ذلفی بخاری کے گمشدہ ٹیبلیٹ کا پراسرار معاملہ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے تلاش شروع کردی

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – وفاقی کابینہ کے لئے کاغذ سے پاک Paperless ماحول کے فروغ کے لئے وزیراعظم کے ویژن کے تحت مئی 2021ع میں کیبنٹ ممبران کو ٹیبلیٹ کمپیوٹر دیے گئے تھے، جن میں سے ذلفی بخاری کے لئے مختص ٹیبلیٹ گم ہو گیا ہے

کابینہ ڈویژن نے خبردار کیا ہے کہ اگر گم شدہ ٹیبلیٹ نہ ملا تو اس سے باضابطہ طور پر انکوائری شروع ہو سکتی ہے اور ایف آئی اے کی جانب سے فوجداری کارروائی بھی کی جا سکتی ہے

کابینہ ڈویژن کے ایک ترجمان نے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ گمشدہ ٹیبلیٹ کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے، انہوں نے یقین دہانی کرائی ”اس ٹیبلیٹ کے ذریعے کوئی خفیہ دستاویزات شیئر نہیں کی جا سکتیں کیونکہ اس میں سیکورٹی سخت ہے۔“

یہ گمشدہ ٹیبلیٹ مئی 2021ء میں ذلفی بخاری کو دیا گیا تھا، یہ وہی مہینہ تھا جب وہ وزیراعظم کے معاون خصوصی کے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے

ذلفی بخاری کا کہنا ہے کہ کاغذ سے پاک ماحول کا میکنزم اُن کے عہدہ چھوڑنے کے بعد سے اختیار کیا گیا تھا، لہٰذا انہوں نے ٹیبلیٹ دیکھا اور نہ یہ انہیں ملا تھا

کابینہ ڈویژن کی اب تک کی غیر رسمی کارروائی سے معلوم ہوا ہے کہ دستاویزات کے مطابق ذلفی بخاری کو ٹیبلیٹ ایلوکیٹ کر دیا گیا تھا، لیکن اسٹاف کی سطح پر یہ ”گم ہو گیا“

وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس کے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) وہ متعلقہ ادارے ہیں جو اس ٹیبلیٹ کی سیکورٹی کے ذمہ دار ہیں۔ وزارت اور بورڈ حکام مل کر وزارت ہیومن ریسورسز اور اوورسیز پاکستانیز اور ذلفی بخاری کی رہائش گاہ پر یہ ٹیبلیٹ تلاش کر رہے ہیں، انہوں نے بھی حکام کو بتایا ہے کہ انہوں نے ٹیبلیٹ دیکھا نہ وصول کیا۔ مئی 2021ء سے وفاقی کابینہ وزیراعظم عمران خان کے ڈیجیٹل ویژن کے تحت بنا کاغذ کے ماحول میں کام کر رہی ہے

واضح رہے کہ تمام وفاقی وزراء اور مشیروں کو کابینہ کی سمریاں اور فیصلے شیئر کرنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ ٹیبلیٹس دیے گئے ہیں، جن میں خصوصی سیکورٹی خصوصیات شامل ہیں اور اسی میں کابینہ کا تمام ڈیٹا اور دستاویزات موجود ہیں

کابینہ ڈویژن اور وزارت ہیومن ریسورسز اینڈ اوور سیز پاکستانیز کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ٹیبلیٹ ابھی تک نہیں ملا۔ کابینہ کے ایجنڈا، ورکنگ پیپرز اور کابینہ کی بریفنگ جیسی اہم خفیہ چیزیں اس ٹیبلیٹ میں ہیں۔ صرف ایک آئینی عہدیدار جیسا کہ وزیر، مشیر یا معاون خصوصی ہی اس ٹیبلیٹ کو چلا سکتا ہے جو ذاتی حیثیت میں اُس عہدیدار کو دیا جاتا ہے جس کے لئے باضابطہ طور پر دستاویزی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے

کابینہ کے اجلاس کے دوران بھی کاغذ سے پاک ماحول کو یقینی بنانے کے لئے دستاویزات اسی ٹیبلیٹ پر پڑھی جاتی ہیں۔ اس مقصد کے لئے انتہائی سخت سائبر سیکورٹی فراہم کی گئی ہے اور یہ این آئی ٹی بی کی ذمہ داری ہے، ٹیبلیٹ کابینہ ڈویژن کی ہدایت پر جاری کیا جاتا ہے

وفاقی کابینہ کے کاغذ سے پاک /پیپرلیس میکنزم میں خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب چند ہفتے قبل یہ بات سامنے آئی کہ برطانوی شہری اور وزیراعظم کے ذاتی دوست ذلفی بخاری (جنہوں نے 17؍ مئی 2021ء کو معاون خصوصی کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا) نے حساس برقی آلہ متلعقہ وزارت یا کابینہ ڈویژن کو واپس نہیں کیا

یہ بات اچانک اس وقت سامنے آئی جب سینیٹر ایوب آفریدی کو اوورسیز پاکستانیز اور ہیومن ریسورسز ڈویلپمنٹ پر وزیراعظم کا معاون خصوصی بنایا گیا۔ نئے عہدیدار نے جب کابینہ کے ایجنڈا اور دستاویزات تک رسائی مانگی تو متعلقہ وزارت کے لئے مختص ٹیبلیٹ دستیاب نہیں تھا۔ آفریدی کو نیا ٹیبلیٹ دیا گیا، لیکن گمشدہ ڈیوائس کی تلاش کیلئے کارروائی شروع کر دی گئی کیونکہ ذلفی بخاری کو ڈیوائس جاری کی جا چکی ہے

ابتدائی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذلفی بخاری نے ٹیبلیٹ، اسے چلانے کے لئے استعمال ہونے والا کوڈ کابینہ ڈویژن، این آئی ٹی بی یا وزیراعظم آفس یا منسٹری کو واپس نہیں کیا

تاہم، مئی 2021ء میں جا کر یہ بات سامنے آئی ہے کہ حساس ڈیوائس کو (کم از کم دستاویزات کی حد تک) ذلفی بخاری نے واپس نہیں کیا اور اب وہ کھو گئی ہے۔ رابطہ کرنے پر کابینہ ڈویژن کے ترجمان نے کہا کہ ٹیبلیٹ کا کھو جانا سنگین معاملہ ہے، تاہم اس میں لگے سیکورٹی فیچرز کی وجہ سے اسے کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا

انہوں نے بتایا کہ اس کے پاسورڈز این آئی ٹی بی اکثر و بیشتر تبدیل کرتا رہتا ہے، اس میں شیئر کی جانے والی دستاویزات ہر چوبیس گھنٹے بعد ڈیلیٹ کر دیا جاتی ہیں اور اس میں ایسا کوئی آپشن موجود نہیں کہ دستاویزات کو کسی اور کے ساتھ شیئر یا پرنٹ کیا جا سکے

انہوں نے کہا کہ ٹیبلیٹ پر نظر آنے والی دستاویزات پر اس شخص کا نام درج (واٹر مارک) ہوتا ہے جس کا ٹیبلیٹ ہوتا ہے لہٰذا یہ پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دستاویزات کہاں سے آئیں

وفاقی کابینہ کے رازداری کے معاملات سے واقف ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، متعلقہ بورڈ اور ڈویژن کو گمشدہ ڈیوائس کا پہلے کیوں پتہ نہ چلا، یہ ڈیوائس تو اسی دن واپس لی جانا چاہئے تھی، جس دن ذلفی بخاری نے استعفیٰ دیا تھا

ذریعے کے مطابق، رولز آف بزنس، آفیشل سیکریٹس ایکٹ اور خفیہ دستاویزات کی حوالگی و سپردگی کے معاملات کے حوالے سے قواعد و ضوابط کے تحت اس معاملے کی اعلیٰ سطح کی انکوائری ہونا چاہئے ، تاکہ قومی نوعیت کی حساس معلومات غلط معلومات میں جانے سے روکنے کو یقینی بنایا جا سکے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close