ڈیرہ اسماعیل خان میں معلمہ کا قتل: ’لوگ تماشا دیکھ رہے تھے‘

نیوز ڈیسک

ڈی آئی خان – صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کے مطابق تین خواتین نے صفورہ بی بی نامی معلمہ کو توہین رسالت کے نام نہاد الزام میں چھریوں کے وار کر کے اس وقت قتل کیا، جب وہ پڑھانے کی غرض سے مدرسے میں داخل ہو رہی تھیں

یہ واقعہ منگل کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے انجم اباد میں واقع جامعہ اسلامیہ فلاح البنات کے باہر پیش آیا جس کے بعد مقامی افراد کی اطلاع پر پولیس نے تینوں خواتین ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے

ڈیرہ اسماعیل خان کے تھانہ کینٹ پولیس کے مطابق اُنیس سالہ صفورہ بی بی مذکورہ مدرسے میں معلمہ تھیں، جبکہ کسی زمانے میں مقتولہ اور مبینہ حملہ آور خواتین، جن کا تعلق ایک ہی گھرانے سے ہے، اکٹھے ایک ہی مدرسہ میں پڑھتی تھیں

پولیس کے مطابق ان خواتین کے آپس میں علمی اختلافات رہے ہیں

تھانہ محرر عمر نے بتایا کہ حملہ آوروں نے مقتولہ کے گلے کو تیز دھار چھری سے کاٹ ڈالا، جس سے نوجوان خاتون موقع پر ہی دم توڑ گئیں

صفورہ بی بی کے قتل کا مقدمہ ان کے چچا زاہد کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ’آج علی الصبح ساڑھے سات بجے وہ گھر میں موجود تھے، جب مدرسہ کی مہتمم نے ان کے گھر کال کرکے ان کی بھتیجی پر قاتلانہ حملے کی اطلاع دی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ وہاں پہنچے تو صفورہ دم توڑ چکی تھیں

زاہد کے مطابق ’میری بھتیجی مدرسہ میں پڑھاتی تھیں۔ صبح جب وہ رکشے میں وہاں پہنچی تو مدرسے کے باہر تقریباً پانچ خواتین یونیفارم پہنے گیٹ بند ہونے کی وجہ سے کھڑی تھیں۔ صفورہ بھی رکشہ سے اتر کر ان کے پاس کھڑی ہوئیں، جن میں دو بہنوں اور ان کی بھتیجی نے صفورہ پر تیز دھار آلات سے وار کیا۔‘

مقتولہ کے چچا نے ایف آئی آر میں لکھوایا ہے کہ یہ واقعہ علاقہ مکینوں اور مدرسہ والوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی پولیس اور میڈیا کو گواہی بھی دی ہے

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے صحافی عدنان بیٹنی نے بھی اس واقعے کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر رپورٹ کرتے ہوئے مقامی لوگوں کے حوالے سے لکھا کہ ’جب معلمہ کو قتل کیا جا رہا تھا تو وہ مدد کے لیے پکار رہی تھیں، جبکہ لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے۔‘

جامعہ اسلامیہ فلاح البنات میں درس و تدریس سے منسلک مدرسے کے مالک شفیع اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ مبینہ حملہ آور ’خواتین میں سے ایک ملزمہ نے کچھ عرصہ قبل ان کے مدرسے پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہاں صحیح درس نہیں دیا جاتا اور اس میں پڑھنے والے گستاخ ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ بعد ازاں اس خاتون نے اپنی اس بات کی معافی بھی مانگی لی تھی

شفیع اللہ نے بتایا کہ ’صفورہ بی بی پچھلے دو سال سے ہمارے مدرسے میں پڑھاتی رہی ہیں۔ وہ ایک شریف اور نہایت اچھا اخلاق رکھنے والی لڑکی تھیں۔ انہوں نے کبھی پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے خلاف کسی قسم کی گستاخانہ بات نہیں کی‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کا مدرسہ وفاق المدارس سے رجسٹرڈ ہے، جہاں کل 120 طالبات پڑھ رہی ہیں۔

مقامی صحافی نصرت گنڈا پور کے مطابق مقتول خاتون کے خاندان والے ملک سے باہر رہتے ہیں اور وہ اپنے چچا کے گھر میں رہتی تھیں

نصرت گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’وہ رکشے میں مدرسے آرہی تھیں، رکشے سے اتر کر جب وہ مدرسے کی گلی میں داخل ہوئیں تو انہیں تین خواتین نے پکڑ کر ان پر چاقوؤں اور چھریوں سے وار کیے

مقتولہ کے چچا کی مدعیت میں درج مقدمے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ مبینہ واقعہ منگل کی صبح تقریباً سات بجے پیش آیا

مقتولہ کے چچا نے پولیس کو بیان میں کہا ہے کہ جس مدرسے میں ان کی بھیتجی پڑھاتی تھیں وہاں کے مہتمم نے صبح ان کے گھر پر فون کیا اور بتایا کہ مدرسے کے گیٹ پر ان کی بھتیجی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد وہ شدید زخمی حالت میں گلی میں ہی پڑی ہیں

انہوں نے بتایا کہ ”ان خواتین سے ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ‘ان خواتین کی ایک اور رشتہ دار نے خواب میں دیکھا تھا کہ مقتولہ نے توہین مذہب کی ہے’ جس کی وجہ سے انہوں نے قتل کیا“

ڈی پی او کے مطابق ”ہم باقی محرکات پر بھی کام کر رہے ہیں کہ کیا یہ واقعی کسی خواب کی وجہ سے قتل کیا گیا یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ بھی تھی“

پولیس کی رپورٹ کے مطابق مقتولہ کے چچا نے کہا ہے کہ ان کو اس بات کا علم نہیں کہ ان کی بھتیجی اور ملزمان میں عداوت کس بات پر تھی

پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ مقتولہ کے والد اور بھائی بیرون ملک رہتے ہیں، اسی لیے ان کے چچا نے پولیس کو بیان دیا ہے

مقتولہ جس مدرسے میں تعلیم دے رہی تھیں اس مدرسے کے مہتمم مولانا شفیع اللہ نے بتایا کہ مقتولہ عرصہ دو سال سے ان کے مدرسے سے وابستہ تھیں۔ مولانا شفیع اللہ کا دعویٰ ہے کہ ملزمان ایک دوسرے مدرسے کی طالبات اور معلمہ تھیں

پولیس کے مطابق ملزم خواتین میں دو بہنیں اور ایک ان کی کزن ہے جن میں سے ایک خود بھی معلمہ ہے

پولیس کے مطابق بظاہر اس قتل کی وجہ توہین مذہب بتائی جا رہی ہے، لیکن انہیں اب تک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس میں توہین مذہب کا کوئی عنصر سامنے آیا ہو

مدرسہ مہتمم مولانا شفیع اللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کسی قسم کے توہین مذہب کے واقعے کی تردید کی ہے

واضح رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان شہر اور اس کے قریب علاقوں میں تشدد کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ شہر میں کچھ عرصے سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایک ہی روز قبل کلاچی کے علاقے میں ایک پولیس اہلکار کو گھر کی دہلیز پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close