قاضی نذرالاسلام: کراچی کا حوالدار جو ’باغی‘ نذرالاسلام کے نام سے مشہور ہوا

ریاض سہیل

کراچی کے بازار میں تین نوجوان بنگالی فوجی گھڑیوں کی ایک دکان میں داخل ہوئے اور ایک گھڑی کی قیمت معلوم کی، اسی دوران قیمت پر سودی بازی کرنے لگے، جس پر دکاندار نے ان سے کہا کہ کیا بنگالی بھی گھڑی خرید سکتے ہیں؟

یہ بات سن کر ان نوجوانوں کا خون کھول اٹھا اور ان بنگالی نوجوانوں نے وردی میں ہونے کے باوجود دکان کے شیشے توڑ دیے اور مارپیٹ کے بعد مٹی اور خون کے دھبوں کے ساتھ اپنے بیرک پہنچے جہاں اپنے ڈسیپیلینری جمعدار کو روداد سنائی۔

وہ انھیں کوارٹر ماسٹر حوالدار کے پاس لے گئے جس نے خوشی کا اظہار کیا کہ ’نوجوانوں نے بنگال کی بے عزتی کا اچھا جواب دیا ہے۔‘ اس نے انھیں نئی یونیفارم فراہم کیں اور مشورہ دیا کہ پرانی یونیفارم کہیں دفنا دیں۔

یہ کوارٹر ماسٹر بعد میں اس خطے کے باغی شاعر قاضی نذرالاسلام کے نام سے مشہور ہوئے، ان کے ساتھی شنبھو رائے، جو ان دنوں کراچی میں بنگالی بٹالین میں تعینات تھے، نے یہ واقعہ ایک بنگالی اخبار میں خط کی صورت میں تحریر کیا تھا۔

کراچی یونیورسٹی کے بنگالی شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ابو طیب خان کا کہنا ہے کہ نذرالاسلام کا ادبی کیریئر بنیادی طور پر کراچی سے ہی فروغ پایا، یہاں ہی انھوں دیوان حافظ سیکھا۔

پہلے انھوں نے ریلوے گارڈ کے کوارٹروں میں گھریلو کام کاج کیا، لیکن جلد ہی وہ ایک نان بائی کے یہاں کام کرنے لگے جہاں کام سے فرصت کا وقت بھی دکان میں گذارتے ان لمحات میں وہ بانسری بجاتے

قاضی نذرالاسلام عرف نذرل کون تھے؟

قاضی نذرالاسلام کا جنم 25 مئی 1899 کو غیرمنقسم بنگال کے چرولیا نامی گاؤں میں ہوا۔ انھوں نے ایک غریب مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی۔ محمد فخرالدین ’صدائے زندان‘ میں لکھتے ہیں کہ ان دنوں چرولیا میں کوئی سکول نہ تھا، بس ایک مکتب تھا جہاں آسان فارسی اور عربی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ نذرالاسلام نے ابتدائی برسوں میں اسی مکتب سے تعلیم حاصل کی تھی۔

نذرالاسلام آٹھ برس کے تھے کہ ان کے والد قاضی فقیر احمد انتقال کر گئے۔ بعض حوالوں کے مطابق وہ مسجد میں موذن تھے، جبکہ کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ابو طیب خان نے لکھا ہے کہ وہ حاجی پہلوان درگاہ کے خادم تھے، والد کی وفات کے بعد نذرالاسلام نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔

نذرالاسلام کے ایک چچا ’لیٹو ول‘ (مقامی ڈرامہ منڈلی) کے رکن تھے جو بھتیجے کو بھی اس گروپ میں لے آئے۔ یونیورسٹی آف دارالسلام برونائی کی طالبہ فرحانہ حق اپنے ریسرچ پیپر میں لکھتی ہیں کہ اس گروپ میں انھوں نے ایکٹنگ، گیت گانا اور شاعری کے علاوہ ڈرامے لکھنا بھی سیکھا، یہ گروپ انڈیا کی قدیم داستانوں کو ڈراموں میں پیش کیا کرتا تھا۔

محمد فخرالدین ’صدائے زندان‘ میں لکھتے ہیں کہ لیٹو مجلسوں کی کامیابی کا تعلق موسم سے تھا اور ایک خراب فصل کا مطلب لیٹو کے لیے بھی خراب وقت ہوتا تھا۔

نان بائی کی بانسری

نذرالاسلام آسنسول (موجودہ انڈیا کے مغربی بنگال کا شہر) چلے گئے، جہاں ان دنوں بڑا ریلوے اسٹیشن تھا اور کان کنی کا مرکز بھی۔ محمد فخرالدین کے مطابق پہلے انھوں نے ریلوے گارڈ کے کوارٹروں میں گھریلو کام کاج کیا، لیکن جلد ہی وہ ایک نان بائی کے یہاں کام کرنے لگے جہاں کام سے فرصت کا وقت بھی دکان میں گذارتے ان لمحات میں وہ بانسری بجاتے۔

ان کی بانسری نے پولیس کے ایک سب انسپیکٹر کو متاثر کیا اور وہ انھیں ضلع میمن سنگھ (موجودہ بنگلادیش میں) میں لے آئے اور قریب دریا پور سکول میں فیس معاف طالب علم کی حیثیت سے بھرتی کرا دیا۔

صدائے زندان کے مصنف کے مطابق قاضی نذرالاسلام کو امید تھی کہ وہاں انھیں فیس کی معافی کے ساتھ بعض دیگر سہولتیں بھی حاصل ہوجائیں گی لیکن ایسا نہ ہوا اور انھیں ایک اور سکول میں داخلہ لینا پڑا جہاں ان کی فیس معافی کے ساتھ مفت رہائش اور کھانے کا انتطام کیا گیا اور ساتھ میں سات روپے وظیفہ بھی دیا گیا، انھوں نے یہاں دوہری ترقی کی اور دسویں میں پہنچ گئے۔

پہلی عالمی جنگ کے دوران 1916 میں بنگال میں ڈبل کمپنی میں بھرتی ہونے کے بعد قاضی نذرالاسلام کو پہلے نوشہرہ (خیبر پختون خواہ) اور بعد میں کراچی بھیج دیا گیا جہاں وہ 1919 تک رہے، یہاں وہ سپاہی سے ترقی پاکر حوالدار کے عہدے پر پہنچے اور دو سال کوارٹر ماسٹر رہے۔

انقلابیوں سے رابطہ

اس سکول میں دوران تعلیم وہ انقلابی نظریات کے قریب ہوگئے، محمد فخرالدین کی تحریر کے مطابق یہاں ایک نوارن گھٹک تھے جو ’یگامر` نامی خفیہ انقلابی جماعت کے رکن تھے۔ انھوں نے قاضی نذرالاسلام کے جوش و خروش سے متاثر ہوکر اپنی طرف متوجہ کیا، قاضی نذرالاسلام کی سوانح حیات میں بسودھا چکرورتی لکھتی ہیں کہ نوارن گھٹک کی چچی بالا دیوی پہلی بنگالی خاتون تھیں جنہیں قانون اسلحہ کے تحت سزا ملی تھی۔

نوارن کے زیر اثر وہ بنگالی ڈبل کمپنی میں بھرتی ہوگئے، ان کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں اور فوجی تربیت حاصل کریں کیونکہ یہ جنگ آزادی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

کراچی آمد
پہلی عالمی جنگ کے دوران 1916 میں بنگال میں ڈبل کمپنی میں بھرتی ہونے کے بعد قاضی نذرالاسلام کو پہلے نوشہرہ (خیبر پختون خواہ) اور بعد میں کراچی بھیج دیا گیا جہاں وہ 1919 تک رہے، یہاں وہ سپاہی سے ترقی پاکر حوالدار کے عہدے پر پہنچے اور دو سال کوارٹر ماسٹر رہے۔

شنبھو رائے کے خط کے مطابق کوارٹر ماسٹر کا کام جوتوں، پینٹ، کوٹ، موزوں، کمبل وغیرہ کی فراہمی ہوتا تھا اور نذرل سٹور کے پیچھے بیٹھے ہمیشہ مطالعے میں مصروف نظر آتے تھے۔

نذرل کے ایک اور ساتھی محبوب عالم لکھتے ہیں چھٹی کے دن خیمے میں طوفان مچ جاتا تھا۔ وہ ہارمونیم کے سامنے بیٹھے ہوئے چائے پر چائے پیتے اور گیت پر گیت سناتے تھے۔

ریڈ آرمی کی فتح اور بیریک میں خوشی

شنبھو رائے لکھتے ہیں کہ قاضی کے پاس رابندر ناتھ ٹیگور کی تمام کتابیں تھیں اور سرات چندرا کی تحریریں بھی۔ اس کے علاوہ تمام ہفتہ روزہ میگزین ہوتے تھے، انھوں نے اس کے پاس انقلابی مواد بھی دیکھا جس سے انھیں اندازہ ہوا کہ وہ انقلابی تحریک کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ان کی بیریک پر سختی تھی تاکہ کسی سیاسی خبر کا پتہ نہ چلے سکے۔ ایسے میں ان کے پاس نیوز میگزین اہم وسیلہ تھا لیکن یہ بھی ایک عام شخص کی دسترس سے باہر تھا، نذرو برطانیہ مخالف تحریک جیسے آئرش بغاوت اور روس کے بارے میں بتاتا تھا اور ہم چند دوست اس پر بات کرلیتے تھے تاہم نذرو اپنے خیالات کو چھپاتا نہیں تھا گیتوں اور نظموں کے ذریعے اظہار کرتا تھا۔‘

عالمی جنگ کے خاتمے پر بنگالی بٹالین کو توڑ دیا گیا۔ ان دنوں قاضی نذرل ایک ہفتے کی چھٹی پر کلکتہ گئے ہوئے تھے۔ مارچ 1920 میں سبکدوش ہونے کے بعد مستقل واپس آگئے۔ حکومت کے محکمہ مالیات نے انھیں سب رجسٹرار کے عہدے کے لیے انٹرویو کے غرض سے بلایا لیکن انھں نے انکار کردیا۔

’1918 کی ایک شام تھی نذرو نے اپنے قریبی دوستوں کو رات کے کھانے پر بلایا، میں جیسے ہی داخل ہوا تو اس روز اس کی آنکھوں میں ایک اور روشنی تھی، ہمیں معلوم ہوا کہ روسی عوام نے زار سے نجات حاصل کرلی ہے۔ نذرو ریڈ آرمی کی وطن دوستی کے بارے میں کافی جذباتی تھا اس نے ایک میگزین بھی دکھایا جس میں تمام تفصیلات تھیں۔‘

ادبی سفر کا آغاز

جولائی 1918 میں بنگال بٹالین میسوپوٹمیا کے لیے روانہ ہوئی لیکن نذرل اور ان کے کچھ ساتھی یہاں ہی رہے، بسودھا چکرورتی لکھتی ہیں کہ ان کی بنگلیہ مسلمان ساہتیہ پترکا بنگالی میں ایک نظم مکتی (نجات) شائع ہوئی جو انھوں نے کراچی سے بھیجی تھی۔

اس جریدے کے انتطامات اس وقت کے مشہور کمیونسٹ رہنما اور صحافی مظفر احمد دیکھتے تھے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس نظم کا عنوان ’کشما‘ یعنی معافی تھا لیکن انھوں نے اس کا عنوان نجات کردیا تھا۔ اس نظم نے نذرل کا رشتہ مظفر احمد سے استوار کردیا اور دوستی کی بنیاد پڑ گئی۔

اسی زمانے میں نذرل نے ’باؤنڈو لیر‘ یعنی ایک سیلانی کی کہانی لکھی جو ان کی پہلی شائع شدہ کہانی ہے، اس کے علاوہ تحفہ غم کے نام سے ایک کہانی تحریر کی جس کے کردار سرخ فوج میں شامل ہوجاتے ہیں۔

عالمی جنگ کے خاتمے پر بنگالی بٹالین کو توڑ دیا گیا۔ ان دنوں قاضی نذرل ایک ہفتے کی چھٹی پر کلکتہ گئے ہوئے تھے۔ مارچ 1920 میں سبکدوش ہونے کے بعد مستقل واپس آگئے۔ حکومت کے محکمہ مالیات نے انھیں سب رجسٹرار کے عہدے کے لیے انٹرویو کے غرض سے بلایا لیکن انھں نے انکار کردیا۔

صحافت میں قدم

1919 میں رولٹ ایکٹ پاس ہوچکا تھا جس کے تحت بغیر کسی مقدمے اور ٹرائل کے سیاستدانوں کو قید کیا جاسکتا تھا، اسی دوران جلیانوالا باغ کا واقعہ ہوا جب جنرل ڈائر کے حکم پر سینکڑوں نہتے لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور پورے ہندوستان میں بغاوت کی لہر اٹھ چکی تھی، اسی پس منظر میں نذرل بنگالی کے اخبار نویگ میں شامل ہوگئے جس کو اے کے فضل االحق نے شائع کیا تھا۔

نذرل اداریہ لکھنے والوں کے سرخیل تھے، یہ تحریریں محض اس وقت کی سیاست سے متعلق نھیں تھیں بلکہ مزدوروں اور کسانوں کی تحریک کی بھی حامی تھیں۔

صدائے زنداں میں محمد فخرالدین لکھتے ہیں کہ اس وقت کی حکومت نے نویگ کے مواد پر زبردست اعتراض کیا اور اخبار کی ایک ہزار روپے کی ابتدائی ضمانت ضبط کرلی گئی۔ مدیران کے لیے دوسری ضمانت کا انتظام سر درد تھا، بعد میں دوسری ضمانت بھی ضبط کرلی گئی اور عارضی طور پر اخبار بند ہوگیا۔ دسمبر میں قاضی نذرل نے اس اخبار سے علیحدگی اختیار کرلی۔

گرفتاری اور بھوک ہڑتال

بنگال کے قوم پرست رہنما، ناول نگار اور وکیل چترنجن داس کو جب گرفتار کیا کیا گیا تو نذرالاسلام کو ہفتہ وار ’بانگلار کتھا‘ میں لکھنے کے لیے کہا گیا جس میں انھوں نے قومی گیت لکھے۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنی مشہور ناظم بدروہی (باغی ) لکھی جو کمیونسٹ خیالات کے میگزین ’بجلی‘ میں شائع ہوئی جس کے بعد ان کی عرفیت باغی بن گئی۔

محمد فخرالدین صدائے زندان میں لکھتے ہیں کہ 1923 میں قوم پرست صحافی مولانا محمد اکرم خان نے انھیں اپنے نئے روزنامہ ’سیوک‘ میں کام کرنے کے لیے کلکتہ بلا لیا جہاں انھوں نے دو ماہ کام کیا۔ جس کے بعد انھوں نے اپنے رسالے دھوم کیتو کا اجرا کیا جس کے ہفتے میں دو شمارے شائع ہوتے تھے۔ تمام قومی انقلایبوں نے اس رسالے کا خیر مقدم کیا اور ہر شمارہ ضبط ہو جاتا تھا۔

صدائے زندان کے مطابق دُرگا پوجا کے تہوار کی آمد پر انھوں نے ایک خصوصی نظم لکھی ’آنندیر گامے‘ یعنی مسرت کی آمد۔ نظم کے طنز میں بڑی کاٹ تھی۔ پولیس دھوم کیتو کے دفتر میں مدیر اور شاعر کی گرفتاری کا پروانہ لے کر پہنچ گئی اور تمام کاپیاں ضبط کرلی گئیں، لیکن نذرل موجود نہیں تھے۔ بالآخر انھیں کلکتہ سے گرفتار کرلیا گیا اور ایک سال کی سزا سنائی گئی، انھوں نے عدالت میں ایک بیان دیا جو کافی مقبول ہوا:

’مجھے محسوس ہوا ہے کہ میں حق کی حفاظت نیز انصاف کی دوبارہ فتحیابی کے لیے اس طرف سے بھیجا ہوا عالمی انقلاب کا ایک سرخ سپاہی ہوں، اس نے مجھے بنگال کے سبزہ زار میں جو کالے جادو کے زیر اثر خوابیدہ ہے ایک نقیب و ترمچی کی حیثیت سے بھیجا ہے میں صرف ایک ادنیٰ سپاہی ہوں میں ‘اس’ کے حکم کی تعمیل کی کوشش کروں گا۔‘

انھیں پہلے علی پور جیل اس کے بعد ہگلی (مغربی بنگال) جیل منتقل کردیا گیا جہاں جیل انتظامیہ کی جانب سے ناروا سلوک کے خلاف انھوں نے بھوک ہڑتال کردی۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے انھیں مراسلہ لکھ کر بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے کہا۔ کلکتہ میں ایک بڑا جلسہ عام منعقد کیا گیا جس کے بعد ان سے جیل انتظامیہ کا رویہ بہتر ہوا۔

سیاست اور کانگریس سے قربت

قاضی نذرالاسلام طالب علمی سے انقلابیوں کی زیر اثر رہے، اس کے بعد کمیونسٹ رہنما اور صحافی مظفر احمد عرف کاکا کے ساتھ ان کے مراسم ہوگئے۔ قاضی نذرالاسلام کی سوانح حیات میں بسودھا چکرورتی لکھتی ہیں کہ قاضی نذرل انڈین نیشنل کانگریس کی لیبر سوراج پارٹی قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ بعد میں اس پارٹی کا نام مزدور کسان پارٹی ہوگیا جیسا کہ پارٹی کے نام سے ظاہر ہے کہ اب وہ عوامی تحریک کی طرف کھنچ آئے تھے۔

بسودھا چکرورتی کے مطابق جس زمانے میں وہ ہگلی میں رہتے تھے وہاں ان کی مہاتما گاندھی سے بھی ملاقات ہوئی اور انھوں نے انہیں چرخے کا گیت گا کر سنایا تھا۔ بعد میں کرشن نگر میں انھوں نے مزدوروں کے لیے ایک نائٹ سکول کے قیام میں مدد کی اور وہاں سے ہی وہ کانگریس کی ٹکٹ پرسینٹرل لیجسلیٹو اسمبلی کے انتخابات کے لیے بھی کھڑے ہوئے لیکن جداگانہ نظام کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

1929 میں جب کلکتہ میں عوام نے ان کا خیرمقدم کیا تو اس تقریب میں آزاد ہند فوج کی سربراہ سبھاش چندر بوس بھی موجود تھے انھوں نے نذرل کے گیتوں اور نظموں کو خراج پیش کیا۔

سبھاش چندر بوس نے کہا کہ اگر ہم جنگ پر گئے تو نذرالاسلام کے گیت گائیں گے، اگر جیل میں گئے تو بھی ان کے گیت گائیں گے، بعد میں آزاد ہند فوج نے ’چلو چلو‘ گیت کو اپنا ترانہ بنایا تھا۔

قاضی نذر اسلام شاگردوں کو موسیقی کی تعلیم دے رہے ہیں۔

گیت اور سنگیت میں مقبولیت

قاضی نذرالاسلام جیل سے رہائی کے بعد کرشن نگر اور وہاں سے کلکتہ منتقل ہوگئے۔ محمد فخرالدین لکھتے ہیں کہ وہ پہلے گلوکار تھے جنھوں نے بنگلہ میں غزل کو متعارف کرایا۔ ان دنوں برطانوی گراموں فون کمپنی ’ہز ماسٹرز وائس‘ نے برطانیہ میں کاروبار پھیلایا تھا اور اس وقت کے نامور گلوکار ہیرن گھوش نے کمپنی کو بتائے بغیر نذرل کے دو گیت گائے۔

یہ ریکارڈ کاروباری نقط نگاہ سے کافی مقبول ہوئے، جلد ہی کمپنی نے نذرل کے گیت اپنے گلوکاروں اور نذرل کی اپنی آواز میں رکارڈ کیے اور بعد میں انھیں ملازمت دے دی۔ انھوں نے تین ہزار کے قریب ریکارڈنگ کیں جن میں قوالی، گیت، بھجن، غزل شامل تھے۔

بلبل کا صدمہ

قاضی نذرالاسلام کی ذاتی زندگی محنت، جستجو اور صدموں کا سامنا کرتی رہی۔ قاضی نذرالاسلام کی سوانح حیات میں بسودھا چکرورتی لکھتی ہیں کہ قاضی نذرل نے جیل سے رہائی کے بعد 1924 میں پرمیلا سین گپتا سے شادی کی جو ان کے ایک دوست کی رشتے میں بہن تھیں۔ کچھ لوگوں نے دو مذاہب کے افراد کی شادی پر سوالات اٹھائے لیکن نذرل میں کوئی فرق نہیں آیا۔

کلکتہ میں قیام کے دوران نذرالاسلام کے بڑے بیٹے بلبل کی ساڑھے تین سال کی عمر میں چیچک کے مرض سے 1934 میں وفات ہوگئی جو ان کی زندگی میں ایک بڑا صدمہ ثابت ہوا۔

محمد فخرالدین صدائے زندان میں لکھتے ہیں کہ بلبل کی موت کے بعد نذرل اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی سحر پرستی، پرستش کے طریقوں اور معمولات میں دلچسپی لینے لگ گئے تھے۔ بلبل کے انتقال کے ساتھ ہی بظاہر ان کی دہریت بھی ختم ہوگئی تھی۔

انھوں نے اپنے پرانے عقیدے کو اپنا لیا تھا۔ دوسرا صدمہ انھیں اس وقت ملا جب ان کی بیوی پرمیلا دیوی بیمار پڑ گئیں۔

جب باغی کی آواز بند ہوگئی

قاضی نذرالاسلام کو بیماریوں اور پریشانیوں نے گھیر لیا اور وہ مالی تنگی کا شکار ہوگئے۔ محمد فخرالدین کے مطابق انھوں نے ایچ ایم وی کے ریکارڈز اور دوسری ادبی تحریروں کی رائلٹی صرف چار ہزار میں گروی رکھ دی۔

’اب ان کے پاس کوئی باضابطہ ملازمت نہیں تھی اور نہ ہی کچھ باقاعدگی کے ساتھ لکھ پا رہے تھے ۔ایسے میں انھوں نے فضل الحق کے روزنامہ میں دوبارہ کام شروع کردیا اور دو قومی نظریے کے خلاف لکھنے کے لیے راضی ہوگئے۔‘

وہ کلکتہ ریڈیو سے بھی پروگرام کرتے تھے، قاضی نذرالاسلام کی سوانح حیات میں بسودھا چکرورتی لکھتی ہیں کہ 9 جولائی 1946 کو وہ ریڈیو سے ایک تقریر نشر کر رہے تھے کہ اچانک ہی وہ اپنی قوت گویائی کھو بیٹھے۔ واپس گھر پہنچنے تک ان کی رہی سہی دماغی صلاحیتیں بھی جواب دینے لگ گئیں تھیں، انھیں اور ان کی بیوی کو علاج کے لیے نفسیاتی و ذہنی ہسپتال داخل کرایا گیا۔

اس دوران برصغیر کی تقیسم ہوگئی۔ بعد میں 1953 میں علاج کے لیے انھیں یورپ بھیجا گیا۔ لندن اور ویانا میں ماہرین نے بتایا کہ ابتدا میں ناکافی علاج ہوا لہٰذا اب شفا کی امید نہیں رہی، جس کے بعد واپس وطن لایا گیا جہاں چند سالوں کے بعد ان کی بیوی کی وفات ہو گئی۔

تینوں ملکوں کا اعزاز

انڈیا نے انھیں سول ایوارڈ پدم بھوش سے نوازا، جبکہ پاکستان حکومت نے 1968 میں قاضی نذرالاسلام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دو یاددگار ڈاک ٹکٹ جاری کیے اس کے علاوہ تین سو روپے ماہوار وظیفہ بھی مقرر کیا۔ محمد فخرالدین صدائے زندان میں لکھتے ہیں کہ یہ وظیفہ مشرقی بنگال کی آزادی کے بعد اچانک بند ہوگیا تاہم حکومت بنگلہ دیش نے وظیفہ دوبارہ بحال کردیا اور انھیں اپنا قومی شاعر قرار دیا۔

2012 میں ’باغی‘ نظم کے 90 سال جشن سے خطاب کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی اس وقت کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے بتایا تھا کہ ان کے والد شیخ مجیب پر نذرالاسلام کا بڑا اثر تھا اور 13 جنوری 1972 کو کابینہ کے فیصلے کے تحت ان کے گیت ’آگے بڑھو، آگے بڑھو‘ کو قومی ترانہ قرار دیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ شیخ مجیب نے انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو درخواست کی تھی کہ نذرالاسلام کو ڈھاکہ آنے دیا جائے تاکہ ان کا جنم دن منایا جائے۔ گاندھی نے انھیں اجازت دی جس کے بعد بنگلہ دیش سے ایک وفد کلکتہ جا کر انھیں خاندان سمیت 24 مئی کو ڈھاکہ لے آیا، جہاں انھیں گھر بھی دیا گیا۔

یہ باغی شاعر اپنے وطن کی تقسیم در تقسیم نہیں دیکھ سکا اور اس سے پہلے ہوش گنوا بیٹھا اور ڈھاکہ میں 29 اگست 1976 کو بنگال کی زمین میں ابدی نیند سو گیا۔

کراچی میں اندھیرے میں ڈوبی نذرل اکیڈمی

نذرالاسلام نے جس شہر یعنی کراچی سے ادبی دنیا میں قدم رکھا وہاں ان کے نام سے پی سی ایچ ایس سوسائٹی میں ایک سڑک ہے جبکہ ان کے ادبی فکر اور تخلیق کی ترویج کے لیے 1956 میں نذرل اکیڈمی بھی قائم کی گئی، جو اس وقت پاکستان سیکریٹریٹ کے دو کمروں پر مشتمل ہے جس کی بجلی کی فراہمی بھی منقطع ہے۔

اکیڈمی کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد علاوالدین بتاتے ہیں جب تک تاحیات وفاقی وزیر محمود علی خان زندہ تھے اس اکیڈمی کی حکومت کچھ نہ کچھ سرپرستی کرتی تھی لیکن اب کوئی مدد حاصل نہیں۔

اس اکیڈمی کی لائبریری میں نزل کی شاعری اور سوانح حیات سمیت 14000 کے قریب کتابیں موجود ہیں جو زیادہ تر بنگلہ میں ہیں اس کے علاوہ اردو، فارسی اور انگریزی میں بھی کتابیں موجود ہیں۔

اکیڈمی کے رکن ناصر احمد کا کہنا تھا کہ نذرل برصغیر کے شاعر تھے وہ اس بنگال سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور جہاں سے پہلے مسلم ریاست کا مطالبہ کیا گیا آج بنگلادیش میں دیکھیں علامہ اقبال کے نام پر اکیڈمی کیسے شاندار ہے اور یہاں نذرل اکیڈمی کس حال میں ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close