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں، ساتھ صابن کمپنیوں ، سینی ٹائزر ٹائپ کی مصنوعات اور دیگر حفاظتی ساز و سامان کی مارکیٹ بھی تیز ہوگئی.

مجموعی طور پر نقصان صرف عوام کا ہوا ہے اور فائدہ عالمی مالی مافیا کو ہوا ہے اور وہ بھی بے پناہ ، بے حساب اور بے تحاشا.. تو اس سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟ اس سلسلے میں حکومتوں کو جو نقصان ہوا ہے، وہ بھی عوام ہی کا نقصان ہے، کیوں کہ حکومتیں اپنے گھر سے یا پلے سے تو خرچ نہیں کرتیں! آگے بات چلتی چلتی ان بدنصیب پچاسی فی صد عوام کی گردن پر آئے گی ، وہ جو کماتے ہیں، پیدا کرتے ہیں، بناتے ہیں اور کھلاتے ہیں. باقی پندرہ فی صد اشرافیہ یاحکمرانیہ تو ’’نکٹھو‘‘ ہوتی ہیں، آرام سے چھتے میں بیٹھے رہتے ہیں اور کارکن مکھیوں کی کمائی لوٹ کوٹ کر کھاتے ہیں اور بہت زیادہ کھاتے ہیں.

میں نے اپنی کتاب ’’دیوِ استبداد یا نیلم پری‘‘ میں تفصیل سے بتایا ہے کہ اس وقت دنیا ایک ’’پتلی تماشا‘‘ ہے اور ساری کٹھ پتلیوں کے تار اس ماسٹر کے ہاتھ میں ہیں جسے ’’عالمی مالی مافیا‘‘ کہتے ہیں اور جس میں اٹھاون فی صد یہودی سرمایہ دار شامل ہیں، جنہیں گینگسٹر کی طرز پر ’’بنکسٹر‘‘ کہا جانا چاہیے. اس وقت ’’میڈیا‘‘ کا چورانوے فیصد حصہ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے، دنیا کے بڑے بڑے اخبار، اشاعتی ادارے، فلم پروموشن کمپنیوں کے مالک اور سربراہ یہودی ہی ہیں اورساتھ ہی اسلحہ ساز اور دواساز صنعت کے بھی.

اگر صحیح معنی میں کھوجا جائے، تو دنیا کا سپرپاور نہ امریکا ہے نہ کوئی اور، بلکہ یہی یہودی عالمی مافیا ہے. حکومتیں بھی امریکا سمیت اس کے ہاتھ کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ ٹرمپ جب منظرِ عام پر آیا تو وہ ’’مسلمانوں‘‘ کا سخت مخالف تھا، لیکن اس نے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا اور وہاں جاکر کھلے منہ کے ساتھ کہا کہ امن کی ابتداء اس سرزمین سے ہوئی اور پھر کھربوں ڈالر کا ’’اسلحہ‘‘ بیچ ڈالا.. کیوں!؟

اس لیے کہ صدارت کے منصب پر فائز ہوتے ہی ’’اصل آقاؤں‘‘ نے اسے سمجھا دیا کہ تم اگر مسلمانوں  کے پیچھے پڑے رہے تو ہم اپنی کمپنیوں میں تیار ہونے والا اسلحہ کہاں بیچیں گے۔ دراصل امریکا کا بظاہر خود مختار، طاقتور ترین اور آزاد صدر بھی اصل نہیں ان کا غلام بلکہ جنرل منیجر ہوتا ہے.

ظاہر ہے کہ جس طرح اسلحہ کے لیے مارکیٹ بنانا ان کے مفاد میں ہے، اسی طرح دواؤں کی مارکیٹ کو وسیع کرنا بھی ان کے لیے ضروری ہے. اسی مالی مافیا کے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ کون مرتا ہے، کتنے مرتے ہیں یا تباہ ہوتے ہیں.. ان کو اپنا مال نکالنا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے ۔ اب اگر وہ وسیع پیمانے پر جنگیں برپا کر سکتے ہیں تو ایسا وائرس بھی تیار کر سکتے ہیں، جو دواؤں اور دیگر متعلقہ سامان کی مارکیٹ کو وسیع کرے ۔ اوراس خیال کو تقویت اس سے ملتی ہے ، کورونا کے ساتھ ہی ہرقسم کی دواؤں کی قیمتیں ایک دم بڑھا دی گئیں، بلکہ ہر ہر سطح پر مہنگائی کا طوفان بھی آگیا ہے۔

جہاں تک ’’حکومتوں‘‘ کا تعلق ہے، تو وہ کٹھ پتلیوں کی طرح دھاگے کی اسیر ہیں۔یوں کہیے کہ ان کی حیثیت ان جانوروں کی طرح ہے جن کو ’’کیل‘‘ گاڑ کر اور گردن میں رسہ ڈال کر ’’کھیت‘‘ میں باندھا گیا ہو. وہ صرف اتنا ’’چر‘‘ سکتی ہیں، جتنا ’’کیل‘‘ اور’’رسہ‘‘ اجازت دیتے ہیں، باقی کھیت کو ایک انچ بھی نہیں چر سکتے، اپنے دائرے میں چر کر وہ گھاس اور چارے کی جڑیں تک کھود سکتے ہیں۔ اور اب اسی وبا کے بعد وہ مجبور ہیں کہ سودی قرضوں پرگزارہ کریں!

قرضوں کے بارے میں بھی آپ کو بتادیں کہ دنیا کا سوکالڈ سپر پاور امریکا بھی اس ’’مالی مافیا‘‘ جسے عالمی یہودی مافیا کہنا زیادہ درست ہے، کا اتنا قرض دار ہے، جتنے کسی امریکی کے سرپر بال ہوتے ہیں.. یوں کہیے کہ اس وقت دنیا کا اصل حکمران یہی عالمی یہودی مالی مافیا عرف بنکسٹرز ہے. اب تو بہ تحقیق ثابت ہو چکا ہے، دو عظیم عالمی جنگیں بھی اسی مافیا کی کارستانی تھی۔ ایسے میں اس سے کچھ بھی بعید نہیں کہ اپنے فائدے کے لیے دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ جراثیم اور وائرس کے ہتھیار بھی تیار اور استعمال کرے.

یہ تو طے ہے کہ اس کے پاس بہت بڑا تھنک ٹینک بھی ہے، ہمہ گیر میڈیا بھی اور دنیا کے اکثر گروپوں کے تار بھی ہیں، این جی اوز بھی ہیں۔ حتمی طور پر اس کا ثبوت تو موجود نہیں، شاید اگلے وقتوں میں مل بھی جائے، لیکن ’’موٹیو‘‘ موجود ہے کہ کوروناوائرس کا فائدہ اسی کو ہوا  ہے اور نقصان صرف عوام کا ہوا ہے ، جانی بھی اورمالی بھی.. ویسے بھی جراثیمی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ذکر اور خیال ایک عرصے سے ہوتا رہا ہے.

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس نیوز)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close