دنیا کا واحد ٹیسٹ کرکٹر، جسے پھانسی ہوئی!

محمود الحسن

چند دن قبل مارکَس برکمان کی کتاب Berkmann’s Cricketing Miscellany پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
متفرق معلومات پر مبنی یہ کتاب خاصی دلچسپ معلوم ہوئی۔ اس کے مختلف ابواب مہینوں کے نام پر ہیں جن میں تاریخ پیدائش کے حساب سے مختلف شخصیات کے کرکٹ سے تعلق پر بات کی گئی ہے

خیال ہوا کہ اس پُر از معلومات کتاب میں شامل کچھ چنیدہ باتیں قارئین تک بھی پہنچنی چاہییں تو اس مضمون کا ڈول ڈالا

سب سے پہلے ویسٹ انڈین فاسٹ بولر لیزلی ہلٹن کا ذکر چھیڑتے ہیں، جو دنیا کا واحد ٹیسٹ کرکٹر ہے جسے پھانسی ہوئی۔ اس نے بیوی کو قتل کیا تھا۔ مقدمے کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ وہ خود کو گولی سے اڑانا چاہتا تھا لیکن غلطی سے اس کی اہلیہ نشانہ بن گئی

مقتولہ کے جسم سے سات گولیوں کی برآمدگی سے اس کے جھوٹ کا پول کھل گیا۔ اسے جس دن تختہ دار پر لٹکایا جانا تھا، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے مابین بارباڈوس میں ٹیسٹ میچ جاری تھا جس میں میزبان ٹیم کا اوپنر جون ہولٹ بیٹنگ میں زیادہ نہ چل سکا، اوپر سے سلپ میں دو آسان کیچ بھی گرائے تو ایک تماشائی نے اس سے ناراضی کا اظہار سٹیڈیم میں ایک بینر لہرا کر کیا جس پر لکھا تھا ’ ہلٹن کو بچاؤ ہولٹ کو لٹکاؤ‘ hang holt save hylton
لیزلی ہلٹن نے 1935 سے 1939 تک ویسٹ انڈیز کی طرف سے چھ ٹیسٹ کھیلے۔ اسے 17 مئی 1955 کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا

سنہ 1932 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پہلی انڈین ٹیم کا کپتان مہاراجہ آف پوربندر تھا۔ دورے کے 26 فرسٹ کلاس میچوں میں وہ صرف چار میں ہی شریک ہو سکا۔ واحد ٹیسٹ میچ میں اسے سی کے نائیڈو کے حق میں کپتانی سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس دورے میں اس کی واحد سکورنگ شاٹ وہ لیگ گلانس تھا جس پر دورنز بنے۔
موصوف نے چھ فرسٹ کلاس میچوں کی سات اننگز میں چھ رنز کی اوسط سے 42 رنز بنائے۔ اس کے بارے میں ’آل آوٹ کرکٹ‘ نے طنزاً لکھا کہ یہ کرکٹ کی دنیا کا واحد کھلاڑی ہے جس کی ملکیتی رولزروئس کی تعداد(سات) بیٹنگ اوسط (چھ) سے زیادہ ہے

اس کتاب کے وسیلے سے معلوم ہوا کہ ویسٹ انڈین کھلاڑی لارنس رو کا کریئر کس المیے کا شکار ہوا۔
سنہ 1972 میں نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں اس نے بالترتیب 204 اور 100 رنز(ناٹ اؤٹ) بنائے۔ دو برس بعد انگلینڈ کے خلاف ٹرپل سینچری کی

عظیم فاسٹ بولر مائیکل ہولڈنگ کا کہنا ہے کہ جن بلے بازوں کو اس نے کھیلتے دیکھا ان میں سے لارنس رو بہترین تھا۔ لیکن شومیٔ قسمت کہ 1974 میں ڈربی شائر کی طرف سے کھیلتے ہوئے ناچار کر دینے والے دردِ سر اور ہے فیور (Hay fever) سے اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ اگلے برس بینائی متاثر ہونے پر انڈیا کا دورہ ادھورا چھوڑنا پڑا۔ دوران علاج تشخیص ہوئی کہ لارنس رو کو گھاس سے شدید الرجی ہے

اس سے بڑھ کر کسی کرکٹر کے لیے اور کیا بدنصیبی ہو سکتی تھی۔ برکمان کے خیال میں یہ ایسے ہی ہے جیسے ریستوران کے مالک کو کھانے سے شدید الرجی ہو جائے۔
ویسٹ انڈین کرکٹ میں جارج ہیڈلی کا نام بڑا اونچا ہے۔ ممتاز رائٹر سی ایل آر جیمز کی دانست میں بریڈمین کے بعد سب سے بڑا بلے باز۔ 22 ٹیسٹ میچوں میں 60.83 کی اوسط سے 2190 رنز بنائے۔ 10 سینچریوں کی مدد سے

اینگلو آسٹریلین لکھاری اسے بلیک بریڈمین کہتے لیکن اس کے ہم وطن اسے غلط اور مربیانہ سمجھتے اور اس کے بجائے بریڈمین کو وائٹ ہیڈلی کہنا پسند کرتے۔ ایک بات جس میں اسے بریڈمین پر برتری حاصل رہی وہ گیلی وکٹوں پر اس کا بہتر ریکارڈ ہے۔ کارڈس کے خیال میں وہ دونوں جنگوں کے درمیانی عرصے میں ہر قسم کی وکٹ کا بہترین بلے باز تھا

بعض اوقات اتفاق انسانی زندگی میں جوہری تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ 30-1929 میں انگلینڈ کے دورۂ ویسٹ انڈیز کے دنوں میں ہیڈلی کا سارا کنبہ امریکہ منتقل ہو رہا تھا۔ پاسپورٹ کے حصول میں تاخیر اس کے لیے خیرِ مستور ثابت ہوئی، اس سے پہلے کہ پاسپورٹ کا اجرا ہوتا، اس نے جمیکا کی طرف سے انگلینڈ کے خلاف سینچری کر کے ویسٹ انڈین ٹیم میں جگہ بنا لی اور پھر کبھی مڑ کر نہیں دیکھا

پاکستانی لیگ سپنرز نے انگلینڈ کے بلے بازوں کو ہمیشہ مشکل میں ڈالا۔ ماضی میں اس کی بہترین مثال عبدالقادر تھے۔ تازہ ترین مثال ابرار احمد کی ہے جس نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کے 11 کھلاڑی آؤٹ کیے

اس کتاب میں پاکستانی لیگ سپنر مشتاق احمد کے کاؤنٹی کرکٹ میں کمالات کو زیر بحث لایا گیا ہے

سیسکس کاؤنٹی 164 برس چیمپیئن شپ جیتنے میں ناکام رہی۔ مشتاق کی کاؤنٹی سے وابستگی کے چھ برسوں وہ تین دفعہ (2003، 2006، 2007) چیمپیئن شپ اپنے نام کرنے میں کامیاب ٹھہری۔ ان تین سیزنوں میں مشتاق نے بالترتیب، 103،102 اور 90 وکٹیں حاصل کیں

سیسکس پہلی دفعہ چیمپیئن شب جیتی تو سٹیڈیم میں اس کے حامیوں کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے جن میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنھیں یہ مبارک دن دیکھنے کے لیے 70 برس سے زائد عرصہ انتظار کرنا پڑا

لیگ اسپنر کے کارناموں کا ذکر ہے تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس کتاب کا آغاز لیگ سپنر آرتھر میلی کے ذکر سے ہوتا ہے جس نے 21 ٹیسٹ میچوں میں 99 وکٹیں حاصل کیں۔
انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں 36 کھلاڑی آوٹ کیے۔ ٹیسٹ میں ایک اننگز میں نو اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں 10 کھلاڑی آؤٹ کیے

میلی کے نزدیک، مزاح کا درجہ کامیابی سے اوپر اور ہمدردی کا جذبہ ذاتی کامیابی پر فوقیت رکھتا تھا۔ اس لیے جوانی میں اسے اپنے ہیرو وکٹر ٹرمپر کو آؤٹ کرنے کا رنج رہا اور یہ عمل اس کے نزدیک ایسا تھا جیسے کسی لڑکے نے فاختہ کو مار دیا ہو۔ میلی نے گلوسٹر شائر کے خلاف ایک اننگز میں 66 رنز دے کر 10 کے 10 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ اس کی یہ کارکردگی اس کی آپ بیتی کے عنوان کا حصہ بنی:
Ten for 66 And All That.
اس کتاب کو بہترین کرکٹ کتابوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ میلی بہت اچھا صحافی تھا۔ اس پر مستزاد عمدہ کارٹونسٹ، جس کی تصدیق اس کی کتاب میں شامل نمونوں سے بھی ہوتی ہے

وہ مصوری بھی کرتا تھا۔ ایک دفعہ کوئین میری اس کی تصویروں کی نمائش دیکھنے گئی تو فن پاروں کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ ایک تصویر کے سامنے رک کر خیال ظاہر کیا کہ میلی نے سورج کو صحیح طرح سے مصور نہیں کیا۔ اس پر مصور نے جواب دیا کہ ’یور میجسٹی! اس ملک میں مجھے یادداشت کی مدد سے ہی سورج کی تصویر بنانی پڑتی ہے۔‘

اتنے گنوں کا حامل شاید ہی کوئی دوسرا ٹیسٹ کرکٹر ہو اور یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ میلی نے عملی زندگی کا آغاز ایک مزدور کی حیثیت سے کیا تھا

سری لنکا کے مارون اتاپتو کے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی ابتدائی ناکامیوں کے بعد کامیابی سے آگے بڑھنے کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ پہلے تین ٹیسٹ میچوں کی چھ اننگز میں اس کی کارکردگی ملاحظہ کریں:
صفر، صفر، صفر، ایک سکور، صفر اور صفر

اس ’شاندار‘ کارکردگی کا دائرہ چار برسوں پر پھیلا ہوا ہے۔ 1990 میں پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ 1992 میں دوسرا اور 1994 میں تیسرا۔ ٹیسٹ کریئر کے آغاز کے بعد اسے دوسرا رنز بنانے کے لیے چھ سال سے زیادہ عرصہ صبر کرنا پڑا۔ 1997 میں ٹیم میں واپسی کے بعد اس نے رفتہ رفتہ قدم جما لیے۔ ابتدائی ناکامیوں کی اچھی طرح تلافی کی۔ 90 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ چھ ڈبل سینچریاں بنائیں۔ سری لنکا کی کپتانی کی

اس کتاب سے اور بھی کئی دلچسپ باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً پیدائش کے وقت عظیم آل راؤنڈر سرگارفیلڈ سوبرز کے دونوں ہاتھوں کی ایک انگلی اضافی تھی جنہیں بچپن میں قطع کر دیا گیا۔ ٹائٹینک کے حادثے میں ایک فرسٹ کلاس کرکٹر بھی جان سے گیا

سیموئیل بیکٹ واحد نوبیل انعام یافتہ ادیب ہے جس نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ 1925 اور1926 میں اس نے ڈبلن یونیورسٹی کی طرف سے نارتھمپٹن شائر کے خلاف دو میچ کھیلے۔ وہ بائیں ہاتھ کا اوپننگ بیٹسمین اور کارآمد لیفٹ آرم میڈیم پیسر تھا

ایک اور نوبل انعام یافتہ مصنف ہیرلڈ پنٹر کا حوالہ بھی اس کتاب میں آتا ہے جو سرلین ہٹن کا بڑا مداح تھا۔ اس کے بارے میں نظم بھی لکھی

اس مضمون کو ہم ہٹلر کے ذکر پر ختم کرتے ہیں جس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ایک برطانوی جنگی قیدی سے کرکٹ سیکھی۔ بلے باز کے پیڈز پہننا اسے بہت کَھلتا تھا ۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ پیڈز پہننا ترک کرا دے کہ انہیں وہ غیر مردانہ اور جرمن قوم کے مزاج کے برخلاف سمجھتا تھا۔

بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close