قطر میں ہونے والا اگلا فیفا ورلڈ کپ اور رونالڈو کی شرکت پر لگا سوالیہ نشان

ویب ڈیسک

دوحہ – تیس لاکھ سے بھی کم نفوس پر مشتمل ریتیلی زمین پر واقع چھوٹے ملک قطر کا زیادہ تر رقبہ خشک صحرا اور طویل حیران کن ساحلی پٹی کا امتزاج ہے۔ اس کے پُرشکوہ دارالحکومت دوحہ کو عمدہ بلند و بالا عمارتیں اور مصنوعی طور پر بنائے گئے جزیرے ایک خاص حیثیت بخشتے ہیں

دنیا کی کامیاب ترین ایئر لائنوں میں شمار ہونے والی قطر ایئرویز کا تعلق اسی ملک سے ہے، پھر دنیا میں وسیع صحافتی نیٹ ورکس کا حامل الجزیرہ میڈیا گروپ بھی یہیں واقع ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدن کا اعزاز بھی اسی ملک کے پاس ہے۔ اور اب کچھ ماہ میں یہ چھوٹا سا ملک کھیلوں کی دنیا کے سب سے بڑے میلوں میں سے ایک، فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے جا رہا ہے

کھیل کے میدانوں میں کامیابیاں

کھیلوں کی دنیا میں قطر کبھی بڑا نام نہیں رہا ہے۔ اس ملک کی قومی فٹبال ٹیم نے 1992ء اور 2004ء میں گلف کپ جیتا تھا، مگر اس کے بعد پھر کوئی فتح سامنے نہیں آئی۔

معاملات 2006ء میں بدلنا شروع ہوئے جب قطر نے ایشین گیمز کی کامیاب میزبانی کی، اور پھر کھیل کے شعبے میں خود کو بے مثال بناتا چلا گیا۔ قومی ایئرلائن نے یورپ کی مایہ ناز ٹیموں ایف سی بارسلونا اور اے ایس روما کو اسپانسر کیا۔ قطری تاجر نے قطر اسپورٹس انیوسٹمنٹس نامی ایک تجارتی منصوبہ متعارف کروایا جس نے فرینچ کلب پی ایس جی (PSG) کو خریدا اور اسے یورپ کی بہترین ٹیموں میں سے ایک بنا دیا۔ ہسپانوی لیجنڈ Xavi نے اپنے منیجر Pep Guardiola کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قطر اسٹار لیگ السد (Al Sadd) کی نمائندگی کی اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیم کے منیجر بنے

اگر یہ پوچھا جائے کہ وہ کون سا ایک موقع تھا جس نے قطر میں کھیلوں کے شعبے کو ایک نئی جہت بخشی اور اسے عالمی سطح پر صفِ اوّل میں لاکھڑا کیا تو وہ موقع یقینی طور پر 2010ء میں 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا ملنا قرار دیا جاسکتا ہے

قطر فٹبال ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے والا اب تک کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ یاد رہے کہ قطر فٹبال کا عالمی میلہ سجانے والا عرب دنیا کا پہلا اور ایشیا کا دوسرا ملک بھی بن گیا ہے۔ اب آپ کو یہ بتانے کی ضرورت تو یقیناً نہیں کہ اس طرح ٹورنامنٹ کی سطح پر کبھی فٹبال نہ کھیلنے کے باوجود قطر کی ٹیم ٹورنامنٹ کے لیے براہِ راست کوالیفائی کرچکی ہے!

بارسلونا اور پی ایس جی میں ہونے والی سرمایہ کاری کو بھی تو نہیں بھولنا چاہیے۔ قطری لیگ میں غیر ملکی کھلاڑیوں کے کھیلنے سے مقامی کھلاڑیوں کو ایکسپوژر ملا ہوگا اور یقیناً 2019ء میں قطر تاریخ میں پہلی بار ایشین کپ جیت کر 2022ء کے ورلڈ کپ تک اپنی براہِ راست رسائی کو درست ثابت کرنے میں کامیاب بھی رہا۔ بعدازاں قطر کو 2019ء اور 2020ء کے فیفا کلب ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق مل گئے، ان ٹورنامنٹس میں گہری دلچسپی لی گئی کیونکہ ان کے ذریعے ہی قطر میں میگا ایونٹ کے لیے جاری تیاریوں کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا

قطر نے صرف فٹبال میں ہی اتنے کم وقت میں عروج حاصل نہیں کیا۔ 2019ء میں قطر نے آئی اے اے ایف ورلڈ ایتھلیٹ چیمپئن شپ کی میزبانی بھی کی۔ یہ وہی ایونٹ ہے، جس میں ارشد ندیم کی عالمی اسٹیج پر شاندار آمد ہوئی تھی۔ ٹوکیو اولمپک 2020ء میں قطر کے ویٹ لفٹر فارس البخ (Fares El-bakh) نے 96 کلو گرام کی کیٹیگری میں قطر کو تاریخ کا پہلا اولمپکس طلائی تمغہ جتوایا

ان کے بعد لندن اولمپکس 2012ء اور ریو اولمپکس 2016ء میں ہائی جمپ میں چاندی کے تمغے حاصل کرنے والے معتز عیسٰی برشیم 2020ء میں طلائی تمغہ جیت کر بیک وقت اولمپکس اور ورلڈ چیمپئن بنانے میں کامیاب رہے۔ اس کے علاوہ 2019ء میں وہ اپنے ملک میں منعقدہ ورلڈ چیمپئن شپ مقابلوں کے دوران بھی طلائی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے

عبدالرحمٰن سامبا 2018ء میں چار سو میٹر کی رکاوٹی دوڑ میں کم ترین وقت میں دوڑ مکمل کرنے والے دنیا کے دوسرے شخص بنے۔ بعدازاں انہوں نے ورلڈ چیمپئن شپ 2019ء میں کانسی کا تمغہ بھی حاصل کیا

اور جب فیفا ورلڈ کپ میں تھوڑا ہی عرصہ رہ گیا تھا، تب قطر نے پہلی بار فارمولہ ون ریس کی میزبانی کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ اگرچہ کھیلوں کے شعبے میں قطر کی تمام کامیابیوں کو براہِ راست ورلڈ کپ سے نہیں جوڑا جاسکتا، البتہ اس یکایک عروج کو محض اتفاق کہنا بھی درست نہیں

2020ء تک کا کٹھن سفر

اس حوالے سے قطری وفد کو جس پہلی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا، وہ یہ الزام تھا کہ انہیں ایک غیر منصفانہ ووٹنگ کے تحت ورلڈ کپ میزبانی کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ قطر پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے دیگر ملکوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھاری رشوتیں دی تھیں۔ بظاہر فیفا کے ایک سینئر نائب صدر بھی قطر کو ٹورنامنٹ کی میزبانی دینے کے عوض ذاتی طور پر مالی فوائد حاصل کرتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ قطری وفد نے تمام الزامات کو رد کیا اور فیفا نے معاملے کی تفتیش کے بعد قطر کے مؤقف کو درست قرار دے دیا

کھیلوں کے عظیم الشان میلوں میں سے ایک تصور کیے جانے والے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق ملنے کے بعد قطر نے بھاری وسائل خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ اعلان کیا کہ ٹورنامنٹ کے دوران بارہ اسٹیڈیمز کو استعمال کیا جائے گا۔ بارہ میں سے نو میدانوں کو تعمیر جبکہ تین میدانوں کو بہتر کیا جانا تھا۔ مگر چند سال بعد انہوں نے اپنی خواہشات کا ایک بار پھر جائزہ لیا اور میدانوں کی تعداد آٹھ تک محدود کر دی

لیکن یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ آٹھوں میدان فن پاروں سے کم نہیں۔ ان میں عرب ثقافت کو بے مثال فنِ تعمیرات میں سمویا گیا ہے، بلاشبہ یہ اسٹیڈیم ماسٹر کلاس انجینئرنگ کا نمونہ ہیں۔ تمام میدانوں کو عربی صحرا کی تپش کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خاص کولنگ مکینزم سے بھی آراستہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسا اسٹیڈیم بھی تیار کیا گیا ہے، جس کے پورے ڈھانچے کو حصوں میں تقسیم کیا اور جوڑا جاسکتا ہے، لہٰذا اس اسٹیڈیم کے حصوں اور دیگر میدانوں کے بہت سارے حصوں کو ترقی پذیر ممالک کو عطیہ کیا جائے گا، تاکہ ان کے ہاں کھیلوں کا انفرا اسٹرکچر بہتر ہوسکے، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پس پردہ ہونے والا کام واقعی میں شاندار ہے

مگر ان شاہانہ تیاریوں کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ بلاشبہ حکومت نے اس منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بہت سارا پیسہ بہایا ہے، مگر اس پر ایک اور بھی لاگت آئی ہے. یعنی اس شاندار پس منظر کا ایک تاری پہلو بھی ہے

گارجیئن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ان شاندار منصوبوں پر کام کرنے والے اکثر مزدور دراصل وہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں، جو وہاں ناقص حالات میں قیام پذیر تھے

ایک قانونی ادارے کی جانب سے کرائے گئے سروے میں سرکاری حکام کے مزدوروں سے سلوک کے بارے میں تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا، جس کے بعد متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس پر سخت ردِعمل کا اظہار کیا گیا

گارجیئن میں شائع ہونے والی ایک اور رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ چند مزدوروں کو کئی ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی بھی نہیں کی گئی تھی۔ ان حالات میں قطری حکومت قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی اور اس کے ذمہ دار ٹھیکیداروں کے نہ صرف ٹینڈرز منسوخ کردیے گئے، بلکہ انہیں سزا کی دھمکی بھی دی۔ اس کے بعد 2015ء میں تنخواہوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے حکومت کی زیرِ نگرانی کام کرنے والا الیکٹرانک نظام بھی متعارف کروایا گیا

اگلا تنازع اس وقت پیدا ہوا جب بات ورلڈ کپ کے روایتی مہینوں میں پلیئنگ کنڈیشنز پر آئی۔ جون اور جولائی کے دوران قطر میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے، اسٹیڈیمز میں کولنگ مکینزم کی تنصیب کے باوجود اتنی گرمی میں کھیلنا ممکن نہیں ہوسکتا تھا

تفیصلی مباحثوں کے بعد فیفا نے نومبر اور دسمبر میں ٹورنامنٹ کروانے کا فیصلہ کیا اور یوں یہ پہلا ایسا فیفا ورلڈ کپ ہوگا، جو تمام یورپی لیگوں کے شیڈول کو متاثر کرے گا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ موسمِ سرما میں کھیلا جانے والا یہ پہلا فیفا ورلڈ کپ ہوگا، اس بات کا اندازہ آپ ٹورنامنٹ کی باضابطہ علامت دیکھ کر لگا سکتے ہیں، جس میں شال واضح طور پر نظر آجاتی ہے۔

کوالیفکیشن

ٹورنامنٹ کے کوالیفائنگ مرحلے میں روایتی طریقہ کار اپنایا گیا۔ بطور میزبان قطر ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرچکا ہے اور پہلی بار یہ ٹیم فائنلز کھیلتی ہوئے نظر آئے گی

یورپی کوالیفائرز کی بات کی جائے تو ان میں دفاعی چیمپئن فرانس کامیاب ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ 2014ء کا فاتح جرمنی، 2010ء کا فاتح اسپین اور 2018ء میں فاننل کھیلنے والا کروشیا اپنے اپنے گروپ میں ٹاپ پر ہونے کے ناطے اپنی ٹکٹیں بک کروا چکے ہیں۔ بیلجیم کی عصرِ حاضر کی بہترین ٹیم کے پاس اپنے وطن ٹرافی لانے کا یہ شاید آخری موقع ہے۔ جن دیگر یورپی ملکوں نے ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرلیا ہے ان میں ڈینمارک، انگلینڈ، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ اور سربیا شامل ہیں

اگر جنوبی امریکا کی بات کی جائے تو وہاں سے برازیل نے ہر بار کی طرح اس بار بھی فیفا ورلڈ کپ تک رسائی کی اپنی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اس کے علاوہ رکارڈ ساتویں بار Ballon d’Or victory ایوارڈ جیتنے والے لیونل میسی کی زیرِ قیادت کوپا امریکا کپ کی فاتح ارجنٹینا کی ٹیم بھی قطر پہنچے گی

افریقی، ایشیائی اور شمال امریکی کوالیفائنگ گروپس کے مقابلے جاری ہیں اور جلد ہی یورپ اور جنوبی امریکا سے مزید ٹیمیں بھی کوالیفائی کرلیں گی

لیکن…. کوالیفائنگ مرحلے میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سابق دو یورپی چیمپئن اٹلی اور پرتگال ایک ہی پلے آف گروپ میں آگئے ہیں.. لہٰذا ان میں سے کوئی ایک ہی ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے کہ آیا اس ورلڈ کپ میں کرسٹیانو رونالڈو ایکشن میں نظر آئیں گے یا نہیں؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close