”میدان جنگ سے کمرہ عدالت تک“ دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی مبینہ امریکی کمانڈر ایلیسن فلوک ایکرین عرف اُم محمد الامریکی کون ہیں؟

ویب ڈیسک

ورجینیا – ”ہمیں اپنی والدہ سے اب کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ ہم ان سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔“

جب بیالیس سالہ امریکی شہری ایلیسن فلوک ایکرین کو اُن کے بچوں کی جانب سے موصول ہونے والے اس جواب کی اطلاع دی گئی، تو انہوں نے انتہائی تحمل سے جواب دیتے ہوئے صرف اتنا کہا ”ٹھیک ہے۔“

ایلیسن فلوک ایکرین پر الزام ہے کہ صرف چند سال قبل وہ ’ام محمد الامریکی‘ کے نام سے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی کمانڈ کر رہی تھیں اور امریکی زمین پر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں

اب ایلیسن عرف امِ محمد، امریکی ایف بی آئی کی حراست میں ہیں اور ورجینیا میں مقدمے کا سامنا کر رہی ہیں، جس میں ممکنہ طور پر انہیں بیس سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے

ایک بلاگ کے مطابق سنہ 2008ع میں ایلیسن امریکی ریاست کنساس میں بطور استاد کام کر رہی تھیں

امریکی حکام کا الزام ہے کہ سنہ 2011ع میں ایلیسن لیبیا گئیں، جہاں سے سنہ 2012ع کے دوران وہ اپنے شوہر کے ہمراہ انسانی اسمگلرز کی مدد سے شام پہنچ گئیں

ایلیسن کے شوہر کے پر بھی یہ الزام ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے بعد سنائپر (ماہر نشانہ باز) بن گئے تھے اور بعد میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے

اپنے شوہر کی وفات کے بعد ایلیسن نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ایک بنگلہ دیشی رُکن سے شادی کر لی تھی، جو ڈرون حملوں کا ماہر مانا جاتا تھا۔ ان کے دوسرے شوہر بھی سنہ 2016ع یا سنہ 2017ع کے اوائل میں ہلاک ہو گئے تھے

ایلیسن نے تیسری بار شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ایک ایسے سینیئر کمانڈر سے شادی کی، جن کو شام میں اس تنظیم کے دارالحکومت رقہ کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی تھی

سنہ 2017ع میں ہی رقہ شہر پر داعش مخالف اتحاد نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو شکست دے کر قبضہ کر لیا تھا

امریکا کے محکمۂ انصاف کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایلیسن کو سنہ 2017ع میں شام میں گرفتار کیا گیا، جس کے بعد انہیں ایف بی آئی کے حوالے کر دیا گیا تھا

اس بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایلیسن کئی اور ناموں سے بھی جانی جاتی تھیں، جن میں ام محمد الامریکی، ام محمد اور ام جبرائیل شامل ہیں

امریکی حکام کے بقول ایلیسن نے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے لیے سنہ 2014ع سے ہی کام شروع کر دیا تھا اور وہ امریکا کے کالج کیمپس پر حملوں کی منصوبہ بندی بھی کرتی رہیں

امریکی حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ سنہ 2016ع میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے رقہ شہر کے ولی نے ’خطیبہ نصیبہ‘ کے نام سے خواتین کی بٹالین قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور ایلیسن جلد ہی اس کی سربراہ تعینات کر دی گئی تھیں۔ اس بٹالین کو اس بات پر فخر تھا کہ ان کی سربراہ ایک امریکی خاتون ہیں

امریکی حکام کے دعوے کے مطابق ایلیسن نے دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی سربراہ کی حیثیت سے خواتین اور بچوں کو کلاشنکوف چلانا سکھائی اور ساتھ ہی ساتھ انہیں ہینڈ گرینیڈ چلانے اور خودکش حملوں کی تربیت بھی دی

امریکی حکام کے بقول، ایسے عینی شاہدین موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ انیوں نے ایلیسن کو خود یہ کلاسز لیتے ہوئے دیکھا تھا

امریکی حکام کے مطابق، ایلیسن نے مبینہ طور پر ایک عینی شاہد، جو اس مقدمے کے گواہ ہیں، کو بتایا کہ وہ امریکا میں حملے کرنے کی خواہش رکھتی ہیں

امریکی حکام اسی نامعلوم گواہ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ایلیسن کا منصوبہ تھا کہ وہ بارود سے بھری گاڑی کسی شاپنگ مال کی زیر زمین پارکنگ میں کھڑا کریں گی اور فون کی مدد سے دھماکہ کر دیں گی

حکام کے مطابق ایلیسن کے نزدیک جب تک کسی بھی ایسے حملے میں بہت زیادہ افراد کی ہلاکت نہ ہو تب تک اس کی تیاری کے لیے وسائل کا استعمال وقت کا ضیاع ہوگا

حکام کے بقول، ایک گواہ نے بتایا کہ جب بھی ایلیسن کو بیرون ملک کسی دہشت گرد حملے کی اطلاع ملتی تو وہ کہتیں کہ ’کاش یہ حملہ امریکا میں ہوا ہوتا۔‘

اب ایلیسن کو امریکا میں ایک دہشت گرد تنظیم کی مدد کرنے پر مقدمے کا سامنا ہے، جس میں انہیں بیس سال تک کی سزا ہو سکتی ہے

گزشتہ دنوں استغاثہ کے وکلا نے ایلیسن کو آگاہ کیا کہ ان کے خاندان نے درخواست کی ہے کہ ایلیسن کو اُن سے (اہلخانہ) بات کرنے کی کوششوں سے روکا جائے

انہیں اہل خانہ کا یہ پیغام پہنچایا گیا کہ ”ہمیں اپنی والدہ سے اب کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ ہم ان سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔“

جب ایلیسن کو یہ اطلاع ملی تو انہوں نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اُن کے والدین اور دو بچے، جو کنساس ہی میں رہتے ہیں، نے کہہ دیا ہے کہ وہ ان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ فیڈیرل پراسیکیوٹر راج پاریخ سے یہ سننے کے بعد انہوں نے کہا ”ٹھیک ہے، میں سمجھ گئی۔“

سر پر کالا اسکارف اوڑھے ہوئے ایلیسن نے جواب دیا ”وہ خاندان کی خواہش کا احترام کریں گی اور ان سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کریں گی“

اس دن کی یہ واحد بُری خبر نہیں تھی۔ اُن کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر ان پر عائد الزامات ثابت ہو گئے تو انہیں بیس سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے

عدالت میں پیشی کے بعد سکیورٹی اہلکار ایلیسن کو اپنے ہمراہ لے گئے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close