قصہ دو شہر – 8

مشتاق احمد یوسفی

چریا

مُلا عاصی کے کھٹ مٹھے مزاج کا اندازہ ایک واقعے سے لگائیے جو ایک صاحب نے مجھے سنایا۔ ان کے پڑوسی نے کئی مرتبہ شکایت کی ” آپ کے کرایہ دار نے ایک نئی کھڑکی نکال لی ہے جو میرے دالان میں کھلتی ہے۔ مستورات کی بے پردگی ہوتی ہے۔ ” انہوں نے کوئی نوٹس نہ لیا تو ایک دن دھمکی دی ” آپ نے کھڑکی نہ چنوائی تو ٹھیک نہ ہو گا، نالش کر دوں گا۔ اگر گھر کے سامنے قرقی کا ڈھول نہ بجوا دوں تو میرا نام نہیں۔ سارا بدھ ازم دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ ” یہ بچارے خود کرائے دار کے ستائے ہوئے تھے۔ کیا کر سکتے تھے۔ البتہ پردے کے نقصانات ضرور بیان کر دیئے۔ جس سے وہ اور مشتعل ہو گیا۔ دو تین دن بعد اس نے یکم نومبر کو ان کو قانونی نوٹس دے دیا کہ اگر ایک مہینے کے اندر اندر آپ نے کھڑکی بند نہ کروائی تو آپ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا جائے گا۔ انہوں نے نوٹس پھاڑ کر پھینک دیا۔ اس کی میعاد تیس نومبر کو ختم ہوتی تھی۔ یکم دسمبر کو صبح پانچ بجے انہوں نے پڑوسی کے دروازے پر دستک دی۔ وہ ہڑبڑا کر آنکھیں ملتا ہوا ننگے پیر باہر آیا تو کہنے لگے "حضور، گستاخی معاف۔ میں نے کچی نیند سے اُٹھا دیا۔ میں صرف یہ یاد دہانی کرانے آیا ہوں کہ آج آپ کو میرے خلاف مقدمہ دائر کرنا ہے۔ آداب۔ ”

ہم کراچی والوں کی اصطلاح میں ” چریا ” تو وہ سدا کے تھے، مگر اب اصلاح اور برداشت کی حد سے گزر گئے ہیں۔ آٹھویں جماعت سے لے کر بی اے تک کورس کی تمام کتابیں جو انہوں نے پڑھی تھیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نہیں پڑھی تھیں۔ ایک الماری میں سجا رکھی ہیں۔ امتحان کے پرچوں کی ایک علیحدا فائل ہے۔ ان کی رسمِ بسم اللہ پر جس چاندی کی پیالی میں زعفران گھولا گیا اور مسلمانیوں کی تقریب میں زردوزی کے کام کی جو ٹوپی انہیں پہنائی گئی، اور اسی قسم کے اور بہت سے تبرکات دوسری الماری میں محفوظ ہیں۔ وہ تو غنیمت ہوا کہ پیدائش کے وقت اپنا کام آپ کرنے سے بوجوہ معذور تھے۔ ورنہ اپنا نال بھی منجملہ دیگر یادگار اشیا کے منگوا کر رکھ لیتے۔ ان کی تفصیل کے یہ صفحات متحمل نہیں ہو سکتے۔ مختصرا یوں سمجھیے کہ عام طور پر مورخ یا ریسرچ کرنے والے کو بڑے آدمیوں کی زندگی کے بارے میں باریک تفصیلات کھود کھود کر نکالنے میں جو مشقت اٹھانی پڑتی ہے وہ انہوں نے اپنا تمام خام مواد اس کی ہتھیلی پر رکھ کے آسان کر دی ہے۔ واللہ، میں نے ایسا آدمی نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنی کوئی چیز ڈسکارڈ (ترک) نہیں کر سکتے۔ بجز اپنے عقائد کے۔ اپنے کوڑے کو بھی ” این ٹیک ” بنا دیتے ہیں۔ کمرہ کاہے کو ہے یادوں کا ملبہ ہے جسے بیلچوں سے کھودیں تو آخری تہ کے نیچے سے خود موصوف برآمد ہوں گے۔

زوجہ کوچک کے نام

اسی طرح گزشہ تیس چالیس برسوں میں انہیں جتنے خطوط احباب و اعزہ نے لکھے، وہ سب کے سب کھڑے سوؤں میں تاریخ وار پروئے ہوئے محفوظ ہیں۔ بیشتر پوسٹ کارڈ ہیں۔ اس زمانے میں پچانوے فیصد خطوط پوسٹ کارڈ پر ہی لکھے جاتے تھے۔ اس کا ایک کونہ ذرا سا کاٹ دیا جاتا تو یہ الارم ہوتا تھا کہ کسی کے مرنے کی خبر آئی ہے۔ صرف کٹا ہوا کونا دیکھ کر ہی آن پڑھ گھرانوں کی عورتیں نامعلوم مردے کے فرضی اوصاف بیان کر کر کے رونا پیٹنا شروع کر دیتی تھیں۔ اس اثنا میں کوئی پڑوسی خط پڑھ دیتا تو بین میں مرحوم کے نام کا اضافہ اور اوصاف میں کمی کر دی جاتی۔ پوسٹ کارڈ پر ایک طرف تیس تیس سطریں تو میں نے لکھی دیکھی ہیں جنہیں غالبا گھڑی سازوں والی یک چشمی خوردبین لگا کر ہی لکھا اور اسی طرح پڑھا جا سکتا تھا۔ میں ایک چمڑے کے بیوپاری شیخ عطا محمد کو جانتا تھا تھا جو مال بک کرانے کلکتے جاتا تو اپنی نوخیز و خوبرو زوجہ کوچک کو (جسے محلے والے پیار میں صرف کوچک کہتے تھے ) بہ نظرِ کفایت پوسٹ کارڈ پر خط لکھتا، لیکن نجی جذبات کے اظہار میں ‌کفایت شعاری سے بالکل کام نہیں لیتا تھا۔ دوسروں کے خط پڑھنے کا لپکا اس زمانے میں بہت عام تھا۔ پوسٹ مین ہمیں یعنی مجھے، میاں تجمل حسین اور ملا عاصی کو وہ پوسٹ کارڈ پڑھوا دیتا تھا۔ ہم اسے ہرن کے کوفتے کھلاتے تھے۔ صاحب، زبان کا چٹخارا بری بلا ہے۔ میں جب اٹاوہ کے اسکول میں تعینات ہو کر گیا تو اس نے میرا خط جو میں نے شادی کے کچھ دن بعد آپ کی بھابھی کو لکھا تھا، مُلا عاصی اور میاں تجمل کو پڑھوا دیا۔ خط کا مضمون سارے شہر میں ہیضے کی طرح پھیل گیا۔ میں نے کئی بیقرار فقرے اور جملے کے جملے چمڑے کے بیوپاری کے پوسٹ‌ کارڈوں سے اڑائے تھے۔ ہر چند کہ وہ چمڑا بیچتا تھا اور انشا پردازی اس کے پیشہ ورانہ فرائض اور شوہرانہ وظائف میں داخل نہ تھی، لیکن چودھری محمد علی ردولوی نے بیوی کے نام مثالی خط کی جو تعریف کی ہے اس پر شیخ عطا محمد کے خطوط پورے اُترتے تھے۔ یعنی ایسا ہو کہ مکتوب الیہ کسی کو دکھا نہ سکے۔ کسی متفنی نے شیخ عطا محمد کو میرے خط کا مضمون سنا دیا۔ کہنے لگا کہ اگر کوئی میرے انتہائی نجی جذبات اپنی ذاتی زوجہ تک پہنچانا چاہتا ہے تو میری عین خوش نصیبی ہے۔ شدہ شدہ آپ کی بھابھی تک جب اس سرقے کی خبر پہنچی تو انہیں مدتوں میرے انتہائی اوریجنل مکاتیب سے بھی چمڑے کی بُو آتی رہی۔ عجیب گھپلا تھا۔ وہ اور کوچک ایک دوسرے کو اپنی سوکن سمجھنے لگیں جو ہم دونوں مردوں کے لیے باعثِ شرم تھا۔ دسمبر کی تعطیلات میں جب میں کانپور گیا تو اس حرمزدگی پر پوسٹ مین کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اور دھمکی دی کہ ابھی پوسٹ ماسٹر کو رپورٹ کر کے تجھے ڈسمس کرا دوں گا۔ غصے سے میں پاگل ہو رہا تھا۔ میں نے چیخ کر کہا ” بے ایمان، اب تجھے وہ دونوں ہرن کے کوفتے کھلا رہے ہیں۔ ” وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا ” قسم قرآن کی، جب سے آپ گئے ہیں، ہرن کے کوفتے کھائے ہوں تو سؤر کھایا ہو۔ ” میں جوتا لے کے پیچھے دوڑا تو بدمعاش قبولا کہ نیل گائے کے کھائے تھے

بلیک باکس

ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ سوؤں میں پروئے ہوئے خطوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ہر سُوئے پر پانچ پانچ سال کی مراسلت کو سُولی دی ہے۔ لکڑی کے گول پیندے میں ٹھکے ہوئے یہ سُوئے اس زمانے میں فائلوں اور فائلنگ کیبنٹ کی جگہ استعمال ہوتے تھے۔ سیاہ پیندے کا ایک سُوا مرحومین کے لیے وقف ہے۔ کہنے لگے کہ جب کسی کے انتقال کی خبر آتی ہے تو اس کے تمام خطوط مختلف سُوؤں سے نکال کر اس میں لگا دیتا ہوں۔ اور یہ بلیک بکس[1] بہت ہی اہم اور نجی کاغذات کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ میں نے وصیت کر دی ہے کہ مرنے کے فورا بعد نذرِ آتش کر دیا جائے۔ میرا مطلب ہے کاغذات کو۔

پلنگ کے نیچے رکھے ہوئے جس سیاہ صندوق کی طرف انہوں نے اشارہ کیا تھا، وہ دراصل ایک کیش بکس تھا۔ اس کے والد کے دوالے اور اس کے نتیچے میں انتقال کے بعد بس یہی اثاثہ ان کو ترکے میں ملا۔ اب بھی اکثر فرماتے ہیں کہ اس میں ایک لاکھ نقدی کی گنجائش ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس بکس میں اس کی وصیت رکھی ہے جس میں واضح ہدایات ہیں کہ ان کی میت کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کی طرح دفن کیا جائے یا پارسیوں کی طرح لاش چیل کوؤں کو کھلا دی جائے۔ یا بدھ رسوم کے مطابق ٹھکانے لگائی جائے۔ جہاں عقائد میں اتنا گھپلا ہو وہاں یہ وضاحت از بس ضروری ہے۔ غالب کو اس کی ” گلیوں میں میری لاش کو کھینچے پھرو کہ میں۔۔۔۔ ” والی خواہش کے برعکس اس کے سُنی عقیدت مند سُنی طریقے سے گاڑ آئے۔ جب کہ اس غریب کا مسلک امامیہ تھا۔ احب، اس پر یاد آیا۔ غالب نے کیسی ظالم بات کہی ہے۔ حیف کافر مُردن و آدخ مسلما زیستن۔ یعنی پروردگار مجھے کافروں کی طرح مرنے اور مسلمانوں کی طرح جینے سے بچا۔ سب کچھ سات لفظوں کے ایک مصرعے میں سمو دیا۔

حرفِ حق کہ بعد از مرگ یاد آید۔۔۔

ان کے ایک قریبی دوست سید حمید الدین کا بیان ہے کہ وصیت میں یہ رقم فرمایا ہے کہ میں مسلمان تھا، مسلمان ہی مرا۔ باقی سب ڈھونگ تھا جو مسلمانوں کو چڑانے کے لیے رچانا پڑا۔ گویا ان کا کفر در حقیقت مکاری تھی۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ میری وصیت ٹھیک اسی دن کھولی جائے جس دن مولانا ابو الکلام آزاد کی کتاب کے غیر مطبوعہ حصے بینک کے سیف ڈپازٹ لاکر سے نکالے جائیں۔ اس پر ایک دل جلے نے یہ نیم چڑھایا کہ وصیت میں مُلا عاصی نے مولانا آزاد کے بارے میں اپنی بے نقط رائے لکھ دی ہے جس کا اظہار وہ اپنی زندگی میں خوفِ فسادِ خلق سے نہیں کر سکتے تھے۔ مگر سوچیے تو سہی۔ مُلا عاصی نے آخر کون سے توپ چلائی ہو گی۔ بدترین سے بدترین گمان یہی ہو سکتا ہے کہ سچ بولا ہو گا۔ لیکن صاحب، وہ کلمہ حق کس کام کا جس کے اعلا کی جیتے جی جرات نہ ہوئی۔ ہر لمحے کی اپنی سچائی اور اپنی صلیب اور اپنا تاج ہوتا ہے۔ اس سچائی کا اعلان و ابلاغ بھی صرف اسی لمحے واجب ہوتا ہے۔ سو جو چپ رہا اس نے اس لمحے سے اور اپنے آپ سے کیسی دغا کی۔ بقول آپ کے مرزا عبدالودود بیگ کے، تمام عمر دروغ مصلحت آمیز کے ساتھ ہنسی خوشی گزارا کرنے کے بعد قبر میں پہنچ کر اور کفن پھاڑ کر سچ بولنے اور منھ چڑانے کی کوشش کرنا مردوں ہی کو نہیں، مُردوں کو بھی زیب نہیں دیتا

پریم پتر اور گوتم بدھ کے دانت

شہر میں یہ بھی مشہور ہے کہ بکس میں اس پنجابی شرنارتھی لڑکی کے خطوط اور فوٹو ہیں جسے وہ ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ واللہ اعلم۔ یہ قبل از بدھ ازم کی بات ہے۔ میں تو اس زمانے میں کراچی آ چکا تھا۔ سب اس کی ٹوہ میں ہیں۔ مگر بکس میں پیتل کا سیر بھر کا تالا پڑا ہے جس کی چابی وہ اپنے کمربند میں باندھے پھرتے ہیں۔ خلقِ خدا کی زبان کس نے پکڑی ہے۔ کسی نے کہا، لڑکی نے بلیڈ سے کلائی کی رگ کاٹ کے آتم ہتیا (خود کشی) کی۔ کسی نے اس کی ایک ناگفتہ بہ وجہ بتائی۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ لڑکی کو ایک دوسرا ٹیوٹر بھی پڑھاتا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شمشان تک ارتھی سے جیتا جیتا خون ٹپکتا گیا۔ اسی رات اس کا باپ نیند کی تیس چالیس گولیاں کھا کر ایسا سویا کہ پھر صبح ارتھی ہی اٹھی۔ لیکن دیکھا جائے تو نہ لڑکی مری، نہ اس کا باپ۔ موت تو اس بیوہ اور چھ بچوں کی واقع ہوئی جو اس نے چھوڑے۔ تین چار دن بعد گلی کے موڑ پر کسی نے مُلا عاصی کے پیٹ میں چھُرا گھونپ دیا۔ آنتیں کٹ کر باہر نکل پڑیں۔ چار مہینے گمنامی کی موت اور بدنامی کی زندگی کی کشمکش میں اسپتال میں پڑے رہے۔ سنا ہے جس دن ڈسچارج ہوئے، اسی دن سے جوگ لے لیا مگر صاحب، جوگی تو وہ جنم جنم کے تھے۔ ایک مثل ہے کہ جوگی کا لڑکا کھیلے گا تو سانپ سے۔ سو یہ ناگن نہ بھی ہوتی تو کسی اور گزندے سے خود کو ڈسوا لیتے۔ ارے صاحب، جب کشتی غرقابی ٹھری تو، اور تو اور، خود خواجہ خضر پیندے میں سوراخ کر دیتے ہیں۔

اللہ جانے مذاق میں کہا یا سچ ہی ہو، انعام اللہ برملائی کہنے لگے کہ بلیک بکس میں مُلا عاصی کے چار ٹوٹے دانت محفوظ ہیں جو وہ اپنے عقیدت مندوں اور آئندہ جسلوں کے لیے بطور relic چھوڑ کر مرنا چاہتے ہیں۔ آخر مہاتما بدھ کے بھی تو کم از کم سو دانت مختلف مقدس مقامات پر زیارت کے لیے بھاری حفاظتی پہرے میں رکھے ہیں۔

کمرے میں صرف ایک چیز واقعی نئی دیکھی۔ رسالہ ” عرفان ” کا تازہ شمارہ۔ اللہ جانے کسی نے ڈاک سے بھیجا یا کوئی شرارتا چھوڑ گیا۔ جہاں تہاں سے پڑھا۔ صاحب، وضع داری اس رسالے پر ختم ہے۔ نصف صدی پہلے اور آج کے ” عرفان ” میں ذرا جو فرق آیا ہو۔ وہی ترتیب، وہی چھپائی اور گیٹ اپ جو پچاس برس پہلے تھا، الحمد للہ آج بھی ہے۔ مجھے تو چھاپا خانہ اور کاتب بھی وہی معلوم ہوتا ہے۔ موضوعات اور مسائل بھی بعینہ وہی ہیں جو سرسید اور شبلی کے زمانے میں تھے۔ کاش یہ شمارہ ستر اسی سال قبل چھپا ہوتا تو بالکل ” اپ ٹو ڈیٹ ” معلوم ہوتا۔ مولانا شبلی نعمانی اور شمس العلما ڈپٹی نذیر احمد ایل ایل ڈی اسے دیکھ کر کیسے خوش ہوتے.

سانبھر کا سینگ

کمرے میں سانبھر کا سر ابھی تک وہیں ٹنگا ہوا ہے۔ اس بیت الحزن میں صرف یہی Life۔Like دکھلائی دیتا ہے۔ لگتا ہے ابھی دیوار سے چھلانگ لگا کر جنگل کی راہ لے گا۔ اس کے نیچے ان کے دادا کی سیپیا رنگ کی بیضوی تصویر ہے۔ صاحب، اس زمانے میں سبھی کے داداؤں کا حلیہ ایک جیسا ہوتا تھا۔ بھرواں داڑھی، پگڑ باندھے، پھولدار اچکن پہنے، ایک ہاتھ میں پھول، دوسرے میں تلوار پکڑے کھڑے ہیں۔ 1857ء کے بعد ، بلکہ اس سے بہت پہلے، شرفا تلوار کو واکنگ اسٹک کے طور پر اور شعرا بطور استعارہ یعنی نا کردہ وصل کی حسرت کے الزام میں خود کو معشوق کے ہاتھوں قتل کروانے کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ برصغیر میں یہ انحطاط و طوائف الملوکی کو وہ دور تھا جب رجز خوانوں کے دف ڈفلی بن چکے تھے اور طبلِ جنگ کی جگہ طبلے نے لے لی تھی۔ قومی عظمت کے ثبوت میں لوگ صرف عالیشان کھنڈر پیش کرتے تھے۔

سانبھر ستر اسی سال کا تو ہو گا۔ دادا نے نیپال کی ترائی میں گرایا تھا۔ رفاہ عام بلکہ شفائے عام کے لیے ایک سینگ آدھا کاٹ کر رکھ لیا ہے۔ گھس کر لگانے سے دردِ گُردہ میں آرام آ جاتا ہے۔ دور دور سے لوگ مانگ کر لے جاتے ہیں۔ ایک بے ایمان مریض نے ایک انچ کاٹ کر لوٹایا۔ اس کے دونوں گُردوں میں درد رہتا تھا۔ مُلا عاصی اب سینگ کو اپنی ذاتی نگرانی میں کرنڈ کی سِلی پر گِھسواتے ہیں۔ ہندوستان میں ابھی تک یہ جاہلوں کے ٹوٹکے خوب چلتے ہیں۔ وہ اس کے لیپ کی تعریفیں کرنے لگے تو میں چٹکی لی ” مگر مُلا گردہ تو بہت اندر ہوتا ہے ” بولے ہاں تمھارے والد نے بھی پاکستان جانے سے پہلے تین چار دفعہ لیپ لگایا تھا۔ ایک سینگ کاٹ کر ہمراہ لے جانا چاہتے تھے۔ میں نے منع کر دیا۔ میں نے کہا، قبلہ، بارہ سنگھوں کے رمنے میں اس گھسے گھسائے سینگ سے کام نہیں چلنے کا..

نٹ راج اور مردار تیتر

مُلا عاصی نے ایک اور یادگار فوٹو دکھایا جس میں میاں تجمل حسین نٹ راج کا سا فاتحانہ پوز بنائے، یعنی نیل گائے کے سر پر اپنا پیر اور 12 بور کا کندہ رکھے، کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ اور میں گلے میں جست کی نمدہ چڑھی چھاگل اور دونوں ہاتھوں میں ایک ایک میلرڈ (نیل سر) مرغابی اور اپنا منھ لٹکائے کھڑا ہوں۔ میاں تجمل کا دعوا تھا کہ تھوتھنی سے دُم کی نوک تک نیل گائے کی لمبائی وہی ہے جو بڑے سے بڑے آدم خور بنگال ٹائیگر کی ہوتی ہے۔ نیل گائے کا شکار ایک مدت تک انڈیا میں ممنوع رہا۔ اب کھُل گیا ہے۔ جب سے وہ فصلیں کی فصلیں صاف کرنے لگیں، نیل گایوں کو گھوڑا کہہ کر مارنے کی اجازت مل گئی ہے۔ جیسے انگلینڈ میں اب کالوں اور سانولوں کو بلیک نہیں کہتے ethnic کہہ کر ٹھکانے لگاتے ہیں۔

یہ فوٹو چوہدری گلزار محمد فوٹو گرافر نے منٹ کیمرے سے میاں تجمل حسین کے گھر کے احاطے میں کھینچا تھا۔ فوٹو کھنچوانے کے لیے اتنی دیر سانس روکنا پڑتا تھا کہ صورت کچھ سے کچھ ہو جاتی تھی۔ چنانچہ صرف مُردہ گائے کا فوٹو اصل کے مطابق تھا۔ گلزار محمد اکثر شکار میں ساتھ لگ لیتا تھا۔ شکار سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ میرا مطلب شکار کرنے سے ہے، کھانے سے نہیں۔ بس میاں تجمل حسین ہمہ وقت اپنی اردلی میں رکھتے تھے۔ خدانخواستہ وہ دوزخ میں بھیجے گئے تو مجھے یقین ہے تنہا ہرگز نہیں جائیں گے۔ پیشوائی PR کے لیے پہلے مجھے روانہ کر دیں گے۔ شہر سے سات آٹھ میل پر شکار ہی شکار تھا۔ عموماً تانگے میں جاتے تھے۔ گھوڑا اپنی ہی ہم وزن، ہم شکل اور ہم رنگ نیل گائے ڈھو کر لاتا تھا۔ شکار کے تمام فرائض و انتظامات اس ناچیز کے ذمے تھے۔ سوائے بندوق چلانے کے۔ مثلاً نہ صرف ٹھسا ٹھس پھرا ہوا ٹفن کیریئر اٹھائے اٹھائے پھرنا، بلکہ اپنے گھر سے صبح چار بجے تازہ ترتراتے پراٹھے اور کباب بنوا کر اس میں ٹھسا ٹھس بھر کر لانا اور سب کو ٹھسانا۔ دسمبر کر کڑکڑاتے جاڑے میں تالاب میں اتر کی چھرا کھائی ہوئی مرغابی کا تعاقب کرنا، ہرن پر نشانہ خطا ہو جائے، جو کہ اکثر و بیشتر ہوتا رہتا تھا، تو میاں تجمل حسین کو قسمیں کھا کھا کے یقین دلانا کہ گولی برابر لگی ہے۔ ہرن بری طرح لنگڑاتا ہوا گیا ہے۔ زخم ذرا ٹھنڈا ہو گا تو بے حیا وہیں پچھاڑ کھا کے ڈھیر ہو جائے گا۔ تیتر ذبح ہونے سے پہلے دم توڑ دے تو اس کے گلے پر کسی حلال شدہ تیتر کا خون لگانا بھی میرے گناہ منصبی میں داخل تھا۔ اس لیے کہ شکار اگر چھری پھیرنے سے پہلے مردار ہو جائے تو وہ مجھے ہفتوں برا بھلا کہتے تھے۔ لٰہذا چھرا یا گولی لگنے کے بعد میں زخمی جانور کی درازی عمر کی دعا مانگتا تھا تا کہ اسے زندہ حالت میں حلال کر سکوں۔ مردار تیتر اور مرغابیاں وہ سر آرتھرانس کپ کے بنگلے پر بھجوا دیتے تھے۔ بھجوا کیا دیتے تھے، یوں کہیے مجھی کو سائیکل پر لاع کے لے جانا پڑتا تھا۔ پیچھے کیریئر پر وہ خود شکار کو اپنی گود میں لے کر بیٹھتے تاکہ سائیکل پر بوجھ نہ پڑے۔ ان کا اپنا وزن (نہار منھ) 230 پونڈ تھا۔ اس کے باوجود میں بہت تیز سائیکل چلاتا تھا۔ ورنہ شکار کی بُو پر لپکتے کتے فورا آ لیتے۔ میاں تجمل کہتے تھے کہ بندوق میری، کارتوس میرے، نشانہ میرا، شکار میرا، چھری میری، سائیکل میری، حد یہ کہ سائیکل میں ہوا بھی میں نے ہی بھری۔ اب اگر اسے چلاؤں بھی میں ہی تو آپ کیا کریں گے ؟

وفا بھی حُسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے؟

ملاحظہ فرمایا آپ نے۔ بس کیا عرض کروں، اس یاری میں کیسی کیسی خواری ہوئی ہے۔ یہ تو کیسے کہوں کہ میاں تجمل حسین نے ساری عمر میرے کندھے پر رکھ کے بندوق چلائی ہے۔ ارے صاحب، کندھا خالی ہی کہاں تھا کہ بندوق رکھتے۔ کندھے پر تو وہ خود مع بندوق کے سوار رہتے تھے۔ بخدا ساری عمر ان کے غمزے ہی نہیں literally (لفظاً) خود انہیں بھی اُٹھایا ہے۔

جاری ہے


  1. قصہ دو شہر – 1

  2. قصہ دو شہر – 2

  3. قصہ شہر دو – 3

  4. شہر دو قصہ – 4

  5. قصہ دو شہر – 5

  6. قصہ دو شہر – 6

  7. قصہ دو شہر – 7


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close