سانحۂ اے پی ایس کی رپورٹ اور ایک اہم سوال

کلیم عبدالرحمٰن

سولہ دسمبر 2014ع کے دن بھاری اسلحے سے لیس دہشتگرد آرمی پبلک اسکول میں گھسے اور پھولوں کلیوں سے معصوم بچوں پر قہر بن کر ٹوٹے، قہقہے چیخوں میں بدلے، زندگی موت میں تبدیل ہو گئی، اور کتابیں لہو میں نہا گئیں..

اُس دن نے اِس دیس کو کس شدت سے احساس دلایا تھا، کہ معصوم بچوں کے کفن کا وزن بہت بھاری ہوتا ہے…!

بے رحمی سے قتل کیے جانے والے 145 لوگوں میں سے بیشتر اسکول کے بچے تھے۔ 132 پھول سے بچے، جن کی آنکھوں خواب مہک رہے تھے… ان کی ماؤں کا، اس دن شروع ہونے والا اپنے بچوں کا انتظار، اب کبھی ختم نہیں ہو سکے گا..

وہ اسکول، جس میں یہ سانحہ پیش آیا، پشاور کے اس علاقے میں واقع تھا، جسے بہت محفوظ سمجھا جاتا تھا، یہاں اپنے بچوں کو داخل کراتے وقت یقیناً اکثر والدین کے ذہن میں یہ بھی ہوگا کہ اس شہرِ بے اماں میں یہاں ’’سیکیورٹی‘‘ سخت اور بہتر ہے.

لیکن اس دن  تمام حفاظتی انتظامات کے دعوے آتشیں ہتھیاروں کی گرج اور گونج میں دب گئے

یہ خونیں سانحہ دسمبر 2014ع میں پیش آیا تھا۔ اپنے ہی خون میں نہا جانے والے بچوں کے والدین اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں 5 اکتوبر 2018ع کو ایک جوڈیشل کمیشن بیٹھا، جس کی رپورٹ آئی اور چیف جسٹس گلزار احمد کے حکم پر تین ہزار صفحوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن رپورٹ کو پبلک کیا گیا، ورنہ ہمارے ہاں عام طور پر کمیشن کی رپورٹس کے مقدر میں گمنامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا

منظرِ عام پر آنے والی اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اندرونی امداد اور سہولت کاری کے بغیر اتنا بڑا سانحہ ممکن ہی نہیں تھا!

یعنی وہ اپنے ہی لوگ تھے، جنہوں نے یہ سفاکانہ قتلِ عام کرنے والوں کی پشت پناہی کی، ان کے سہولت کار بنے اور انہیں اسلحہ فراہم کیا!

3000 صفحات کی اس رپورٹ میں 132 لوگوں کے بیانات ہیں، 101 کی عینی شہادتیں ہیں جن میں 31 پولیس والوں اور 31 آرمی کے اہلکاروں کے بیانات شامل ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے اس کے گیٹ سے کچھ فاصلے پر ایک گاڑی میں آگ لگا دی۔ اس سے اٹھنے والے دھویں نے علاقے میں گشت کرنے والی MVT-1 کی توجہ اسکول کے گیٹ اور اس کے اندرون کی طرف سے ہٹادی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ دہشت گرد کسی تعرض کے بغیر اسکول کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوئے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ MVT-1 کے عملے کو سزا دی گئی، یہ سزا ان کی نا اہلی پر دی گئی ۔ ایک بریگیڈیئر اور ایک میجر کو سزا سنائی گئی اور 5 فوجی اہلکار برخاست کیے گئے اور انھیں سزائیں دی گئیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جو گارڈ اسکول کی عمارت اور اس کے بچوں کی حفاظت کے لیے تعینات تھے انہوں نے اگر ابتدا میں ہی جوابی کارروائی کی ہوتی تو بچوں کا اس طرح قتل عام نہ ہوتا..

اس رپورٹ کا منظر عام پر آنا ہی کافی نہیں ہے، ہمیں اس طرح کے سانحات کے پیچھے کارفرما محرکات سے لے کر اس نظام کی تمام تر کمزوریوں پر بھی از سرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے.

وہ اسکول، جس میں یہ سانحہ پیش آیا، پشاور کے اس علاقے میں واقع تھا، جسے بہت محفوظ سمجھا جاتا تھا، یہاں اپنے بچوں کو داخل کراتے وقت یقیناً اکثر والدین کے ذہن میں یہ بھی ہوگا کہ اس شہرِ بے اماں میں یہاں ’’سیکیورٹی‘‘ سخت اور بہتر ہے.

اس حوالے سے سب سے اہم سوال، جو اس رپورٹ کے بعد ہمارے ذہنوں میں ابھرتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس اندھے اعتماد کو ہم کیسے مطمئن کر سکیں گے، جو اب دیکھنے لگا ہے، بولنے لگا ہے اور سوال کرنے لگا ہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close