کراچی – اس وقت گرین سی ٹرٹل یا ہرے سمندری کچھووں کے انڈے دینے کا سیزن عروج پر ہے۔ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے افسران کے مطابق روزانہ رات کو درجنوں مادہ ہرے کچھوے انڈے دینے سمندر سے باہر نکل کر کراچی کے ہاکس بے اور سینڈز پٹ ساحل پر آرہے ہیں
جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق آٹھ کلومیٹر پر پھیلا کراچی کے ہاکس بے اور سینڈز پٹ ساحل کا علاقہ دنیا کے ان چند مقامات میں شمار کیا جاتا ہے، جسے ہرے سمندری کچھوے اپنی افزائش نسل کے لیے استعمال کرتے ہیں
سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ان ساحلوں پر ویسے تو ہرے سمندری کچھوے انڈے دینے پورا سال ہی آتے رہتے ہیں، لیکن جون سے دسمبر تک جب سمندر چڑھا ہوا ہو تو یہ ان کے انڈوں کا سیزن سمجھا جاتا ہے
ماہرین کے مطابق اس موسم کے دوران سمندری ہرے کچھوے یا گرین سی ٹرٹل کی مادہ سمندر سے باہر نکل کر ساحل پر موجود ریت میں گڑھا کھود کر انڈے دیتی ہیں۔ انڈے دینے کے لیے ہرے کچھوے کی مادہ ساحل پر ایسی جگہ کا انتخاب کرتی ہے، جہاں جوار بھاٹے کے دوران سمندر کا پانی نہ پہنچ سکے
ماہرین بتاتے ہیں کہ چونکہ ہرے کچھوے کی مادہ انڈے دینے کے لیے ریت میں گڑھا کھودتی ہے، اسی نسبت سے ہاکس بے ساحل سے متصل ساحل کا نام ہی ”سینڈز پٹ“ رکھا گیا ہے
مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے، جس کے بعد وہ گڑھے کو ریت سے ڈھانپ دیتی ہے اور سمندر میں واپس چلی جاتی ہے
ماہرین کے مطابق ایک مادہ کچھوے کے دیے ہوئے ایک سو انڈوں میں سے ایک یا دو بچے ہی زندہ بچ پاتے ہیں
سمندری کچھوے کے بچے انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں، مگر اس دوران آوارہ جانور ان پر حملہ آور بھی ہو جاتے ہیں
اس کی ایک بڑی وجہ کراچی کے سینڈز پٹ کے ساحل پر کئی سالوں کے دوران تعمیر ہونے والے تفریحی ہٹس میں آنے والے لوگوں کی جانب سے کھانے پینے کی اشیا پھینکنا ہے، جس کے باعث اس علاقے میں کتوں، کوؤں اور دیگر شکاری جانوروں اور پرندوں کی بہتات ہے
یہ جانور ہرے کچھوے کے انڈوں والے گڑھوں کو کھود کر انڈوں کو پی جاتے ہیں، اس لیے محکمہ جنگلی حیات سندھ نے ہرے کچھوے سمیت دیگر سمندری کچھووں کے انڈوں کی حفاظت کے لیے ”مرین ٹرٹل کنزرویشن سینٹر“ قائم کیا ہے
اس حوالے سے اس مرکز کے انچارچ اشفاق علی میمن کا کہنا ہے کہ ہرے سمندری کچھوے کے انڈوں کو شکاریوں سے بچانے کے لیے ہم نے ہاکس بے اور سینڈز پٹ پر لوہے کے جنگلوں والے تین حفاظتی انکلوژر بنائے ہیں۔ جب مادہ انڈے دے کر چلی جاتی ہے، تو ہم وہ انڈے اٹھاکر ان انکلوژر میں رکھتے ہیں اور جب انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں تو انہیں بحفاظت سمندر روانہ کرتے ہیں
جانوروں اور پودوں کے تحفظ پر کام کرنے والی عالمی تنظیموں کے مطابق مچھلی کے شکار کے لیے استعمال ہونے والے خطرناک جال، ساحلوں پر آلودگی اور ان کے انڈوں کو بڑے پیمانے پر اٹھائے جانے کی وجہ سے سمندری کچھووں کی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہیں
عالمی ادارے ورلڈ کنزرویشن یونین (آئی یو سی این) نے ہرے سمندری کچھوے کو 2004ع سے ناپید جانداروں کی ریڈ لسٹ میں شامل کرکے ان کی دنیا بھر میں چھیاسی سے چھیانوے ہزار تک آبادی کا تخمینہ لگایا ہے
اشفاق علی میمن کے مطابق: ’ہرا کچھوا معدومیت کا شکار ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان کے انڈوں کی حفاظت کی جائے۔ ہرے کچھووں کے زیادہ سے زیادہ انڈوں کو نیسٹنگ کے لیے لگایا جائے اور ان کا تحفظ کرکے ان کے بچوں کو سمندر بھیجا جائے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ جنگلی حیات سندھ نے 1970ع سے ابھی تک ہرے کچھوے کے انڈوں کی حفاظت کرکے ان سے نکلنے والے آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار بچوں کو سمندر میں چھوڑا ہے۔ رواں سیزن میں اب تک ہم نے سات ہزار انڈے حفاظت سے رکھے ہیں، جن میں اب تک نکلنے والے ساڑھے سولہ سو ہرے کچھوے کے بچوں کو سمندر میں روانہ کیا گیا۔ باقی انڈوں میں سے جیسے جیسے بچے نکلتے جائیں گے، انہیں سمندر میں چھوڑ دیا جائے گا
اشفاق علی میمن کے مطابق ہرے کچھوے کے انڈوں والے علاقے میں ان کے محمکے کی جانب سے اسٹاف کی تعداد بھی بڑھائی جا رہی ہے، تاکہ انڈوں کی بہتر نگرانی کی جاسکے
انہوں نے بتایا کہ اب تک ہم سات سے آٹھ ہزار انڈے نیسٹ کرچکے ہیں، مگر اگلے سال ہمارا ہدف ہے کہ چالیس سے پینتالیس ہزار انڈے نیسٹ کریں۔ اس کے لیے ہم اپنے اسٹاف کی تربیت بھی کر رہے ہیں۔ اگلے سال ہم انڈے اٹھا کر انکلوژر میں نہیں رکھیں گے، بلکہ جہاں پر کچھوا انڈے دے گا، ہم وہیں پر اپنا نیسٹ لگائیں گے
ماہرین جنگلی حیات کے مطابق ہرے کچھوے کی مادہ دنیا میں جس مقام پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی مقام کا انتخاب کرتی ہے۔ تمام کچھوے بشمول خشکی، میٹھے پانی اور سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں.