یوکرائن اور تائیوان… امریکا، روس اور چین کے مابین دھمکیوں کا تبادلہ

ویب ڈیسک

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن کو خبردار کیا ہے کہ یوکرین پر کسی بھی حملے کی صورت میں سخت امریکی ردعمل سامنے آئے گا جب کہ روس نے جواباً کہا کہ ماسکو مخالف پابندیاں ایک ’سنگین غلطی‘ ہوگی

دوسری جانب چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کو تائیوان کے لیے اپنے اقدامات کی وجہ سے ’ناقابل برداشت قیمت‘ ادا کرنی پڑ سکتی ہے

دونوں صدور نے یہ باتیں تین ہفتوں میں ہونے والی دوسری براہ راست بات چیت کے دوران کیں

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان رہنماؤں کے درمیان جمعرات کو ہونے والی پچاس منٹ کی فون کال سے روس اور مغربی حمایت یافتہ یوکرین کے درمیان کشیدہ صورتحال پر مزید سفارت کاری کی حمایت کا اشارہ ملا ہے

کریملن میں خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر پوتن مجموعی طور پر اس بات چیت سے ’خوش‘ تھے جب کہ واشنگٹن میں ایک سینیئر امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گفتگو میں رہنماؤں کا لہجہ ’سنجیدہ اور ٹھوس‘ تھا

لیکن گفتگو میں 10 جنوری کو اعلیٰ سطحی روسی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت سے پہلے اختلاف کی گہرائی یا مشرقی یورپ میں کھیلے جانے والے اونچے داؤ کو چھپانے کی کوئی بات نہیں تھی

امریکی پریس سیکریٹری جین ساکی نے ایک بیان میں کہا کہ صدر بائیڈن نے واضح کیا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکہ اور اس کے اتحادی اور شراکت دار ماسکو کو فیصلہ کن جواب دیں گے

ادھر اوشاکوف نے یوکرین پر حملے کے ردعمل کے طور پر اقتصادی پابندیوں کی واشنگٹن کی بار بار دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔‘

اوشاکوف نے یہ بھی کہا کہ روس جنیوا میں جنوری میں ہونے والی بات چیت کے ٹھوس ’نتیجے‘ کے لیے پر امید ہے جب کہ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ وہ بھی چاہتا ہے کہ ماسکو یوکرین کی سرحد پر روس کی بڑی فوجی موجودگی سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی کے لیے کارروائی کرے

ساکی نے کہا: ’صدر بائیڈن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت صرف اس صورت میں ممکن ہے جب یہ بات چیت کشیدگی کی بجائے پرامن ماحول میں ہو۔‘

ٹیلی فون کال کے بعد ایک ریڈ آؤٹ میں کریملن نے زور دیا کہ بائیڈن نے پوتن کو بتایا کہ یوکرین میں امریکی ہتھیاروں کو نصب نہیں کیا جائے گا۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے کہا کہ بائیڈن نے محض موجودہ پالیسی کی توثیق کی ہے

ایک امریکی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا: ’صدر بائیڈن نے واضح کیا کہ امریکہ یوکرین کو دفاعی سکیورٹی کے حوالے سے امداد فراہم کر رہا ہے اور جارحانہ حملہ کرنے والے ہتھیار نہیں دے رہا۔ یہ کوئی نیا عہد نہیں تھا۔‘

ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق وائٹ ہاؤس کے حکام نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کئی ایسے شعبے ہیں جہاں دونوں فریق بامعنی طور پر پیش رفت کر سکتے ہیں لیکن ایسے اختلافات بھی موجود ہیں جنہیں حل کرنا ممکن نہیں

مثال کے طور پر روس نے واضح کیا کہ وہ ایک تحریری عہد چاہتا ہے کہ یوکرین کو کبھی بھی نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی وہاں اتحادی ممالک اپنے ہتھیار نصب کریں گے، یہ مطالبہ بائیڈن انتظامیہ نے مسترد کر دیا

جنیوا میں ہونے والی بات چیت کے دوران روس کے مطالبات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں کہ بحران کو کم کرنے کے بدلے میں بائیڈن پوتن کو کیا پیشکش کرنے کو تیار ہوں گے

دریں اثنا نیٹو کے اہم ارکان نے واضح کیا کہ مستقبل قریب میں اتحاد کو وسعت دینے کی کوئی خواہش نہیں لیکن مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں یہ روس کو سابق سویت ریاست پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کرے گا

چین کی امریکا کو تائیوان کے معاملے میں ’مداخلت‘ پر سنگین نتائج کی دھمکی

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کو تائیوان کے لیے اپنے اقدامات کی وجہ سے ’ناقابل برداشت قیمت‘ ادا کرنی پڑ سکتی ہے

غیرملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق چین جمہوری طریقے سے تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے جبکہ گزشتہ دو برس میں اس نے اپنی خودمختاری کے دعوے پر زور دینے کے لیے فوجی اور سفارتی دباؤ بڑھایا ہے،جس کے بعد تائیوان میں غصہ اور واشنگٹن میں تشویش پائی جاتی ہے

چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’تائیوان کی آزادی کے متحرک قوتوں کی حوصلہ افزائی کر کے’امریکا‘ نہ صرف تائیوان کو ایک انتہائی خطرناک صورتحال میں جھونک رہا ہے جس کی واشنگٹن کو ناقابل برداشت قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے

دوسری جانب تائیوان کا کہنا ہے کہ وہ ایک آزاد ملک ہے اور اپنی آزادی اور جمہوریت کے دفاع کا عزم کرتا ہے جبکہ چین باقاعدگی سے اس جزیرے کو امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات میں سب سے حساس مسئلہ قرار دیتا ہے

چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ تائیوان کے پاس چین کے ساتھ دوبارہ اتحاد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close