کیا عمران خان استعفی دے کر سیاسی گیم جیت سکتے ہیں؟

سید مجاہد علی

حکومت کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ الزامات کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عمران خان تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اپوزیشن کی طرف سے سامنے آنے والے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی مختلف طریقے سے ترتیب دیتے تو شاید انہیں اس وقت شدید سیاسی تنہائی کا سامنا نہ ہوتا اور اقتدار ہاتھوں سے سرکتا دکھائی نہ دیتا

ایک آئینی و سیاسی طریقہ کو سازش قرار دے کر کسی اپوزیشن پارٹی کی طرح تصادم کی راہ اختیار کر کے عمران خان نے نہ صرف اپنی سیاسی مشکلات میں اضافہ کیا ہے بلکہ پارلیمانی طریقہ کے مطابق قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت کے اصول کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔ آئینی طریقہ کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے مقررہ 7 روز کی مدت میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر ارکان کی رائے حاصل کرنے کا طریقہ اختیار کرنے کی بجائے، قانونی موشگافیوں کی بنیاد پر اجلاس بلانے میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں

اس دوران اسپیکر اسد قیصر نے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی بجائے حکمران جماعت کا نمائندہ ہونے کا ثبوت دے کر معاملات کو پیچیدہ اور مشکل بنایا ہے۔ وزیر اعظم اپوزیشن پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا رہے ہیں حالانکہ دوسری پارٹیوں کے ارکان خریدنے اور انہیں مختلف قسم کے لالچ دے کر بہلانے پھسلانے کا حقیقی اختیار حکمران جماعت کے پاس ہوتا ہے۔ کسی بھی سیاسی بحران کی صورت میں اس اختیار کو استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے بھی اقتدار میں ساڑھے تین سال کی مدت کے دوران اس طریقہ کو بار بار کامیابی سے استعمال کر کے اپوزیشن کو نیچا دکھایا ہے

اسی لئے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عام طور سے کسی مشکل سیاسی صورت حال میں اپوزیشن پارٹیاں عائد کرتی ہیں۔ لیکن عمران خان کی حکمرانی میں یہ گنگا بھی الٹی بہائی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم خود اپوزیشن پارٹیوں پر اپنی پارٹی کے ارکان کو کثیر نقد رقم کے عوض وفاداری خریدنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ حالانکہ اگر ایسی کوئی صورت حال موجود ہے اور حکومت کے پاس اس کے ٹھوس معلومات اور شواہد فراہم ہیں تو الزام تراشی کے ذریعے درجہ حرارت بڑھانے کی بجائے، یہ ثبوت عام کر کے یا عدالتوں کے ذریعے انہیں پیش کر کے متعلقہ ارکان اور سیاسی لیڈروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی تھی

الزام تراشی اور نعرے بازی سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی رائے عامہ کو تقسیم کرنے اور سیاسی مقاصد کے لئے کرپشن کی طرح اس نعرے کو بھی استعمال کر کے موجودہ بحران سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد سے اپوزیشن لیڈروں کی کرپشن کو ہارس ٹریڈنگ کے لئے مبینہ طور سے ادا کی جانے والی کثیر رقوم کی ادائیگی کے الزام سے ملا کر عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان لیڈروں نے چونکہ قوم کو لوٹا ہے، اسی لئے ان کے پاس اتنی ناجائز دولت ہے کہ وہ اسمبلی ارکان کو بھی خرید سکتے ہیں۔ عمران خان اس سیاسی ہتھکنڈے کی ہلاکت خیزی اور اس کی وجہ سے قومی سیاست میں پیدا ہونے والی تقسیم کے خطرناک مضمرات جاننے پر آمادہ نہیں ہیں کیوں کہ وہ کسی بھی قیمت پر کرسی سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں

اس حوالے سے تو عمران خان اور ماضی کے تمام حکمرانوں کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر ماضی میں سیاسی لیڈر محض دولت کمانے اور قوم کو لوٹنے کے لئے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے تھے اور عمران خان کا مقصد ایک عوام دوست صالح معاشرہ کی تعمیر ہے تو کیا اس مقصد کے لئے صالح اور مہذب طریقے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی؟ اگر عمران خان ہوس اقتدار و اختیار میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ محض پاکستانی عوام کی بہبود ہی ان کا مطمح نظر ہے تو وہ عوامی جلسوں میں سیاسی مخالفین پر پھنکارنے کی بجائے یہ سادہ سا معاملہ جلد از جلد قومی اسمبلی میں لے جانے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟

اور انہیں پارلیمانی طریقہ کے مطابق اسمبلی ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے دس لاکھ حامیوں کا مجمع اکٹھا کرنے کی کیوں ضرورت پیش آ رہی ہے۔ کیا عمران خان کو نہیں جاننا چاہیے کہ کوئی مجمع خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اسے کسی بھی جمہوری انتظام میں عوام کی نمائندگی کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ووٹروں کی کل تعداد ساڑھے گیارہ کروڑ سے زائد تھی۔ فرض کریں عمران خان 27 مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں دس لاکھ لوگ جمع کر بھی لیں تو وہ کیسے پاکستان کے 22 کروڑ عوام اور 12 کروڑ کے لگ بھگ ووٹروں کی نمائندگی کا مظہر ہو گا؟

یوں بھی عام اندازے کے مطابق ڈی چوک میں چند ہزار سے زیادہ لوگ نہیں آسکتے۔ اسے بھرنے والا اگر اسے لاکھوں کا مجمع کہے تو یہ بھی ایسا ہی جھوٹ ہو گا جو اس وقت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کروڑوں روپوں کے عوض سرکاری ارکان کو خریدنے کے حوالے سے عائد کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کی کل آبادی دس لاکھ سے کچھ زیادہ ہے جس میں بچوں اور عمر رسیدہ و لاچار افراد سمیت ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ اگر دس لاکھ لوگ جمع کرنے کے دعوے کو سچ مان لیا جائے تو عملی طور سے اس کا یہ مطلب ہو گا کہ اسلام آباد کی ساری آبادی ڈی چوک میں پہنچے۔ کیا کوئی ذی ہوش اس کا تصور کر سکتا ہے؟

عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا ایک اہم نکتہ حکومت کی نا اہلی اور خراب کارکردگی ہے۔ وزیر اعظم کسی ثبوت کے بغیر ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے دینے کے الزام عائد کر کے درحقیقت اپوزیشن کے اس الزام کی تائید کر رہے ہیں کہ حکومت نا اہل ہے اور وہ عوامی و قومی مسائل حل کرنے کے قابل نہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ملک کے با اختیار وزیر اعظم بار بار روپے دے کر ارکان خریدنے کا الزام لگاتے ہیں لیکن ان کے زیر انتظام کام کرنے والی سرکاری مشینری ایسی غیر قانونی حرکت کا سراغ لگانے اور متعلقہ لوگوں کو گرفتار کرنے کا اقدام کرنے سے قاصر ہے؟

وزیر اعظم ایک ہاری ہوئی جنگ کو الزامات اور سیاسی ہتھکنڈوں سے جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ ایک عوام دوست اور قوم کی بھلائی چاہنے والے لیڈر کے طور پر اپنے امیج کو بھی تباہ کرنے کا سبب بنے ہیں۔ عمران خان جمہوری عمل کے نتیجہ میں ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ انہیں قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت نے قائد ایوان چنا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے محض نظریاتی ہی نہیں عملی طور سے بھی تسلیم کیا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے منشور کے مطابق پاکستان کو ایک بہتر معاشرہ بنانے کی کوشش کریں۔ اگر اسی اسمبلی کے ارکان اب یہ مانتے ہیں کہ عمران خان اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے اور ان کی اکثریت اب ان پر اعتماد نہیں کرتی تو وہ دھونس، دھمکی اور دباؤ کے ہتھکنڈوں سے محض اس عذر پر خود کو قوم پر مسلط نہیں رکھ سکتے کہ وہ ایماندار ہیں اور قوم کی بہتری چاہتے ہیں

اس ملک کا ہر شہری قوم کی بہتری چاہتا ہے۔ شاید ملک کا ہر دوسرا آدمی یہ سمجھتا ہو کہ اگر اسے اقتدار مل جائے تو وہ کایا پلٹ دے اور پاکستان کو جنت نظیر بنا دے لیکن ان سب کو یہ موقع نہیں ملتا۔ عمران خان بھی یہ کہتے ہیں کہ انہیں یہ موقع 22 سال کی سیاسی جد و جہد کے بعد ملا ہے۔ اب ملک میں عام طور سے یہ احساس قوی ہوا ہے کہ عمران خان اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے وعدوں کے مطابق اصلاح کا مقصد حاصل نہیں کرسکے

اس صورت میں انہیں چاہیے کہ عوامی مہم جوئی اور سیاسی جلسوں میں ماحول کو تلخ و زہریلا بنانے کی بجائے، قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اپنا مقدمہ عوامی نمائندوں کے سامنے پیش کریں۔ ملک کے مسلمہ آئینی طریقے سے منتخب ہونے والے ارکان اگر ان کی بات مان لیں تو وہ بدستور وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیتے رہیں، اگر وہ ان پر مزید بھروسا کرنے پر راضی نہ ہوں تو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر کردار ادا کرنے کی کوشش کریں۔ یہی مہذب، جمہوری، آئینی اور سیاسی طریقہ ہے۔ نام بگاڑنا، دھمکیاں دینا، راستہ روکنا، ہارس ٹریڈنگ کے الزام لگانا یا عالمی سازشوں کا انکشاف کرنا ناجائز اور ناقابل قبول ہتھکنڈا ہے۔ اسے اختیار کرنے والے کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ وہ ایک ہارا ہوا لیڈر ہے اور شکست قبول کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا

ملک کی مختصر سیاسی تاریخ میں متعدد لیڈروں نے سیاسی بحران میں باوقار طریقے سے استعفی دے کر ایک طرف ہو جانے کا راستہ چننے کی بجائے، تصادم اور جوڑ توڑ کا طریقہ اختیار کیا لیکن مطالعہ کیا جاسکتا ہے کہ انہیں اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی۔ کسی لیڈر کو سیاسی چیلنج کی صورت میں خود کو عوامی نمائندوں کے سامنے پیش کر کے استعفیٰ دینے اور دوسرے قائدین کو حالات کی بہتری کے لئے اپنا شوق پورا کرنے کی دعوت دینے کی توفیق نہیں ہوئی

عمران خان یہ راستہ اختیار کر کے تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اسپیکر سے درخواست کریں کہ قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طور سے بلایا جائے۔ حکومت کو اگر ایوان مین اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہو تو عمران خان تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا اصرار کرنے کی بجائے استعفی دے کر خود کو ایک باوقار اور بے لوث لیڈر کے طور پر پیش کریں۔ ان کا یہ طرز عمل ان کی ہزار سیاسی کمزوریوں کو چھپا لے گا۔ وہ ایک بار پھر عوامی مقبولیت میں نئی بلندی تک پہنچنے کی امید کرسکیں گے

تاہم ایسا کرنے کے لئے تاریخ سے سبق سیکھنے اور جرات کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ کیا عمران خان ایسی حوصلہ مندی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ کاش وہ یہ سمجھ سکیں کہ باوقار طریقے سے ہار قبول کرنا کوئی میچ جیتنے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح اگلی فتح کا امکان روشن ہوجاتا ہے۔ جیت کے لئے ذلت قبول کرنے والا لیڈر کبھی اچھا رہنما نہیں ہو سکتا ۔ وہ عوام کی نظروں سے بھی گرتا ہے اور تاریخ بھی اسے اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھتی۔

بشکریہ : ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close