اونٹ کی مستی کی سزا بھی مجھی کو ملی
یہ تو غالباً پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ بڑے حاجی صاحب یعنی تجمل کے والد، تانگا اور موٹر کار رکھنے کو تکبر اور کاہلی کی علامت سمجھتے تھے۔ سائیکل اور اونٹ کی سواری پر البتہ تعرض نہ کرتے۔ اس لیے کہ ان کا شمار وہ آلات نفس کشی میں کرتے تھے۔ اکثر فرماتے کہ ” میں پچیس سال کا ہو گیا، اس وقت تک میں نے ہیجڑوں کے ناچ کے سوا کوئی ناچ نہیں دیکھا تھا۔ وہ بھی تجمل (یعنی اپنے بیٹے ) کی پیدائش پر۔ چھبیسویں سال میں لائل پور میں چوری چھپے ایک شادی میں مجرا دیکھ لیا تو والد صاحب نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ عاق کرنے کی دھمکی دی۔ حالانکہ ورثے میں مجھے سوائے ان کے قرضوں کے اور کچھ ملنے والا نہیں تھا۔ کہنے لگے کہ لونڈا بدچلن ہو گیا۔ چنیوٹ برادری میں، میں پہلا باپ ہوں جس کی ناک فرزند کے ہاتھوں کٹی۔ چنانچہ بطور سزا اور سرزش مجھے ادھار کپاس خریدنے چنیوٹ سے جھنگ ایک مستی پر آئے ہوئے اونٹ پر بھیجا، جس کے ماتھے سے بودار مد رِس رہا تھا۔ چلتا کم، بلبلاتا زیادہ تھا۔ ڈوبتے سورج کی روشنی میں جھنگ کے درختوں کے جھُنڈ اور جوہ (پنجابی۔ گاؤں کی سرحد) نظر آنے لگی تو وہ یکایک بدک گیا۔ اسے ایک اونٹنی نظر آ گئی۔ اس کے تعاقب میں جھنگ پار کر کے مجھے اپنے کوہان پر ہاتھ ہاتھ بھر اُچھالتا پانچ میل آگے نکل گیا۔ مجھے تو ایک میل بعد ہی اونٹنی نظر آنی بند ہو گئی۔ اس لیے کہ میں اونٹ نہیں تھا۔ لیکن وہ مادہ کی بُو پہ لپکا جا رہا تھا۔ میں ایک مست بھونچال پہ سوار تھا۔ بالآخر اونٹ انتہائی جوش کے علام میں ایک دلدل میں مجھ سمیت گھس گیا۔ اور تیزی سے دھنسنے لگا۔ میں نہ اوپر بیٹھا رہ سکتا تھا، نہ نیچے کود سکتا تھا۔ گاؤں والے رسے، نسینی (سیڑھی) اور قبر کھودنے والے کو ساتھ لے کر آئے تو جان بچی۔ کجاوہ گز بھر چوڑا تھا۔ ایک ہفتے تک میری ٹانگیں ایک دکھتی غلیل کی طرح چری کی چری رہ گئیں۔ اس طرح چلنے لگا جیسے خطرناک قیدی ڈنڈا بیڑی پہن کر چلتے ہیں۔ یا لڑکے ختنوں کے بعد۔ مہتر سے کہہ کر قدمچے ایک ایک گز کے فاصلے پر رکھوائے۔ اونٹ کی مستی کی سزا تھی مجھی کو ملی۔ ”
قبلہ کا ہی خیال تھا کہ بیٹے کی چال دیکھ کر اونٹ نے بھی عبرت پکڑی ہوگی۔
علی گڑھ کٹ پاجامہ اور ارہر کی دال
حاجی صاحب قبلہ نے کانپور میں ایک ہندو سیٹھ کے ہاں 1907ء میں چار روپے ماہوار کی نوکری سے ابتدا کی۔ انتہائی دیانت دار، دبنگ، قدآور اور ڈیل ڈول کے مضبوط تھے۔ سیٹھ نے سوچا ہو گا اُگاہی میں آسانی رہے گی۔ دوسری جنگ کے بعد حاجی صاحب کروڑ پتی ہو گئے۔ مگر وضع داری میں ذرا جو فرق آیا ہو۔ مطلب یہ کہ ان کی خودآزاری تک پہنچی ہوئی جُزرسی، وضع قطع، انکسار اور اندازِ گفتگو سے یہی لگتا تھا کہ اب بھی چار روپے ہی ملتے ہیں۔ گاڑھی ململ کا کُرتہ اور ٹُخنے سے اونچی چوخانے کی لنگی باندھتے۔ شلوار صرف کسی فوجداری مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت میں جانے اور جنازے میں شرکت کے موقعے پر پہنتے تھے۔ گاگلز لگانے اور پتلون اور چوڑی دار پاجامہ پہننے والے کو کبھی اُدھار مال نہیں دیتے تھے۔ کچھ نہیں تو چالیس پنتالیس برس تو یوپی میں ضرور رہے ہوں گے، مگر لگی ہوئی فیرنی، نہاری اور ارہر کی دال دوبارہ نہیں کھائی۔ نہ کبھی دوپلّی ٹوپی اور پاجامہ پہنا۔ البتہ 1938ء میں آپریشن ہوا تو نرسوں نے حالتِ بے ہوشی میں پاجامہ پہنا دیا تھا جو انہوں نے ہوش میں آتے ہی اتار پھینکا۔ بقول شاعر
بے ہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا
اکثر فرماتے کہ اگر چمٹے کو کسی شرعی تقاضے کے تحت یا پھکنی کے پھُسلاوے سے کچھ پہننا پڑے تو اس کے لیے علی گڑھ کٹ پاجامے سے زیادہ موزوں کوئی پہناوا نہیں۔ پنجابی میں یہ فقرہ بڑا مزہ دیتا تھا۔ ہم سب فرمائش کر کے سنتے۔
نیل گائے اور پری چہرہ نسیم
میں نے مُلا عاصی کو چھیڑا ”اب بھی شکار پر جاتے ہو؟“ کہنے لگے ”اب نہ فرصت، نہ شوق، نہ گوارا۔ ہرن اب صرف چڑیا گھر میں نظر آتے ہیں۔ میں تو اب مرغابی کے پروں کا تکیہ تک استعمال نہیں کرتا۔“ پھر انہوں نے الگنی پر سے ایک لیر لیر بنیان اتارا۔ اسے سونگھا اور اس سے لکڑی کے ایک فریم کو کچھ دیر رگڑا تو ثانی الذکر کے نیچے سے ایک شیشہ اور شیشے کے نیچے سے فوٹو برآمد ہوا۔ یہ فوٹو چودھری گلزار محمد نے جنگل میں شکار کے دوران کھینچا تھا۔ اس میں یہ عاجز اور ایک چمار کالے ہرن کو ڈنڈا ڈولی کر کے تانگے تک لے جا رہے ہیں۔ غنیمت ہے اس میں وہ چیل کوے نظر نہیں آ رہے ہیں جو ہم تینوں کے سروں پر منڈلا رہے تھے۔ کیا بتاؤں صاحب، ہمارے یار نے ہم سے کیا کیا بیگار لی ہے۔ مگر سب گوارا تھا۔ فرشتوں کو کنویں جھنکوا دیے اس عشق ظالم نے۔ بڑا خوبصورت اور کڑیل ہرن تھا وہ۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں بہت اداس تھیں۔ مجھے یاد ہے۔ اسے ذبح کرتے وقت میں نے منھ پھیر لیا تھا۔ اچھے شکاری عام طور پر کالا نہیں مارتے۔ ساری ڈار بے آسرا، بے سری ہو جاتی ہے۔ آپ نے وہ کہاوت سُنی ہو گی۔ کالا ہرن مت ماریو ستر ہو جائیں گی رانڈ۔ چودھری گلزار محمد پنڈی بھٹیاں کا رہنے والا، پندرہ بیس سال سے کانپور میں آباد و ناشاد تھا۔ اپنے اسٹوڈیو میں تاج محل اور قطب مینار کے فوٹو بھی (جو اس نے خود کھینچے تھے ) بیچتا تھا۔ اپنے مکان کی دیواروں کو پنڈی بھٹیاں کے مناظر سے سجا رکھا تھا۔ اس میں اس کا پھوس کے چھپر والا گھر بھی شامل تھا جس پر ترئی کی بیل چڑھی تھی۔ دروازے کے سامنے ایک جھلنگے پر نورانی صورت ایک بزرگ حقہ پی رہے تھے۔ قریب ہی ایک کھونٹے سے غبارہ تھنوں والی بکری بندھی تھی۔ ہر منظر مثل لیلیٰ کے تھا۔ جسے صرف مجنوں کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے۔ وہ دیگچی کو دیچگی اور تمغہ کو تغمہ[1] کہتا تو ہم سب اس پر ہنستے تھے۔ لحیم شحیم آدمی تھا۔ بڑی سے بڑی ہڈی توڑنے کے لیے بغدا صرف ایک دفعہ مارتا تھا۔ چار من وزنی نیل گائے کی کھال آدھ گھنٹے میں اتار، تکا بوٹی کر کے رکھ دیتا۔ کباب لاجواب بناتا تھا۔ ہر وقت بمبئی کے خواب دیکھتا رہتا۔ کھال اتارتے وقت اکثر کہتا کہ کانپور میں نیل گائے کے سوا اور کیا دھرا ہے ؟ دیکھ لینا ایک نہ ایک دن منروا مووی ٹون میں کیمرا مین بنوں گا۔ اور مادھوری اور مہتاب کے کلوز اب لے کے تمہیں بھیجوں گا۔ پھر خود ہی نرت کر کے سیکسی پوز بناتا اور خود ہی کالے کپڑے کی بجائے اپنے سر پر خون آلود جھاڑن ڈال کر فرضی کیمرے سے خود کو کلوز اپ لیتا ہوا imagine کرتا۔ ایک دفعہ اسی طرح پری چہرہ نسیم کا کلوز اپ لیتے لیتے اس کی چھری بہت کر نیل گائے کی کھال میں گھس گئی۔ میاں تجمل چیخے کہ ” پری چہرہ گئی بھاڑ میں۔ یہ تیسرا چرکہ ہے۔ تیرا دھیان کدھر ہے ؟ کھال داغدار ہوئی جا رہی ہے۔ ” کانپور میں ایک لاجواب taxidermist تھا۔ شیر کا سر البتہ بنگلور بھیجنا پڑتا تھا۔ رئیسوں کر فرش پر شیر کی اور مڈل کلاس گھرانوں میں ہرن کی کھال بچھی ہوتی تھی۔ غریبوں کے گھروں میں عورتیں گوبر کی لپائی کے کچے فرش پر پکے رنگوں سے قالین کے سے ڈیزائن بنا لیتی تھیں۔
قصہ ایک مرگ چھالے کا
مُلا عاصی کے کمرے میں دری پر ابھی تک نثار احمد خان کی ماری ہوئی ہرنی کی کھال بچھی ہے۔ خاں صاحب کے چہرے، مزاج اور لہجے میں خشونت تھی۔ وہابی مشہور تھے۔ واللہ اعلم۔ شکار کے دھنی، مجھ پر بہت مہربان تھے۔ میاں تجمل کہتے تھے کہ وجہ پسندیدگی تمہارا منڈا ہوا سر اور ٹخنے سے اونچا پاجامہ ہے۔ گراب جہاں لگا تھا، اس کا سوراخ کھال پر جوں کا توں موجود ہے۔ اس کے پیٹ سے پورے دنوں کا بچہ نکلا۔ کسی نے گوشت نہیں کھایا۔ خود نثار احمد دو راتیں نہیں سوئے۔ اتنا اثر تو ان کے قلب پر اس وقت بھی نہیں ہوا تھا جب تیتر کے شکار میں ان کے فیر کے چھروں سے جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے ایک کسان کی دونوں آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ دو سو روپے میں معاملہ رفع دفع ہوا۔ ہرنی والے واقعے کے تین مہینے کے اندر اندر ان کا اکلوتا جوان بیٹا جو بی اے میں پڑھ رہا تھا، زخمی مرغابی کو پکڑنے کی کوشش میں تالاب میں ڈوب کر مر گیا۔ کہنے والوں نے کہا، گیابھن، گربھ وتی کا سراب لگ گیا۔ جنازہ دالان میں لا کے رکھا تو زنانے میں کہرام مچ گیا۔ پھر ایک بھنچی بھنچی سے چیخ کہ سننے والوں کی چھاتی پھٹ جائے۔ نثار احمد خان نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ” بیوی، صبر، صبر، صبر۔ اونچی آواز سے رونے سے اللہ کے رسول نے منع کیا ہے۔ ” وہ بی بی خاموش ہو گئی۔ پھر کھڑکی کے جنگلے سے سر ٹکرا ٹکرا کے لہو لہان کر لیا۔ مانگ خون سے بھر گئی۔ میت لحد میں اتارنے کے بعد جب لوگ قبر پر مٹی ڈال رہے تھے تو باپ دونوں سے اپنے سفید سر پر مٹھی بھر بھر کے خاک ڈالنے لگا۔ لوگوں نے بڑھ کر ہاتھ پکڑے۔ مشکل سے چھ مہینے گزرے ہوں گے کہ بیوی کو صبر کی تلقین کرنے والا تھی کفن اوڑھ کے خاک میں جا سویا۔ وصیت کے مطابق قبر بیٹے کے پہلو میں بنائی گئی۔ ان کی پائینتی بیوی کی قبر ہے۔ فاتحہ پڑھنے قبرستان گیا۔ بڑی مشکل سے قبر ملی۔ شہر تو پھر بھی پہچانا جاتا ہے۔ قبرستان تو بالکل ہی بدل گیا ہے۔ پہلے ہر قبر کو سارا شہر پہچانتا تھا کہ ہر ایک کا مرنے والے سے جنم جنم کا ناتا تھا۔ صاحب، قبرستان بھی جائے عبرت ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو ہر قبر کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جس اس میں میت اُتری ہو گی، کیسا کہرام مچا ہو گا۔ رونے والے کیسے بلک بلک کے تڑپ کے روئے ہوں گے۔ پھر خود یہی رونے والے دوسروں کو رلا کے یہیں باری باری پیوندِ خاک ہوتے چلے گئے۔ صاحب، جب یہی کچھ ہونا ہے تو پھر کیسا سوگ، کس کا ماتم، کاہے کا رونا۔
ماسٹر فاخر حسین کی قبر پر بھی فاتحہ پڑھی۔ کچھ نہ پوچھیے، دل کو کیسی کیسی باتیں یاد آ کے رہ گئیں۔ لوحِ مزار گِر گئی ہے۔ اس پر وہی شعر کندہ ہے جو وہ اکثر پڑھا کرتے تھے۔ حروف کی سیاہی کو تیس پینتیس برس کی بارشیں بہا کے لے گئیں۔
بعد از وفات تُربتِ مادر زمیں مجو
در سینہ ہائے مردم عارف مزار ماست [1]
تحت اللفظ، شرمائے شرمائے ترنم اور کھرج کی آمیزش بلکہ آویزش سے شعر پڑھنے کی ایک مخصوس طرزِ فاخری ایجاد کی تھی جو انہیں پر ختم ہو گئی۔ پڑھنے سے پہلے شیروانی کا تیسرا بٹن کھول دیتے۔ پرھ چکتے تو بغیر پھُندنے والی تُرکی ٹوپی اتار کر میز پر رکھ دیتے۔ ہر شعر ایک ہی لے اور ایک ہی بحر میں پڑھنے کے سبب درمیان میں جو جھٹکے اور سکتے پڑتے۔ انہیں واہ، ارے ہاں، حضور، یا فقط با وزن کھانسی سے دور کر دیتے۔ مندرجہ بالا شعر میں سینہ ہائے عارف ادا کرتے تو انگشتِ شہادت سے تین چار دفعہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے۔ البتہ مزار ماست پڑھتے وقت ہم نالائق شاگردوں کی طرف دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنی قبر کی نشان دہی کرتے۔
دیکھیے، یادوں کی بھول بھلیوں میں کہاں آ نکلا۔ جبھی تو بچارے ساحر نے کہا تھا، یا ممکن ہے کسی اور نے کہا ہو :
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
بات دراصل مرگ چھالے سے نکلی۔ ایک دفعہ میں نے لاپروائی سے ہولڈر جھٹک دیا تھا۔ روشنائی کے چھینٹے ابھی تک کھال پر موجود ہیں۔ میں نے دیکھا کہ عاصی کھال پر پاؤں نہیں رکھتے۔ سارے کمرے میں یہی سب سے قیمتی چیز ہے۔ قیاس کن زگلستانِ من۔ دیکھیے زبان پر پھر وہی کم بخت ” الخ ” آتے آتے رہ گیا۔ آپ نے بھی تو کسی بزنس ایگزیکٹیو کا ذکر کیا تھا جن کے اٹالین ماربل فلور پر ہر سائز کے نایاب ایرانی قالین بچھے ہیں۔ کمرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا ہو تو وہ ان پر قدم نہیں رکھتے۔ ان سے بچ بچ کے ننگی راہداریوں پر اس طرح قدم رکھتے زگ زیگ جاتے ہیں جیسے وہ خود اسنیکس اینڈ لیڈرس کی گوٹ ہوں۔ ارے صاحب، میں بھی ایک بزنس مین کو جانتا ہوں۔ ان کے گھر میں قالینوں کے لیے فرش پر جگہ نہ رہی تو دیواروں پر لٹکا دیے۔ قالین ہٹا ہٹا کر مجھے دکھاتے رہے کہ ان کے نیچے قیمتی رنگین ماربل ہے۔
وہ منحوس بندوق نثار احمد خان نے مُلا عاصی کو بخش دی کہ وہ ان کے بیٹے کے جگری دوست تھے۔ ہنگاموں میں پولیس نے سارے محلے کے ہتھیار تھانے میں جمع کروائے تو یہ بندوق بھی مال خانے پہنچ گئی۔ پھر اس کی شکل دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ فقط مہر شدہ رسید ہاتھ میں رہ گئی۔ پیروی تو بہت کی۔ ایک وکیل بھی کیا۔ مگر تھانے دار نے کہلا بھیجا کہ ” ڈی آئی جی کو پسند آ گئی ہے۔ ” زیادہ غوغا کرو گے تو بندوق تو مل جائے گی مگر پولیس تمہارے گھر سے شراب کشید کرنے کی بھٹی برآمد کروائے گی۔ تمہارے ساتھ رہنے والے سارے رشتے دار پاکستان جا چکے ہیں۔ تمہارا مکان بھی Evacuaee Property (متروکہ املاک) قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوچ لو۔ ” چنانچہ انہوں نے سوچا اور چپ ہو رہے۔ اللہ، اللہ، ایک زمانہ تھا کہ شہرِ کوتوال ان کے باوا سے ملنے تیسرے چوتھے آتا تھا۔ پرڈی کی بڑی نایاب بندوق تھی۔ آج کل چھ لاکھ قیمت بتائی جاتی ہے۔ مگر صاحب، مجھ سے پوچھیے تو چھ لاکھ کی بندوق سے آدم خور شیر یا مردم آزار بادشاہ۔ یا خود۔ سے کچھ کم مارنا اتنی قیمتی بندوق کی توہین ہے۔ مُلا عاصی ابھی تک ہر ایک کو ضبط شدہ بندوق کی مہر شدہ رسید اور لائسنس دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آدھ میل دور سے اس کا گراب اچٹتا ہوا بھی لگ جائے تو کالا (ہرن) پانی نہ مانگے۔
خلاف وضع فطری موت
پرانے دوست جب مدتوں بعد ملتے ہیں تو کبھی کبھی باتوں میں اچانک ایک تکلیف دو وقفہ سکوت آ جاتا ہے۔ کہنے کو اتنا کچھ ہوتا ہے کہ کچھ بھی تو نہیں کہا جاتا۔ ہزار باتیں ہجوم کر آتی ہیں۔ اور کہنی مار مار کے کندھے پکڑ پکڑ کے، ایک دوسرے کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ پہلے میں، پہلے میں، تو صاحب، میں ایک ایسے ہی وقفے میں ان کی مفلوک الحالی اور عُسرت پر دل ہی دل میں ترس کھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر وہ ہمارے ساتھ پاکستان آ گئے ہوتے تو سارے دلدر دور ہو جاتے۔ انہوں نے یکبارگی سکوت توڑا۔ کہنے لگے، تم واپس کیوں نہیں آ جاتے ؟ تمھارے ہارٹ اٹیک کی جس دن خبر آئی تو یہاں صفِ ماتم بچھ گئی۔ تمہیں یہ راج روگ، یہ رئیسوں کی بیماری کیسے لگی۔ سنا ہے میڈیکل سائنس کو ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوئی۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن ایسی خوردبین ضرور ایجاد ہو گی جو اس مرض کے جراثیم کرنسی نوٹوں میں ٹریس کر لے گی۔ بندہ خدا، تم پاکستان کاہے کو چلے گئے ؟ یہاں کس چیز کی کمی ہے دیکھو، وہاں تمہیں ہارٹ اٹیک ہوا۔ میاں تجمل حسین کو ہوا۔ منیر احمد کا ” بائی پاس ” ہوا۔ ظہیر صدیقی کے ” پیس میکر ” لگا۔ منظور عالم کے دل میں سوراخ نکلا۔ مگر مجھے یقین ہے یہ پاکستان میں ہی ہوا ہو گا۔ یہاں سے تو صحیح سالم گئے تھے۔ خالد علی لندن میں انجیو گرافی کے دوران میز پر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میت می ممی ساگوان کے شاندار بکس میں کراچی فلائی کی گئی۔ اور تو اور دبلے سوکھے چھوہارا، بھیا احتشام بھی لاہوط میں ہارٹ اٹیک میں گئے۔ سبطین اور انسپکٹر ملک غلام رسول لنگڑیال کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ مولانا ماہر القادری کو ہوا۔ یون کہو، کس کو نہیں ہوا۔ بھائی میرے، یہاں ذہنی سکون ہے۔ قناعت ہے۔ توکل ہے۔ یہاں کسی کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا۔ اہلِ ہنود میں البتہ cases ہوتے رہتے ہیں۔
گویا سارا زور کس پر ہوا؟ اس پر کہ کانپور میں ہر شخص اپنی طبعی موت مرتا ہے۔ ہارٹ اٹیک سے بے موت نہیں مرتا۔ ارے صاحب، میرے ہارٹ اٹیک کو تو انہوں نے گویا کھونٹی بنا لیا جس پر جان پہچان کے گڑے مُردے اُکھاڑ اُکھاڑ کر ٹانگتے چلے گئے۔ مجھے تو سب نام یاد بھی نہیں رہے۔ دوسرے ہارٹ اٹیک کے بعد میں نے دوسروں کی رائے سے اختلاف کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب اپنی رائے کو ہمیشہ غلط سمجھتا ہوں۔ سب خوش رہتے ہیں۔ لٰہذا چپکا بیٹھا سنتا رہا۔ اور وہ ان خوش نصیب مرحومین کے نام گنواتے رہے جو ہارٹ اٹیک میں نہیں مرے، کسی اور مرض میں مرے۔ ” اپنے مولوی محتشم ٹی بی میں مرے، حمید اللہ سینئر کلرک نبیرہ خان بہادر عظمت اللہ خان کا گلے کے کینسر میں انتقال ہوا۔ شہناز کے میاں عابد حسین وکیل ہندو مسلم فساد میں شہید ہوئے۔ قائم گنج والے عبدالوہاب خاں پورے پچیس دن ٹائیفائڈ میں مبتلا رہے۔ حکیم کی کوئی دوا کارگر نہ ہوئی۔ بقائمی ہوش و حواس و حافظہ جاں بحق تسلیم ہوئے۔ مرنے سے دو منٹ پہلے حکیم کا پورا نام لے کر گالی دی۔ منشی فیض محمد ہیضے میں ایک دن میں چٹ پٹ ہو گئے۔ حافظ فخرالدین فالج میں گئے۔ مگر الحمد للہ، ہارٹ اٹیک کسی کو نہیں ہوا۔ کوئی بھی خلافِ وضع فطری موت نہیں مرا۔ پاکستان میں میری جان پہچان کا کوئی متمول شخص ایسا نہیں جس کے دل کا بائی پاس نہ ہوا ہو۔ چند ے یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب خوش حال گھرانوں میں ختنے اور بائی پاس ایک ساتھ ہوا کریں گے۔
پھر وہ آواگون اور نروان کے فلسفے پر لیکچر دینے لگے۔ بیچ لیکچر کے انہیں اچانک ایک اور مثال یاد آ گئی۔ اپنا ہی قطع کلام کرتے ہوئے اور بھگوان بدھ کو بودھی پیڑ کے نیچے اکیلا اونگھتا چھوڑ کر کہنے لگے ” حد یہ کہ خواجہ فہیم الدین کا ہارٹ فیل نہیں ہوا۔ بیوی کے مرنے کے بعد دونوں بیٹیاں ہی سب کچھ تھیں۔ انہی میں مگن تھے۔ ایک دن اچانک پیشاب بند ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا پروسٹیٹ بڑھ گیا ہے۔ فوراُ ایمرجنسی میں آپریشن کروانا پڑا جو بگڑ گیا۔ مگر تین چار مہینے میں لوٹ پوٹ کے ٹھیک ہو گئے۔ لیکن بڑی بیٹی نے ناگہاں ایک ہندو وکیل اور چھوٹی نے سکھ ٹھیکے دار سے شادی کر لی تو جانو کمر ٹوٹ گئی۔ پرانی چال، پرانے خیال کے آدمی ہیں۔ اٹواٹی کھٹواٹی لے کے پڑ گئے۔ اور اس وقت تک پڑے رہے جب تک اس کرسچین نرس سے شادی نہ کر لی جس نے پروسٹیٹ کے آپریشن کے دوران ان کا گومُوت کیا تھا۔ وہ حرافہ تو گویا اشارے کی منتظر بیٹھی تھی۔ بس انہیں کی طرف سے ہچر مچر تھی :
اے مردِ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے؟
باپ کے سہرے کے پھول کھلنے کی خبر سنی تو دونوں عاق شدہ بیٹیوں نے کہلا بھیجا کہ ہم ایسے باپ کا منھ دیکھیں تو بد جانور کا منھ دیکھیں۔ وہ چیختے ہی رہ گئے کہ بد بختو میں نے کم از کم یہ کام تو شرع شریف کے عین مطابق کیا ہے۔ میاں یہ سب کچھ ہوا۔ مگر ہارٹ اٹیک خواجہ فہیم الدین کو بھی نہیں ہوا۔ تمھارے ہارٹ اٹیک کی خبر سنی تو دیر تک افسوس کرتے رہے۔ کہنے لگے، یہاں کیوں نہیں آ جاتے ؟
صاحب، مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے کہا پروسٹیٹ بڑھ گیا تو میں بھی آ جاؤں گا۔
جاری ہے
-
قصہ دو شہر – 1
-
قصہ دو شہر – 2
-
قصہ شہر دو – 3
-
شہر دو قصہ – 4
-
قصہ دو شہر – 5
-
قصہ دو شہر – 6
-
قصہ دو شہر – 7
-
قصہ دو شہر – 8