برطانیہ: الطاف حسین ‘دہشت گردی پر اکسانے’ کے کیس میں بری

ویب ڈیسک

لندن – برطانیہ کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کو دہشت گردی پر اکسانے کے الزامات کے تحت قائم دو مقدمات سے بری کر دیا

عدالت نے دو کے مقابلے میں دس کی اکثریت کے ساتھ فیصلہ تین روز کی بحث کے بعد سنایا

بینچ کو ابتدائی طور پر متفقہ فیصلہ کرنے میں ناکامی کے بعد اکثریتی فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور نو گھنٹوں کے بعد بینچ نے الطاف حسین کو الزامات سے بری کر دیا

واضح رہے کہ بانی ایم کیو ایم پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 2006 کے سیکشن ون (2) کے تحت دو علیحدہ الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی اور دونوں میں ’دہشت گردی کی حوصلہ افزائی‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا جسے الطاف حسین کی 22 اگست 2016 سے منسلک کیا گیا تھا اور کیس اسی پر انحصار کرتا تھا۔

الطاب حسین کو گرفتار بھی کیا گیا تھا اور 2019ع میں فرد جرم عائد کرنے سے قبل ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا، تین سال بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ نے کراچی میں مبینہ طور پر کشیدگی پھیلانے کے لیے برطانیہ میں بیٹھ کر تقریر کرنے کے حوالے سے تفتیش شروع کردی تھی

الطاف حسین کا مؤقف تھا کہ وہ دہشت گردی ایکٹ 2006 کی سیکشن ون (ٹو) کے تحت عائد فرد جرم کے مرتکب نہیں ہوئے

فرد جرم عائد کرتے ہوئے دو الزامات عائد کیے گئے اور دونوں الزامات دہشت گردی کے ایکٹ 2006 کی دفعہ ون (ٹو) کے تحت دہشت گردی پر اکسانے سے متعلق تھے

جیوری کے دیے گئے اپنی حتمی بیان میں پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ لفظ ’دہشت گردی‘ کو اگر عام آدمی کی نظر سے دیکھا جائے تو اخلاقیات کی بحث کو ہوا مل سکتی ہے، لیکن اس کیس کو پارلیمنٹ کے مقرر کردہ برطانوی قوانین کے پیمانے پر دیکھا جانا چاہیے

پراسیکیوشن نے زور دیا تھا کہ الطاف حسین نے حکومت پر اثر انداز ہونے کے لیے اپنے کارکنان کو دہشت گردانہ عمل کرنے کے لیے کہا اور کارکنان نے سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ سب کیا

پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے سیاسی طاقت اور قیادت کے طور پر بہت سی ایسی باتیں کیں، جن کا انحصار ان کے حامیوں کی وفاداری پر تھا

پراسیکیوٹر نے دلیل دی تھی کہ ان کا مقصد لوگوں کو جمع کر کے ٹی وی پر حملہ کروانا تھا جس میں کئی افراد زخمی اور جاں بحق ہوئے، وہ اپنے کارکنان کی عقیدت اور وفاداری سے با خبر ہیں، انہوں نے اپنے کارکنان کو استعمال کیا

گزشتہ ہفتے سماعت مکمل ہونے کے بعد جسٹس مے کی جانب سے جیوری کو ہدایات کی گئی تھی کہ ممکن ہے کہ دونوں فیصلے ایک جیسے ہوں، لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں ہے

جسٹس مے کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کا فیصلہ ان کا حق ہے اور جیوری فیصلے میں یہ کہہ سکتی ہے کہ بانی ایم کیو ایم کی جانب سے اپنے اوپر لگائے گئے اشتعال انگیز تقاریر کے الزام پر کوئی شواہد جمع نہیں کروائے گئے

بانی ایم کیو ایم 1990 کے ابتدائی برسوں سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی میں ہیں، جہاں انہوں نے سیاسی پناہ لی تھی، جس کے بعد انہیں برطانیہ کی شہریت دی گئی

کنگسٹن کراؤن کورٹ میں سوموار کو الطاف حسین وقفے کے دوران وہیل چیر پر بیٹھ کر باہر آئے تھے، جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو بھی کی

گفتگو کے دوران ایسا لگ نہیں رہا تھا کہ وہ کسی دباؤ یا اسٹریس میں ہوں. عدالت کے باہر جب ان سے پوچھا گیا کہ اگلے دن کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے، تو ان کا جواب تھا کہ ’اللہ بہتر جانتا ہے۔ دعائیں ہو رہی ہیں۔ اللہ تعالی سے مثبت امید رکھنی چاہیے اور میں مثبت امید ہی رکھ رہا ہوں۔‘

22 اگست 2016 کو کیا ہوا تھا؟

الطاف حسین نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود پارٹی کے کارکنان سے لندن سے ٹیلیفون کے ذریعے کیے جانے والے اپنے خطاب میں پاکستان مخالف تقریر کی تھی،انہوں نے لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا ہاؤسز پر حملوں کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد پاکستان میں ان کی تقاریر پر پابندی عائد کردی گئی تھی

ان کی تقریر کے بعد مشتعل ہجوم نے ٹی وی چینلز کے دفاتر پر حملہ کرکے وہاں شدید توڑ پھوڑ بھی کی تھی

اس واقعے کے بعد ان کی اپنی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی

برطانیہ میں اس قسم کے مقدمات کو کراؤن کورٹ دیکھتی ہے، جہاں مقدمات کا فیصلہ تیرہ خواتین و مردوں پر مشتمل جیوری کرتی ہے

اسی جیوری کی خاتون جج جسٹس مے نے ہدایات دی ہے کہ الطاف حسین نے اپنے حق میں اسٹینڈ نہیں لیا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے اپنا دفاع نہیں کیا اور وہ جرم کے مرتکب ہوئے، بلکہ جیوری سارے حقائق کو مدنظر رکھ کر اکثریتی فیصلے پر پہنچے گی

برطانیہ کے کریمنل لا یعنی جرائم کے قانون کے مطابق مشتبہ مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ’بیونڈ ریزن ایبل‘ ڈاؤٹ کا پیمانہ استعمال ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ شک کی تھوڑی سی گنجائش بھی نہیں رہنی چاہیے

یاد رہے کہ بانی ایم کیو ایم 90 کی دہائی کے اوائل سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے برطانوی شہریت حاصل کر لی تھی تاہم لندن سے وہ باقاعدگی کے ساتھ اپنی جماعت کا انتظام بھی چلاتے رہے اور اپنے کارکنوں سے سیاسی تقاریر کے ذریعے کراچی کی سیاست میں متحرک کردار ادا کرتے رہے تھے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close