نیٹو نے فیصلہ کیا ہے کہ یوکرائن کو ’نو فلائی زون‘ قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ نیٹو ممالک اس تنازعہ کے براہ راست فریق نہیں ہیں۔ اگر نیٹو ایسا کوئی اقدام کرتی ہے تو اسے ایک ایسی جنگ میں فریق مانا جائے گا جس میں وہ براہ راست ملوث نہیں۔ اس عذر کی بنیاد پر تیس یورپی و امریکی ممالک کے مضبوط فوجی اتحاد نے یوکرائن کو بظاہر تنہا چھوڑ دیا ہے۔ یوکرائن کے صدر وولودیمیر ذیلنسکی نے نیٹو کے فیصلہ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’آج کے بعد یوکرائن میں روسی بمباری سے ہلاک ہونے والے شہریوں کا خون نیٹو لیڈروں کے ہاتھوں پر ہو گا‘
روسی صدر ولادیمیر پوتن اپنی طرف سے یہ اعلان کرچکے تھے کہ اگر یوکرائن کی فضائی حدود کو بند کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسا کرنے والی قوت کو روس سے براہ راست تصادم میں شریک مانا جائے گا۔ روسی لیڈر یورپ اور امریکہ کی طرف سے یوکرائن کو فراہم کی جانے والی مالی اور فوجی امداد پر بھی احتجاج کر رہے ہیں لیکن ماسکو بھی جمعہ کو برسلز میں نیٹو قیادت کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ برسلز سے سامنے آنے والے اعلان میں اگرچہ روس کی ایک بار پھر مذمت کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ فوری طور سے جنگ بندی کر کے، یوکرائن سے فوجیں واپس بلا لے۔ لیکن نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات کے بعد بتایا ہے کہ روس کی جانب سے حملوں میں شدت کا امکان ہے۔ آئندہ چند دنوں میں یوکرائن میں زیادہ تباہی و بربادی دیکھنے میں آ سکتی ہے
حیرت انگیز طور پر دنیا کے امیر ترین اور عسکری لحاظ سے طاقت ور ترین ممالک فی الوقت روس کی دھمکیوں سے مرعوب دکھائی دیتے ہیں اور کوئی ایسا اقدام کرنے پر آمادہ نہیں ہیں جس کی روشنی میں ماسکو کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملے کہ نیٹو خود اس تنازعہ میں فریق بنا ہے، اس لئے اس کے خلاف اعلان جنگ جائز اور درست ہو گا۔ لیکن اس مرحلہ پر ایک اہم سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری ہو گا کہ کیا نیٹو ممالک واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یوکرائن کو مکمل تباہی سے بچانے اور روس کے فضائی حملوں سے یوکرائینی شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لئے یوکرائن کی فضائی حدود کو ’نو فلائی زون‘ قرار دیا جاتا تو روس اس اقدام کے جواب میں نیٹو کے کسی ملک پر حملہ کرنے کا حوصلہ کر سکتا تھا؟ نیٹو لیڈروں نے بظاہر یہی قیاس کیا ہے اور براہ راست تصادم سے بچنے کے لئے یوکرائن کی مدد کرنے سے گریز کیا گیا ہے حالانکہ یوکرائن کی موجودہ حکومت کو موجودہ مشکل میں پھنسانے اور یوکرائن کو جنگ و تباہی کے اس مقام تک لانے میں نیٹو ممالک کے کردار اور حوصلہ افزائی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا
یوکرائن پر حملے کو تمام عالمی قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی لئے یورپ و امریکی ممالک نے روس کے خلاف سخت معاشی پابندیاں عائد کی ہیں۔ روس کے متعدد بنکوں کو سویفٹ سسٹم سے علیحدہ کر کے دنیا بھر سے روس کی تجارت کو محدود کر دیا گیا ہے۔ یورپ اور امریکہ نے اپنی فضائی حدود کو ہر قسم کے روسی طیاروں کے لئے بند کر دیا ہے جس کے نتیجے میں روس کی قومی ائر لائن کو تمام بین الاقوامی پروازیں معطل کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ روسی لیڈروں اور متعدد امیر شہریوں پر شدید پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور یورپ و امریکہ میں ان کے اثاثے منجمد کیے گئے ہیں حتی کہ روسی سنٹرل بنک کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے روسی روبل شدید دباؤ کا شکار ہے
یہ سارے اقدامات صرف اس اصول کی بنیاد پر کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے کہ روس نے ایک پر امن اور خود مختار ملک پر بلا اشتعال حملہ کر کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لئے ایسے جنگی جنون کی سخت سزا دینی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو بین الاقوامی قوانین توڑنے کا حوصلہ نہ ہو۔ اس اصول کو اس حد تک مقدس بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ جب سلامتی کونسل میں روس کے ویٹو حق کی وجہ سے اس جنگ کے خلاف مذمتی قرار داد منظور نہیں کروائی جا سکی تو امریکہ اور یورپی ممالک نے ایک خصوصی قرارداد کے ذریعے قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا اور وہاں روس کے خلاف قرار داد منظور کروائی گئی۔ اگرچہ کوئی ملک جنرل اسمبلی کی قرار داد پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے لیکن اس کے باوجود روس کے خلاف عالمی سفارتی محاذ مستحکم کرنے کے لئے یہ اجلاس بلایا گیا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 141 ممالک نے روس کی مذمت میں منظور کی گئی قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 35 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ان میں پاکستان کے علاوہ چین اور بھارت جیسے ممالک بھی شامل تھے حالانکہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ حالیہ برسوں میں قریبی اسٹریٹیجک مراسم استوار کیے ہیں اور وہ اسے چین کے خلاف حصار بندی میں اہم فریق سمجھتا ہے
بھارت نے روس کے ساتھ وابستہ دیرینہ مفادات کی وجہ سے اس معاملہ میں ’غیر جانبدار‘ رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے بھی سفارتی امکانات برقرار رکھنے کے لئے جنرل اسمبلی کی بحث میں حصہ لینے یا ووٹنگ میں شریک ہونے سے گریز کیا۔ چین بظاہر اس بحران میں روس کا ساتھ دے رہا ہے لیکن امریکی دباؤ کی وجہ سے اس نے بھی ووٹ میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ امریکہ و روس کے ساتھ چین کے وسیع تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔ وہ اس تنازعہ میں ان تعلقات کو بھینٹ چڑھانا نہیں چاہتا۔ بلکہ صدر زی جن پنگ کسی بھی طرح اس معاملہ کو ٹھنڈا کروانے کی کوشش کر رہے ہیں مشرقی وسطیٰ میں امریکہ کا قریبی ساتھی ملک اسرائیل بھی ایسی ہی مشکل شکار ہے کیوں کہ اس کے یوکرائن کے ساتھ بھی تجارتی مراسم ہیں اور وہ روس کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ کرنے کا حامی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے گزشتہ روز خفیہ طور سے ماسکو کا دورہ کیا اور یوکرائن میں جنگ بندی کے سوال پر صدر پوتن سے بات چیت کی ہے
جنرل اسمبلی کی قرار داد کے ذریعے البتہ دنیا کے ممالک نے واضح اکثریت نے جنگ کو مسترد کرتے ہوئے روس سے جنگ بندی کرنے اور یوکرائن سے فوجیں واپس بلانے کا مطالبہ کیا۔ جن ملکوں نے قرارداد کی حمایت نہیں کی، انہوں نے بھی اس کے خلاف ووٹ دینے کا ’حوصلہ‘ نہیں کیا۔ 193 ممالک پر مشتمل جنرل اسمبلی میں روس کے علاوہ اس قرار داد کے خلاف صرف 4 ممالک نے ووٹ دیا۔ ان ملکوں میں بیلا روس، اریٹیریا، شمالی کوریا اور شام شامل تھے۔ اس سے روس کی کمزور سفارتی پوزیشن اور دنیا میں اس جنگ جوئی کے خلاف رائے کی شدت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے
اس پس منظر میں اگر نیٹو لیڈر قدرے حوصلہ مندی سے کام لیتے اور یوکرائن کی خواہش کے مطابق یوکرائن کی فضائی حدود کو ’نو فلائی زون‘ قرار دیا جاتا تو روس کے پاس اس فیصلہ کے خلاف سخت بیان دینے اور دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہوتا۔ اسے کسی صورت روس کے خلاف نیٹو کا اعلان جنگ نہیں کہا جاسکتا تھا بلکہ یہ فیصلہ ایک سنگین جنگ بند کروانے میں ایک موثر ہتھیار ثابت ہو سکتا تھا۔ اس ایک اقدام سے یوکرائینی عوام کو سکون کا سانس ملتا اور اس کی افواج بہتر طریقے سے روسی یلغار کا مقابلہ کر سکتی تھیں۔ نیٹو کی اس دلیل کو ماننا مشکل ہے کہ اس اقدام سے نیٹو ممالک براہ راست تنازعہ کا حصہ بن جاتے اور روس کو باقی ماندہ یورپ پر حملے کرنے کا موقع مل جاتا۔ نیٹو لیڈر بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں تھا۔ روس کے پاس ایسا سخت اور بڑا فیصلہ کرنے کے لئے مالی و عسکری وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ روسی فوج کی کمزوری کا اندازہ یوکرائن پر حملہ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ روسی کمانڈرز کا خیال تھا کہ وہ دو تین دن میں یوکرائینی دارالحکومت کیف پر قبضہ کر کے وہاں ماسکو نواز حکومت قائم کروا دیں گے اور اس کے ساتھ ہی جنگ بندی کا اعلان کر کے یوکرائن کے متعدد علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا جائے اور تصادم کو پھیلنے سے بھی روک لیا جائے گا۔ یہ اندازے ابھی تک درست ثابت نہیں ہوئے۔ جنگ کے نو روز گزرنے کے باوجود روس ابھی تک کیف پر قبضہ نہیں کر سکا، نہ ہی یوکرائینی قیادت کے حوصلے پست کر سکا ہے۔ یوکرائن کے صدر ذیلنسکی اور دیگر لیڈر کیف میں موجود ہیں اور اپنے حامی ملکوں سے مدد کی اپیلیں کر رہے ہیں
یوکرائن کی طرف سے فضائی حدود بند کرنے کی درخواست مسترد کر کے نیٹو نے درحقیقت سنگین کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے پہلے امریکی صدر جو بائیڈن یوکرائن پر حملہ سے پہلے روسی حملے کی اطلاعات دیتے ہوئے یہ واضح کرتے رہے تھے کہ امریکہ اس تنازعہ میں فریق نہیں بنے گا۔ بلکہ جوں ہی روس کی فوجیں یوکرائن پر حملہ آور ہوئیں تو امریکہ نے تمام فوجی مشیر اور تربیتی عملہ یوکرائن سے نکال لیا تھا۔ جمعہ کو نیٹو کی طرف سے یوکرائن کی فضائی حدود بند کرنے سے معذوری ظاہر کرنے کی سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ صدر بائیڈن کسی بھی طرح اس جنگ میں فریق بننا نہیں چاہتے۔ لیکن نیٹو ارکان کی اکثریت یورپی ممالک پر مشتمل ہے۔ امریکہ کے برعکس یورپی ممالک روسی جارحیت سے براہ راست متاثر ہوں گے۔ ایک طرف روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے دیگر یورپی ممالک کی خود مختاری کو خطرہ لاحق ہو گا تو دوسری طرف یوکرائن چھوڑنے والے لاکھوں پناہ گزین بھی یورپی ممالک کا ہی رخ کریں گے
نیٹو کے یورپی ممالک کو اپنی حفاظت کے نقطہ نظر سے یوکرائن کو نو فلائی زون قرار دے کر اس جنگ کو محدود کرنے کے لئے اقدام کرنا چاہیے تھا۔ اس معاملہ میں کم حوصلگی کا مظاہرہ کر کے دراصل روس کو یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ وہ یوکرائن میں من مانی کر سکتا ہے لیکن نیٹو اور اس کے رکن ممالک یوکرائن کی محض ’اخلاقی‘ مدد ہی کریں گے۔ حالانکہ یوکرائن کو نو فلائی زون قرار دینا جنگی کارروائی کی بجائے قیام امن کی کارروائی ہوتی کیوں کہ اس سے روس کو جنگ بندی پر آمادہ ہونے اور کسی بھی طرح باعزت طریقے سے اس تنازعہ سے باہر نکلنے کا موقع تلاش کرنا پڑتا
ان حالات میں بعض مبصرین کی اس دلیل کو ماننا پڑے گا کہ امریکہ درحقیقت روس کو یوکرائن کی جنگ میں الجھا کر عسکری اور معاشی لحاظ سے تباہ کرنا چاہتا ہے۔ کیف میں مغرب نواز حکومت قائم کروانے کے بعد نیٹو اور یورپی یونین میں یوکرائن کی شمولیت کے ایجنڈے کو اہمیت دے کر جان بوجھ کر ماسکو کو اشتعال دلانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسی طرح جب روس یوکرائن کی سرحدوں پر فوجیں جمع کر رہا تھا اور یوکرائن کو نیٹو میں شامل نہ کرنے کی ضمانت مانگ رہا تھا، اس وقت بھی اس مطالبے کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے فوجیں جمع کرنے کو اصل جارحیت بتا کر روس کو اس مشکل میں پھنسنے پر مجبور کیا گیا۔ نیٹو کی طرف سے یوکرائن کی حفاظت کے لئے ایک معمولی اقدام سے انکار تو یہی واضح کرتا ہے کہ نیٹو ممالک کو نہ تو یوکرائینی عوام کی بہبود کی فکر ہے اور نہ ہی کسی اچانک سانحہ سے ہونے والی تباہی پریشان کر رہی ہے بلکہ نیٹو روس کی معاشی مشکلات میں اضافہ کر کے دنیا میں اپنے تسلط کے ایک نئے دور کو یقینی بنانا چاہتی ہے
یوکرائن کا دارالحکومت اور سیاسی قیادت کسی بھی لمحے روس کے قبضے میں آ سکتی ہے۔ نیٹو لیڈر مذمت سے آگے نہیں بڑھنا چاہتے۔ ایسے میں یوکرائینی صدر کا یہ بیان سبق آموز ہے کہ ’نیٹو نے درحقیقت روس کو یوکرائن پر بمباری کرنے اور تباہی پھیلانے کی اجازت دی ہے۔ آج کے بعد یوکرائن میں روسی بمباری سے مرنے والے ہر شخص کا خون نیٹو لیڈروں کے ہاتھ پر ہو گا‘ ۔ یہ لیڈر انسانیت، امن اور عدم تشدد کا شور مچاتے ہوئے شاید روس کی تباہی کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ دنیا میں ان کی بالادستی کو چیلنج کرنے والی ایک بڑی طاقت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی جائے۔ یوں دنیا پر قابض رہنے کے خواب کی تکمیل کے لئے یوکرائن کی تباہی اور وہاں ہونے والی ہلاکتوں کو ’معمول کی قیمت‘ سمجھا جا رہا ہے.
بشکریہ : ہم سب