ژوب – بلوچستان کے ضلع ژوب میں 23 فروری کو ہلاک ہونے والے پندرہ سالہ انور خان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے میرے بچوں کو گرفتار کیا تو میں گھر سے قرآن اٹھا کر پیچھے بھاگی۔ انہوں نے سب بچوں کو ہتھکڑی لگا کر کھڑا کیا ہوا تھا۔ میں نے ان کو قرآن کا واسطہ دیا، لیکن انہوں نے مجھے دھکا دیا اور میرے سامنے میرے بچوں کو گولی مار دی‘
ان کا الزام ہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی(سی ٹی ڈی) اور پولیس نے مبینہ طور پر ان کے دسویں جماعت کے طالب علم بیٹے انور خان سمیت بارہ سے پندرہ سال کی عمر کے چار کم عمر نوجوانوں کا بعد از گرفتاری ماورائے عدالت قتل کر دیا
ہلاک ہونے والوں میں انور خان، ان کے چچا زاد بھائی اور ایف ایس سی کے طالب علم نواب خان کے علاوہ بارہ سے پندرہ سالہ ملازم شریف خان اور حسن خان بھی شامل تھے۔ اس کارروائی میں چار افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں انور خان کے ایک بڑے بھائی حیدر خان بھی شامل ہیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس واقعے پر پولیس اور سی ٹی ڈی کا مؤقف جاننے کے لیے دونوں محکموں کے حکام اور ژوب پولیس سے رابطہ کیا گیا اور ان کو واٹس ایپ پر پیغامات بھی بھجوائے گئے لیکن تاحال ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے
ضلع ژوب کے ہیڈکوارٹر ژوب شہر سے سات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر کلی شہاب زئی میں پیش آنے والے اس مبینہ واقعے کے اگلے ہی دن مقتول نوجوانوں کے لواحقین نے دھرنا دے کر بلوچستان کو خیبر پختونخوا اور پنجاب سے منسلک کرنے والی مرکزی شاہراہ کو بند کر دیا تھا
اس کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ژوب میں سی ٹی ڈی کی مبینہ فائرنگ سے چار افراد کی ہلاکت کا نوٹس لیا اور صوبائی حکومت نے انکوائری کا حکم دیا ہے
ڈپٹی کمشنر ژوب نے بتایا کہ اس واقعے کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے قیام کے لیے محکمہ داخلہ بلوچستان کو خط ارسال کیا چکا ہے
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انور خان کے والد کے چچازاد بھائی سردار ولی خان کاکڑ ننے کو بتایا کہ ان کے خاندان کے اراضی کے معاملے پر ایک مقامی خاندان سے پرانے تنازعات ہیں
’اس دشمنی میں قتل بھی ہوئے اور ایک دوسرے پر مقدمات بھی۔‘ سردار ولی کاکڑ کے مطابق اراضی کے قبائلی تنازعات کی ہی وجہ سے جب کبھی چھاپے اور گرفتاری کا خدشہ ہو تو کیس میں نامزد ملزمان بچنے کی کوشش کرتے ہیں
’اس رات گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے گاؤں کی جانب آتی دکھائی دی تو وہ لوگ جن پر مقدمات تھے، گرفتاری سے بچنے کے لیے قریبی پہاڑوں کی طرف چلے گئے۔
’ماضی میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ مقدمے میں نامزد نہیں ہوتے، وہ گھر پر ہی رہتے ہیں اور ان کو کچھ نہیں کہا جاتا لیکن اس رات ایسا نہیں ہوا۔‘
سردار ولی خان نے بتایا کہ جس کیس کی بنیاد پر ’ہمارے گھروں پر چھاپہ مارا گیا، وہ ژوب شہر کے قریب زمین کے تنازعے پر ہمارے مخالفین سے فائرنگ کے تبادلے کی بنیاد پر بنا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مخالف قبیلے کے ساتھ ’ہمارا اراضی پر گزشتہ سات سال سے تنازعہ ہے لیکن ڈیڑھ دو سال قبل اس پر ہمارا مخالفین کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے تبادلے میں ’ہماری جانب سے مجھ سمیت تین افراد زخمی ہوئے تھے اور مجھے خود تین گولیاں لگی تھیں جبکہ ہمارے مخالفین میں سے ایک مارا گیا اور ایک زخمی ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ پولیس کا کیس تھا اور دعویٰ کیا کہ اسے پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے سی ٹی ڈی کے حوالے کیا گیا
انہوں نے بتایا کہ ’میں مانتا ہوں کہ ہمارے خلاف مقدمات ہیں تو ہمیں گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کر کے مقدمات چلائے جائیں اور اگر ہم گرفتاری نہیں دیتے تو اس حوالے سے دیگر قانونی تقاضے پورے کیے جاتے نہ کہ ہمارے بچوں کا ماورائے قانون و عدالت قتل کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بچوں سمیت جن آٹھ لوگوں کو گولیاں ماری گئیں، ان پر کوئی مقدمہ نہیں تھا لیکن پھر بھی ان کو گرفتار کر کے لے جاتے اور ان کو عدالت میں پیش کرتے تو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔‘
انور خان اور حیدر خان کی والدہ نے فون پر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو اس رات کے واقعے کی تفصیلات کے بارے میں بتایا
ان کے مطابق ان کا گھر رشتہ داروں کے گھروں سے کچھ فاصلے پر ہے جہاں ’پولیس کی وردی میں ملبوس اہلکاروں سمیت چند افراد تقریباً چار بجے کے قریب آئے اور دروازہ کھٹکھٹانے کی بجائے اسے اتنے زور سے پیٹا کہ کنڈیاں اکھڑ گئیں
’اس وقت گھر میں خواتین کے علاوہ دونوں بیٹے ہی موجود تھے جن کو پکڑا گیا تو میں نے منت سماجت کی کہ یہ کسی جرم میں ملوث نہیں۔ انھوں نے میری بات نہیں سنی اور دونوں کو ہتھکڑی لگا کر لے گئے۔ میں اپنے بچوں کو بچانے کے لیے قرآن مجید اٹھا کر ان کے پیچھے بھاگی۔‘
انور کی والدہ نے بتایا کہ ان کے دونوں بیٹوں کو دیگر افراد کے ساتھ کھڑا کیا جا چکا تھا۔ ’میں نے ان کو قرآن کا واسطہ دیا لیکن انھوں نے مجھے دھکا دیا اور میری بات نہیں سنی۔
’میری چیخ و پکار کسی کام نہیں آئی اور انھوں نے میرے بچوں کو میرے سامنے گولیاں ماریں۔‘
سردار ولی خان کے مطابق انور خان کی والدہ کہتی تھیں کہ ’میں اس بچے کو پڑھاؤں گی تاکہ وہ آپ لوگوں کی دشمنی سے دور رہے لیکن اسے بھی مار دیا گیا۔‘
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے دو کم عمر نوجوان شریف اور حسن صرف چند ہزار روپے پر نوکری کرتے تھے
سردار ولی خان نے بتایا کہ ان بچوں کی عمریں بارہ سے پندرہ سال کے لگ بھگ تھیں، جو ان کے ملازم تھے اور ان میں سے ’ایک بچہ بھیڑ بکریوں کے بچوں کو چراتا تھا۔‘
انہوں نے کہا ’ان دونوں بچوں کا تعلق ہمارے قبیلے سے بھی نہیں تھا بلکہ قمردین کاریز سے تعلق رکھنے والے سلیمان خیل قبیلے سے تھا۔‘
سردار ولی خان نے دعویٰ کیا کہ ’ان ملازم بچوں نے ان اہلکاروں کو بتایا کہ ہمارا اس خاندان تو کیا قبیلے سے بھی تعلق نہیں لیکن ان کو بھی مار دیا گیا۔‘
سردار ولی خان نے کہا کہ زخمیوں میں سے ایک اور شخص ان کے گھر اس رات مہمان کے طور پر ٹھہرا ہوا تھا
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے نوجوان نواب خان کے بھائی ہلال زادہ نے بتایا کہ ہمارے گھر پر پاکستان کا بہت بڑا پرچم لگا ہوا ہے
’ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے رشتہ داروں کو کیوں اس طرح بےدردی کے ساتھ مارا گیا۔‘
نواب خان کے بھائی ہلال زادہ نے بتایا کہ ان کے بھائی ایف ایس سی کے طالب علم تھے۔
ایک سوال پر ہلاک ہونے والوں کے ایک اور قریبی رشتہ دار بسم اللہ جان کاکڑ نے بتایا کہ ’ان میں سے کسی نے بھی چھاپہ مارنے والے اہلکاروں پر گولی نہیں چلائی۔ جب ان لوگوں کی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں تو وہ کیسے مقابلہ کرسکتے تھے۔‘
سردار ولی خان کہتے ہیں کہ ’گولی چلانا تو دور کی بات، کسی نے گرفتاری پر کوئی مزاحمت نہیں کی کیونکہ ان کے رشتہ داروں کو یہ معلوم تھا کہ یہ بے قصور ہیں ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔‘
واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مقتول کے ہاتھوں پر ہتھکڑی لگی ہوئی ہے جس کو کاٹا جا رہا ہے
’ہمارا مطالبہ صرف انصاف ہے‘
سردار ولی خان کا مطالبہ ہے کہ واقعے کی شفاف انکوائری کی جائے اور اصل کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے
واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے کمشنر ژوب سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور غیر جانبدارنہ تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے
مشیر داخلہ و قبائلی امور میر ضیا اللہ لانگو نے بھی ژوب میں سی ٹی ڈی کی مبینہ فائرنگ سے 4 افراد کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کو فوری انکوائری کا حکم دیا ہے اور واقعے کی غیر جانبدرانہ تحقیقات کر کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا ہے
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے تمام محرکات سامنے لائے جائیں گے تاہم فون پر رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر ژوب نے بتایا کہ اس واقعے پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ ہوا جس کے لیے محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کو خط تحریر کیا گیا ہے.