درس و تدریس کے دوران اکثر یہ صورتحال ہو جاتی ہے کہ بچوں کے والدین کو تعلیم کی اہمیت سمجھانی پڑتی ہے۔ وباء کے بعد اسکول کھلے تو کئی والدین اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ آئے کہ بس امتحان دینے کے لیے بچے کو اسکول بھیجیں گے
کئی والدین کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں نے اب چھوٹا موٹا کام بھی شروع کر دیا ہے اور وہ اسکول نہیں آ سکیں گے۔ ایسی صورتحال سے نبردآزما ہماری ایک ساتھی ٹیچر جذباتی ہو کر بولیں کہ ”یہ ان پڑھ لوگ بھی ہمارے ملک پر فقط بوجھ ہی ہیں۔ انہیں یہ بات کون سمجھائے کہ تعلیم کی کمی ہمارے ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے“
وہاں موجود دیگر اساتذہ نے بھی تعلیم سے محروم اس طبقے کو لعن طعن کرنے میں حسبِ توفیق حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔ کیونکہ ایک عام سوچ یہی ہے کہ ”زیادہ شرح تعلیم والے ممالک میں معاشی صورتحال بہتر ہوتی ہے اور ہر شخص ملک کی ترقی میں مدد گار ہوتا ہے“
”اس کے برعکس ہمارے ملک میں چونکہ شرح تعلیم انتہائی کم ہے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ غریب اور ان پڑھ طبقہ ملکی مسائل کے بارے میں سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اور نہ ہی ان مسائل کو حل کرنے میں اپنا کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔ تعلیم ہی انسان کو باشعور بناتی ہے اور ذہن کے بند دریچوں کو کھولتی ہے“
”تعلیم نہ ہو تو انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں مست ہوتا ہے۔ اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ دنیا کس روش پہ چل رہی ہے اور کتنی ترقی کر چکی ہے؟ نئے دور میں آنے والے نت نئے مسائل سے کس طرح نمٹا جائے؟ یہ بھی اس کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے“
”خوبصورت رنگوں سے مزین، ایک اچھے سے ٹائٹل والی کتاب ایک ان پڑھ شخص کی نگاہوں کو تو ضرور بھا سکتی ہے، لیکن اس کتاب میں موجود علم کا خزانہ اس کی دسترس سے دور رہتا ہے۔ چونکہ تعلیم ہی ہمیں اچھائی اور برائی کی تمیز سکھاتی ہے، تو ایک ان پڑھ شخص اچھے برے عمل میں تمیز کرنے سے بھی قاصر ہوتا ہے“
”اس کی اپنی زندگی تو ایک ناکارہ پرزے کی طرح گزر ہی جاتی ہے، لیکن اگر وہ اولاد کو بھی تعلیم کے حصول کے مواقع نہ دے پائے، تو اگلی نسل بھی اسی کی طرح معاشرے کی مشینری کا ایک زنگ آلود پرزہ بن کر رہ جائے گی“
اس سیر حاصل تبصرے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور ساتھی ٹیچر فرمانے لگیں کہ ”ایسے لوگ ہمارے ملک پر سراسر ایک بوجھ کی مانند ہیں، جو کہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر نہیں رہے، بلکہ بیٹھ کر خیراتی اداروں سے صرف روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں زندگی بس یہی ہے کہ جیسے ہی بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچے اس کی شادی کر دی جائے اور پھر وہ بھی بچے بنانے کی دوڑ میں شامل ہو جائے“
”جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو پڑھے لکھے لوگ کتنی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ صبح سے شام تک اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی تعلیم اور تربیت سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہوتے۔ ہمارے بچے دن رات کی محنت کے بعد ایک کامیاب انسان بنتے ہیں“
”کوئی پروفیشنل ڈگری حاصل کر کے کسی ادارے کی باگ دوڑ سنبھالتا ہے، تو کوئی اپنا بزنس سیٹ کر کے ملک کو ترقی کی دوڑ میں شامل رکھتا ہے۔ اس کے بعد ہم بچوں کی شادی کا سوچتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ملک کی ترقی میں دراصل پڑھا لکھا طبقہ پورا حصہ ڈال رہا ہے۔ یہ ان پڑھ لوگ تو بس اپنی زندگی میں مست ہیں، انہیں ہماری محنت کا اندازہ ہی نہیں ہے“
اس سارے تبصرے کو سننے کے بعد میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ جائزہ لیا جائے کہ پاکستانی معاشرے کو بہتر بنانے میں ان نام نہاد تعلیم یافتہ لوگوں نے اب تک کیا کردار ادا کیا ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ڈگری صرف اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ اس شخص نے اتنے سال لگا کر فلاں فلاں جماعت کا نصاب پڑھ لیا ہے۔ لیکن یہ ڈگری اس بات کی تصدیق ہرگز نہیں کرتی کہ یہ شخص باشعور بھی کہلائے جانے کا مستحق ہے؟
ہم تعلیم یافتہ تو بن گئے لیکن تربیت یافتہ بننے سے محروم ہی رہے۔ ہم میں سے ہر شخص واقف ہے کہ ہمارے یہاں ”پڑھے لکھے جاہلوں‘‘ کی کمی نہیں ہے۔ جب کہ ایک رسمی تعلیم سے محروم شخص کو ان پڑھ تو کہا جا سکتا ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اس قدر ”بڑا جاہل‘‘ نہ ہو جتنا کہ اس کے مقابلے میں ”ڈگری یافتہ جاہل‘‘ موجود ہیں۔ جنہیں ڈگریوں کی بدہضمی تو ضرور ہو جاتی ہے، لیکن علم ان کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا
ہمارے ہاں تو کبھی کبھار جو ”جتنا زیادہ پڑھا لکھا ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ بڑا فراڈیا‘‘ بنتا ہے۔ ٹیکس چوری کرنے کا معاملہ ہو یا کسی قانون کی دھجیاں اڑانی ہوں، انصاف کے حصول میں تعطل پیدا کرنا ہو یا سیاسی اثر رسوخ کا استعمال کر کے بینکوں سے لیا گیا قرض معاف کروانا ہو۔ یہ تمام کارنامے ہمارے پڑھے لکھے افراد ہی سر انجام دے پاتے ہیں، یقیناً کسی ان پڑھ کے بس کا کام تو نہیں
ایک پسماندہ طبقے کا ان پڑھ انسان تو اتنا کما ہی نہیں پاتا کہ اس پر ٹیکس لاگو ہو۔ البتہ اس کی معمولی اجرت پر لاگو ہونے والا ان ڈائریکٹ ٹیکس تو اسے دینا ہی پڑتا ہے۔ اس کا بچہ کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے مر جائے تو کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ اس کا بیٹا بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرلے تو حکومتی ایوانوں میں کوئی ہلچل نہیں مچتی
دوسری طرف ایک ”پڑھا لکھا انسان‘‘ ، جو کہ نہ صرف اچھائی برائی کی تمیز رکھتا ہے بلکہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہوتا ہے کہ ملک و قوم کو نقصان پہنچا کر ذاتی فائدہ اٹھانا انتہائی درجے کی بے حسی ہے۔ اس کے باوجود جب وہ بزنس کا آغاز کرتا ہے، تو سب سے پہلے اس بات کی فکر کرتا ہے کہ ٹیکس کیسے چوری کرنا ہے؟
اسے بینکوں سے آسان شرائط پر قرض لینے کے طریقے بھی بخوبی معلوم ہوتے ہیں۔ سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے زمین بھی حاصل کر لی جاتی ہے، لیکن جب کاروبار جم جاتا ہے تو اس کے غریب ملازم کی تنخواہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا
تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان کے بیس فیصد امراء ملک کی نصف آمدنی کے مالک ہیں۔ جبکہ ملک کے بیس فیصد غریب صرف سات فیصد آمدنی کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان آخری سے دوسرے نمبر پر ہے۔ جبکہ ملک کی اشرافیہ کو 17.4 بلین ڈالر کی مراعات دی جاتی ہیں، لیکن کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں
عموماً جب آمدنی میں اضافہ ہو تو ٹیکس کی شرح بڑھتی ہے، لیکن اشرافیہ کے لیے یہ ٹیکس چھوڑ دیا جاتا ہے، جو 2020ء میں 1.3 کھرب روپے تھا۔ یہ وہی مراعات یافتہ طبقہ ہے، جن کے پاس اعلیٰ تعلیم ہے اور جنہیں معلوم ہے کہ اس نظام کو کیسے اپنی مٹھی میں بند کرنا ہے
ایک لمحے کے لیے ذرا موازنہ کیجیے کہ کیا پورے ملک کے غریب ان پڑھ لوگ مل کر بھی اتنی بڑی کرپشن کر سکتے ہیں؟ کیا یہ ان پڑھ لوگ ملک کو اس قدر نقصان پہنچا سکتے ہیں، جتنا نقصان یہ باشعور، اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ پہنچا رہا ہے؟ ایک ان پڑھ شخص چھوٹی موٹی چوری چکاری تو کر لیتا ہے، لیکن کبھی بھی ملک کو کھربوں روپے کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جو پڑھا لکھا شخص جتنے بڑے عہدے پر پہنچتا ہے، وہ اکثر اتنی ہی زیادہ بڑی لوٹ مار کرتا ہے۔ غریب ان پڑھ تو ہوتا ہی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانا دراصل اس نوکر شاہی کی ذمہ داری تھی، جنہیں پالیسی ساز کہا جاتا ہے
تعلیم کی کمی یقیناﹰ ایک مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لئے اگر درست سمت میں کوشش کی جاتی تو یقیناﹰ آج حالات مختلف ہوتے۔ اگر کھربوں روپے کی مراعات ٹیکس پر دینے کے بجائے تعلیم پر خرچ کی جاتیں تو صورت حال اتنی ابتر نہ ہوتی
ملک پر جتنا بوجھ ان ”اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنی کرپشن‘‘ سے ڈالا ہے اور جتنی مراعات انہوں نے حاصل کی ہیں، اتنی ایک ان پڑھ اور غریب آدمی صدیوں میں بھی نہیں کر سکتا!
حوالہ: ڈی ڈبلیو