اسلام آباد – آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرضے کے پروگرام میں سے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دیتے ہوئے کچھ نئی شرائط کا مطالبہ کیا ہے
عالمی ادارے کی جانب سے جہاں کچھ شرائط کا مطالبہ کیا گیا ہے، جنہیں اگلی قسط کے جاری ہونے سے پہلے پورا کرنا لازمی ہوگا، وہیں اس کی جانب سے اسٹیٹ بینک پر زور دیا گیا ہے کہ ”وہ ملک میں تعمیرات کے شعبے میں دیے جانے والے رعایتی قرضوں کی سکیموں کو ختم کر دے“
آئی ایم ایف نے رعایتی قرضوں کی ان اسکیموں کے خاتمے کو پاکستان کے مالیاتی نظام کے استحکام کے لیے ضروری قرار دیا ہے
آئی ایم ایف کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب موجودہ حکومت نے ملک میں اپنا مکان بنانے یا خریدنے کے لیے رعایتی قرضوں کی فراہمی کے منصوبے کا آغاز کیا ہے
واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں ایک کروڑ نوکریوں کے ساتھ پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ’نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ‘ کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت کم لاگت والے مکانوں کی تعمیر کے لیے مراعات کا اعلان کیا گیا اور اس کے ساتھ اسٹیٹ بینک کے ذریعے نجی بینکوں کو پابند کیا گیا کہ وہ نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں میں تعمیراتی شعبے کے لیے قرضوں کے حجم میں اضافہ کریں
پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق اس وقت ملک میں ایک کروڑ گھروں کی کمی کا سامنا ہے، جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اس منصوبے کے ذریعے بےگھر افراد کو مکان فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کے ساتھ تعمیراتی شعبے کو ترقی دینا چاہتی ہے
اس سلسلے میں جہاں بینکوں کی جانب سے براہ راست عوام کو تعمیراتی شعبے میں قرضے جاری کیے گئے، وہیں حکومت کے کم لاگت کے مکانوں کے منصوبے کے لیے بھی قرضے جاری ہو سکے
بینکوں کی جانب سے حکومتی کم لاگت کے مکانوں کی اسکیم کے لیے جو قرضے فراہم کیے جاتے ہیں، ان میں حکومتی کی جانب سے شرح سود کی مد میں صارفین کو سبسڈی فراہم کی جاتی ہے تاکہ صارفین کو قرضوں کی واپسی بلند شرح سود پر نہ کرنی پڑے
حکومت کے اعلان کے مطابق تعمیراتی شعبے کو رعایتی قرضے دینے اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کو نجی شعبے کے لیے قرضے میں پانچ فیصد دسمبر 2021 تک تعمیراتی شعبے میں رکھنے کے بعد اس شعبے کو دیے گئے قرضوں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں گذشتہ سال کے اختتام تک تعمیراتی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں کا حجم 355 ارب تک پہنچ گیا جو 2019 کے اختتام پر 150 ارب روپے تھا
دوسری جانب ’میرا پاکستان میرا گھر‘ اسکیم کے لیے بینکوں کی جانب سے دیے گئے قرضے کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 31 دسمبر 2021 تک اس اسکیم کے تحت 276 ارب روپے تک قرضوں کے لیے درخواستیں دی گئی تھیں، جن میں سے 177 ارب روپے کی منظوری دی گئی، تاہم سال کے اختتام تک صرف 38 ارب کے قرضے دیے گئے
اب پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرضے کے پروگرام کے سلسلے میں ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری کے ساتھ آئی ایم ایف کی جانب ایک اسٹاف رپورٹ بھی جاری کی گئی ہے، جس میں دوسرے امور کے ساتھ اسٹیٹ بینک سے کہا گیا ہے کہ وہ تعمیراتی شعبے میں اپنی رعایتی قرضوں کی سکیموں کو بند کرے
اس کے بارے میں آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اس سے مالیاتی استحکام کو خدشہ لاحق ہے اور ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام اس سلسلے میں زیادہ موثر ثابت ہو سکتا ہے
مالیاتی اور تعمیراتی شعبوں کے ماہرین نے آئی ایم ایف کی جانب سے رعایتی قرضے ختم پر زور دینے کو اس شعبے کے لیے منفی قرار دیا ہے۔ اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضے کی اسکیموں کے خاتمے کو آئی ایم ایف کی جانب سے فی الحال لازمی شرط قرار نہیں دیا گیا، تاہم انہوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ مستقبل میں یہ آئی آیم ایف کی لازمی شرائط کا حصہ بن سکتا ہے
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کے رعایتی قرضوں کے خاتمے کی تجویز یا شرط پر فی الحال کوئی موقف سامنے نہیں آیا تاہم وزارت خزانہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قرضوں پر سبسڈی دینے سے ملک کے مالیاتی نظام کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ یہ سبسڈی اسٹیٹ بینک کے بجائے حکومتِ پاکستان برداشت کر رہی ہے
وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے رعایتی قرضوں کو ختم کرنے کے بارے میں جو کہا گیا ہے، اس کی صحیح تشریح کرنے کی ضرورت ہے
انہوں نے کہا ’سب سے سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ان رعایتی قرضوں پر جو سبسڈی دی جا رہی ہے، وہ کمرشل بینک یا اسٹیٹ بینک نہیں دے رہے کہ جس سے مالیاتی نظام کو کوئی خطرہ درپیش ہو۔‘
مزمل اسلم کے مطابق ’ہاؤسنگ کے لیے رعایتی قرضوں پر سبسڈی حکومت پاکستان دے رہی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر قرض لینے والے ڈیفالٹ کر جاتے ہیں اور حکومت کو یہ قرضے واپس دینے پڑیں تو اس سے حکومت کا مالیاتی ڈسپلن خراب ہونے کا خدشہ نہیں، تو اس پر مزمل نے کہا کہ اول تو اس کا کوئی ایسا امکان نہیں اور ابھی تو ہاؤسنگ کے لیے رعایتی قرضوں کی اسکیم کا آغاز ہوا ہے، اس لیے ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے
وزارت خزانہ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضوں کو ختم کرنے پر جو اصرار کیا گیا ہے، وہ ان قرضوں کے خاتمے کی بات نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ادارہ چاہتا ہے کہ یہ اسٹیٹ بینک کے بجائے ایک الگ سے قائم ڈویلپنگ فنانشنل انسٹیوٹیشن (ایف ڈی آئی) کرے، جس کے لیے بین الاقوامی ادارے نے کہا کہ اس پر کام کیا جائے
آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو تعمیراتی شعبے کے لیے رعایتی قرضے ختم کرنے کے اصرار پر جب مزمل اسلم سے پوچھا گیا کیا یہ آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی شرط ہے، تو انہوں نے بتایا کہ یہ کوئی پیشگی شرط نہیں ہے کہ جسے پورا کرنا لازمی ہوتا ہے بلکہ یہ ایک تجویز ہے
مزمل اسلم تو آئی ایم ایف کی اس تجویز کو زیادہ وزن نہیں دے رہے، تاہم ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے چیئرمین محسن شیخانی کا کہنا ہے کہ تعمیراتی شعبے کو دیے جانے والے رعایتی قرضوں کو رول بیک کرنے کی تجویز پر عمل کیا گیا تو اس کے تعمیراتی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے
انہوں نے آئی ایم ایف کی جانب سے تعمیراتی شعبے کو رعایتی قرضے دینے سے مالیاتی نظام کو لاحق خدشات کے تاثر کو مسترد کیا اور کہا کہ پوری دنیا میں تعمیراتی شعبے کو رعایتی قرضے دیے جاتے ہیں، جس کا مقصد صرف تعمیراتی شعبے کے ذریعے کم لاگت کے مکان بنا کر دینا بے
ان کے مطابق تعمیراتی شعبے سے بلاواسطہ اور بلواسطہ چالیس سے پچاس صنعتیں اور شعبے منسلک ہوتے ہیں، جو اس شعبے میں ہونے والی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کسی بھی ملک کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتے ہیں
شیخانی نے آئی ایم ایف کے اس مشاہدے کو مسترد کیا کہ مرکزی بینک کی جانب سے رعایتی قرضوں کی اسکیم کی وجہ سے مالیاتی نظام کو کوئی خطرہ لاحق ہے، جس کی وجہ قرض لینے والوں کی جانب سے اس کی واپسی سے پر نادہندہ ہونا ہے
انہوں نے کہا اگر اس شعبے میں دیکھا جائے تو قرض ادائیگی کا تناسب نوے فیصد سے زائد ہے، جس کی ایک وجہ یہی ہے کہ قرض لینے والا قسطوں کی ادائیگی کے بعد ایک اثاثے کا مالک بن جاتا ہے
حکومت کے ”میرا پاکستان میرا گھر اسکیم“ اور عمومی طور پر تعمیراتی شعبے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ابھی تک یہ تجویز آئی ہے تاہم اگر اس سلسلے میں کوئی مزید پیش رفت ہوتی ہے تو کم لاگت کے مکانوں کی اسکیم اس سے شدید طور پر متاثر ہوگی
انھوں نے کہا تعمیراتی شعبے سے منسلک افراد جلد وزیر اعظم ملنے والے ہیں اور اس ملاقات میں لازمی طور پر آئی ایم ایف کی یہ تجویز زیر بحث آئے گی.