تین ہزار امریکی شہریوں کا یوکرین جا کر لڑنے کا فیصلہ، ’واضح مؤقف‘ کے لیے بھارت پر دباؤ

ویب ڈیسک

کئیف – امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق تین ہزار امریکی شہریوں نے بطور رضاکار یوکرین جا کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب ادائیگی کی کمپنیوں ماسٹر کارڈ اور ویزا نے روس میں آپریشن معطل کر دیے ہیں اور یوکرین کے معاملے پر واضح موقف اختیار کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے

امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق تین ہزار امریکی شہریوں نے بطور رضاکار یوکرین جا کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے

واشنگٹن میں یوکرین کے سفارت خانے کے ایک نمائندے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یوکرین کے غیر ملکی رضاکاروں کو بھرتی کرنے والے مطالبے کا جواب دیتے ہوئے اندازاً تین ہزار امریکیوں نے یوکرین جا کر روس کا مقابلہ کرنے کی حامی بھری ہے

مغربی ممالک یوکرین میں لڑنے کے لیے اپنی افواج نہیں بھیج رہے لیکن وہ یوکرین کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں تاکہ اس ملک کی لڑائی میں مدد کی جا سکے

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور دیگر سینیئر یوکریی حکام نے لڑائی میں مدد کے لیے غیر ملکی رضاکاروں کے ایک ’بین الاقوامی لشکر‘ کی تشکیل پر زور دیا ہے

کچھ دن قبل زیلنسکی کا کہنا تھا کہ تقریباً سولہ ہزار غیر ملکیوں نے رضاکار کے طور پر یوکرین کی لڑائی میں مدد کرنے کی حامی بھری ہے

یوکرین کے معاملے پر ’واضح موقف‘ اختیار کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ

یوکرین کے معاملے پر واضح موقف اختیار کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بھارت نے اب تک اقوام متحدہ میں ماسکو کے خلاف ووٹ دینے سے گریز کیا ہے اور بحران کے حل کے لیے بات چیت اور سفارت کاری پر زور دیا ہے

دہلی نے اپنے بیانات میں علاقائی سالمیت کی اہمیت کے بارے میں بات کی ہے لیکن اس نے روس پر تنقید بھی نہیں کی

بھارت کے لیے مغرب اور روس دونوں کے ساتھ اپنے دفاعی اور سفارتی تعلقات کو متوازن رکھنا اب ایک مشکل کام نظر آتا ہے

ماسکو بھارت کو تقریباً 50 فیصد ہتھیار فراہم کرتا ہے اور یہ دیگر معاملوں میں انڈیا کا ایک اہم پارٹنر بھی رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی گذشتہ دو دہائیوں کے دوران انڈیا اور امریکہ کے تعلقات میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے

بھارت میں روس کے سفیر ڈینس علیپوف نے ہفتے کے روز بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی کا خیرمقدم کیا۔ لیکن اسی وقت سینئر امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو نے کہا کہ واشنگٹن یوکرین کے معاملے میں بھارت سے واضح موقف چاہتا ہے

یوکرین روس جنگ جاری ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیے کسی ایک کا ساتھ دینے والی پالیسی پر عمل جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا

واضح رہے کہ ایک روز قبل امریکا نے پاکستان کو بھی ”خبردار“ کیا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے علاقائی اور عالمی دونوں طرح کے نتائج سامنے آ سکتے ہیں، جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے رواں ہفتے کے آغاز میں 23 سفیروں کی جانب سے جاری کردہ بیان پر بھی اعتراض کرتے ہوئے اسے غیر سفارتی اقدام قرار دیا

پیش رفت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا ”ہم نے حکومت پاکستان کو یوکرین کے خلاف روس کی بلااشتعال جنگ کے سبب علاقائی اور عالمی سلامتی پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کیا ہے“

تاہم اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد نہ صرف اپنے اقدامات کے نتائج سے باخبر ہے بلکہ یوکرین میں امن کی بحالی کے لیے تمام تر کوششوں کی حمایت کرتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پاکستان کے مؤقف کو روس کی حمایت کے اظہار کے طور پر بیان کرنا ایک برعکس تشریح ہوگی

واضح رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک غیر پابند قرارداد منظور کی تھی، جس میں یوکرین سے تمام روسی فوجیوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا. مذکورہ قرارداد میں جنوبی ایشیائی ممالک میں سے صرف نیپال نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا، جبکہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا

امریکی ترجمان نے اس بات پر اصرار کیا کہ تمام پینتیس ممالک، جنہوں نے ووٹ دینے سے گریز کیا ہے، انہیں بھی اس معاملے پر سخت مؤقف اختیار کرنا چاہیے تھا

امریکی حکام روس کے اتحادی کو منانے کے لیے وینزویلا جا رہے ہیں

سینئر امریکی حکام وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش میں ہیں اور اس ہفتے کے آخر میں وینزویلا کا دورہ کرنے والے ہیں

واشنگٹن نے وینزویلا کے رہنما پر انتخاب میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔

پھر جب 2019 میں امریکہ نے وینزویلا کی تیل کی برآمدات پر پابندیاں لگائیں تو اس جنوبی امریکی ملک نے مدد کے لیے روس کا رخ کیا تھا۔

اب واشنگٹن یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا یہ قوم ماسکو کی حمایت سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہو سکتی ہے یا نہیں۔

اسرائیلی وزیِرِ اعظم کی جنگ میں ثالثی کے لیے پیوٹن سے ملاقات

اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے کریملن میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی ہے جس میں یوکرین کی جنگ پر تبادلہ خیال کیا گیا

تین گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات کے بعد بینیٹ کے ترجمان نے کہا کہ انھوں نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بھی فون پر بات کی ہے

ایک اسرائیلی اہلکار کا کہنا ہے کہ بینیٹ امریکہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ بحران کا حل نکالنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

بینیٹ کے دفتر کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پہلے سے ہی اس ملاقات کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا تھا

انھوں نے مزید کہا کہ پیوٹن سے ملاقات کے بعد بینیٹ جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ بات چیت کے لیے برلن گئے ہیں

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ بینیٹ نے یہودیوں کے مذہبی سبت کے دن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صبح سویرے ماسکو کے لیے طیارے میں سفر کیا، بینیٹ عام طور پر اس دن کوئی سرکاری کام نہیں کرتے ہیں

ترجمان کا کہنا تھا ”اگر مقصد ‘انسانیت کو بچانا’ ہو تو اس صورت میں یہودی مذہب میں اس خلاف ورزی کی اجازت ہے“

بینیٹ کے ماسکو کے دورے میں اسرائیلی وزیر ہاؤسنگ زیف ایلکن ان کے ساتھ تھے جن کی پیدائش یوکرین میں ہوئی تھی

اگرچہ اسرائیل امریکہ کا ایک بڑا اتحادی ہے لیکن بینیٹ نے روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے

چین ہر اس اقدام کی مخالفت کرے گا، جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو بتایا کہ بیجنگ ہر اس اقدام کی مخالفت کرے گا جس سے کشیدگی میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہو

گلوبل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق وانگ یی نے کہا کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں

انھوں نے مزید کہا کہ بحران صرف بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے

واضح رہے کہ چین نے ابھی تک روسی حملے کی مذمت نہیں کی ہے

بیجنگ ایسا تاثر نہیں دینا چاہتا جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ یورپ میں جنگ کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ماسکو کے ساتھ فوجی اور سٹریٹجک تعلقات کو بھی مضبوط کرنا چاہتا ہے

رپورٹ میں کہا گیا کہ وانگ نے امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین سے روس کے ساتھ ’منصفانہ بنیادوں پر مذاکرات‘ کرنے اور شمالی بحر اوقیانوس معاہدے کی توسیع کے بارے میں ماسکو کے تحفظات کو تسلیم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے

ویزا اور ماسٹر کارڈ کا روس میں آپریشنز معطل کرنے کا اعلان

ادائیگی کی کمپنیوں ماسٹر کارڈ اور ویزا کا کہنا ہے کہ وہ روس میں آپریشن معطل کر رہے ہیں

یہ فیصلہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی اپیل پر کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کمپنیوں سے روس کے ساتھ لین دین منقطع کرنے کا مطالبہ کیا تھا

ایک بیان میں ویزا نے کہا ہے کہ ’آنے والے چند دنوں میں‘ وہ روس کے ساتھ لین دین کو مکمل طور پر منقطع کر دے گا جس کے نتیجے میں روس میں جاری کیے گئے کارڈز بیرون ملک کام نہیں کریں گے اور نہ ہی دیگر ممالک میں جاری کیے کارڈ روس میں کام کریں گے۔

روس میں مارشل لا لگانے کا کوئی امکان نہیں، پیوٹن

روسی صدر نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے ملک میں مارشل لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوکرین میں سبھی کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق جاری ہے

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ہفتہ پانچ مارچ کو ملکی کمرشل ہوائی کمپنی ایروفلوٹ کے خواتین ملازمین سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں خواتین فضائی مہمان یا ایئر ہوسٹسز بھی موجود تھیں

ملاقات کے دوران روسی صدر نے یوکرین پر فوج کشی کے حوالے سے بھی تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے موقف کو بیان کیا۔ دوسری جانب روسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یوکرینی صدر زیلینسکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو تنازعے میں شامل کرنے کے بیانات دے کر مجموعی صورتِ حال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں

صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ وہ ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ پوٹن نے یہ بات ایسے موقع پر کہی جب ان کی افواج کو یوکرین میں داخل ہوئے دوسرا ہفتہ شروع ہو چکا ہے

ان کا مزید کہنا تھا کہ مارشل لا کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب ملک کو بیرونی جارحیت کا سامنا ہوتا ہے اور اس وقت ایسی کوئی صورت موجود نہیں اور مستقبل میں بھی ایسے حالات کا امکان نہیں۔ پوٹن کی ایروفلوٹ کے ملازمین کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کو روسی ٹیلی وژن پر بھی نشر کیا گیا

اس ملاقات میں روسی صدر نے مغربی پابندیوں کو اعلانِ جنگ کو مساوی قرار دیا اور انہوں نے یوکرین میں فوج کشی کا دفاع بھی کیا۔ پوٹن کے مطابق مشرقی یوکرین میں جہاں روسی زبان بولنے والوں کے حقوق کا دفاع کرنا ازحد ضروری ہو گیا تھا وہاں روسی مفادات کو تحفظ دینا بھی ضروری تھا

اس گفتگو میں روسی صدر نے کہا کہ یہ ان کے ملک کی ضرورت ہے کہ یوکرین کے غیر فوجی اور غیر نازی رویے کو ختم کیا جائے اور اس کے نیوٹرل ریاست کا اسٹیٹس بحال رکھا جا سکے

ایروفلوٹ کی خواتین ملازمین کے ساتھ گفتگو میں روسی صدر نے کہا جو ملک یوکرین کی فضائی حدود کو نو فلائی زون قرار دے گا، وہ اس تنازعے میں شامل ہو جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی ملک کی جانب سے ایسی کوئی تحریک کو ماسکو مسلح تنازعے میں شامل ہونے کے برابر خیال کرے گا

روسی صدر کی ایروفلوٹ کے ملازمین سے یہ ملاقات فضائی کمپنی کے اُس اعلان کے بعد ہوئی ہے جس میں اس نے بین الاقوامی پروازوں کے سلسلے کو آٹھ مارچ سے عبوری طور پر بند کرنے کا بتایا ہے

یہ فیصلہ روسی شہری ہوابازی کے ادارے روس ایویاتسیا کے فیصلے کے بعد کیا گیا، جس میں ہر قسم کی کمرشل پروازوں کو بند کرنے کا کہا گیا تھا۔ ایروفلوٹ نے چھ مارچ کے بعد سفر کرنے والے مسافروں کے ٹکٹ منسوخ کر کے ان کی ادائیگیوں کا بھی فیصلہ کیا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close