آئل کمپنیوں کو تیل کی ٹیکس فری درآمدات سے بڑے پیمانے پر منافع

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – تقریباً پندرہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کا کہنا ہے کہ انہوں نے دو سالوں نے دوران چین سے دو ارب چالیس کروڑ لیٹر پیٹرول درآمد کیا، جس سے بیس ارب روپے کمائے گئے اور یہ چین ۔ پاکستان فری ٹریڈ معاہدے (سی پی ایف ٹی اے) کے تحت کے گئے خصوصی اقدامات کی وجہ سے ممکن ہوسکا

آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) کے ذریعے او ایم سیز نے وزارت توانائی (پیٹرولیم ڈویژن) کو بتایا کہ انہوں نے چین سے جنوری 2020ع سے جنوری 2022ع تک دو ارب چالیس کروڑ سولہ لاکھ لیٹر پیٹرول (موٹر گیسولین) درآمد کیا

انہوں نے کہا کہ انہیں سی پی ایف ٹی اے کے تحت دنیا بھر میں کی جانے والے تجارت کی طرح دس فیصد کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کرنی پڑی

14 جنوری کو پیٹرولیم ڈویژن نے تمام او ایم سیز کو ہدایت کی تھی کہ چین سے درآمد کیے جانے والے پیٹرول کے شواہد پر مبنی اعداد و شمار فراہم کریں

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ‘متعدد او ایم سیز چین سے موٹر اسپرٹ درآمد کر رہی ہیں’ اور سی پی ایف ٹی اے کے تحت انہیں گزشتہ دو سال یکم جنوری 2020 سے یکم جنوری 2022 تک پیٹرول درآمد کرنے کی مکمل تفصلات دس روز میں فراہم کرنی چاہیے

پیٹرولیم ڈویژن کی ہدایت کے جواب میں او ایم سیز نے سمندری جہازوں کے نام، لوڈ ہونے سے قبل درآمد تیل کی جگہ، لیٹر میں اس کی مقدار، ادا کردہ ڈیوٹی سمیت پورٹ پر اترنے تک تمام تر تفصیلات فراہم کیں

حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ او ایم سیز نے درآمد کے کسی قانون کی خلاف ورزی کیے بغیر بیش بہا منافع حاصل کیا ہے

تیل کی صنعت کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ‘چین سے درآمدات کے دوران آمدنی میں ہونے والے کسی بھی قسم کے نقصان اور کم یا ڈیوٹی فری درآمدات کے اثرات کو پاکستانی صارفین تک نہیں پہنچایا گیا‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب حکومت کی پالیسیوں/قوانین اور اس دوران کوئی بدعنوانی نہ کیے جانے کی وجہ سے ممکن ہوا

ملک کی پالیسی کے تحت پیٹرولیم مصنوعات پر دس فیصد ڈیوٹی عائد ہوتی ہے جبکہ ان مصنوعات کی مقامی پیداوار میں بھی مساوی دس فیصد ڈیوٹی لاگو کی جاتی ہے

تاہم سی پی ایف ٹی اے نے ہزاروں اشیا کی دوطرفہ تجارت میں ڈیوٹی سے چھوٹ فراہم کی ہے، ان اشیا میں پیٹرولیم مصنوعات بھی شامل ہیں جن میں کچھ کیسز میں اضافی کسٹم ڈیوٹی پر بھی 0.25 سے 0.5 فیصد چھوٹ دی گئی ہے

تاہم یہ بات تاحال واضح نہیں ہے کہ کیسے اور کیوں پیٹرولیم درآمدات کو سال 2019ع کے نظرثانی شدہ سی پی ایف ٹی اے کیا حصہ بنایا گیا جبکہ چین مجموعی تیل کا درآمد کنندہ ہے نہ ہی یہ مصنوعات سال 2006ع میں حقیقی ایف ٹی اے (فری ٹریڈ معاہدے) میں شامل تھیں، اس سے قبل اس معاہدے پر 2016ع میں بھی نظر ثانی کی گئی تھی

علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل حیرت ہے کہ اس طرح کی سہولیات ملائیشیا کے ایف ٹی اے کا حصہ نہیں ہیں، جو تیل پیدا اور برآمد کرنے والا اہم ملک ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close