کبھی ہم خوبصورت تھے

وسعت اللہ خان

یہ ریاست کبھی ایسی تو نہ تھی۔ یہ کوئی سنی سنائی نہیں بلکہ میری نسل نے بچشم اس ملک کو جیتا جاگتا، لوگوں کو امنگوں سے بھرا اور قانون کو قانون کی طرح چلتے دیکھا ہے۔ یہ قوم ہجوم تھی نہیں، اسے بہت محنت سے اژدھام میں بدلا گیا

میری عمر ساٹھ برس ہے۔ میں نے جس دور میں ہوش سنبھالا تو گڈ اور بیڈ گورننس یا ریاستی رٹ جیسی اصطلاحات صرف ڈکشنری میں تھیں۔ رعیت کو تو بس اتنا معلوم تھا کہ ٹرانسپورٹ کا مطلب پبلک ٹرانسپورٹ ہے۔ اس میں سوار ہونے کے لیے قطار بنانا پڑتی ہے۔ بس میں ایک باوردی کنڈیکٹر ہوتا ہے، جو ہر مسافر سے کرایہ لے کر ٹکٹ بھی تھماتا ہے۔ اکثر کسی بھی بس میں ایک سادہ کپڑوں والا ٹکٹ چیکر بھی سوار ہو جاتا، جو ہر مسافر سے پوچھتا کہ اسے کنڈیکٹر نے ٹکٹ دیا یا نہیں؟

ہر ریلوے اسٹیشن کے بک اسٹال پر ریلوے ٹائم ٹیبل ایک موٹی سی کتاب کی صورت رکھا رہتا تھا۔ بہت سے مسافر اسے خریدتے بھی تھے۔ ٹرین چار بج کے انیس منٹ پر ہی پلیٹ فارم میں داخل ہوتی تھی۔ ہر بڑے ریلوے اسٹیشن پر کئی ٹونٹیوں والا کولر نصب ہوتا، جس سے مسافر اپنی بوتلوں میں یخ پانی بھر لیتے۔ مسافروں کو رخصت کرنے والے بھی پلیٹ فارم کا ٹکٹ خریدنا نہیں بھولتے تھے

بچہ پانچ برس کا ہوتا تو کوئی بھی گھر والا انگلی پکڑ کے قریب ترین پرائمری اسکول میں لے جا کے داخل کروا دیتا۔ کوئی بچہ بغیر یونیفارم کے اسکول نہیں آ سکتا تھا۔ فیس کا کوئی تصور نہیں تھا۔ کبھی کبھار مداری یا پتلی تماشے کے لیے ہر بچے کو گھر سے دس پیسے ضرور لانا پڑتے تھے۔ سال میں ایک مرتبہ ویکسینیشن ٹیم آ کے ہر بچے کو ٹیکے لگاتی۔ ہوشیار بچوں کو تعلیم جاری رکھنے کے لیے سرکاری وظیفہ ملتا

پولیس تب بھی رشوت لیتی تھی مگر ہر کام کے لیے نہیں۔ میں تب شاید آٹھ برس کا تھا، جب ایک روز خفا ہو کر گھر سے بھاگ کے ایک ٹرین میں بیٹھ گیا۔ ٹکٹ چیکر نے مجھے دو تین اسٹیشن گزرنے کے بعد پکڑ کے ریلوے پولیس کے حوالے کر دیا۔ اگلے دن ایک سپاہی مجھے گھر تک چھوڑنے آیا اور میرے باپ کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اسے فی الحال ڈانٹیے گا نہیں، ورنہ یہ پھر بھاگ جائے گا ہر بار پولیس چھوڑنے نہیں آئے گی۔ میرے باپ نے اس سپاہی کو دس روپے انعام میں دیے

یہ قوم فوج سے بھی بہت محبت کرتی تھی۔ جب پینسٹھ کی لڑائی شروع ہوئی اور فوجی کانوائے ہمارے شہر سے گزرنے لگے تو لوگوں کے ٹھٹ لگ گئے۔ کوئی کسی فوجی کے گلے میں ہار ڈال دیتا۔ کوئی زندہ بکرا چلتے ٹرک پر چڑھا دیتا، کوئی پھڑ پھڑاتی مرغی منت سماجت کر کے کسی فوجی کو تھما دیتا۔ بوڑھی عورتیں ان فوجیوں کے ماتھے چوم کر ہی انہیں آگے جانے دیتیں

میں نے زیریں عدالتوں کے کئی ججوں کو فریقین کو نصیحت کرتے دیکھا کہ کیوں اپنا پیسہ، طاقت اور عدالت کا وقت ضائع کرتے ہو۔ جج وکیل کو بھی سمجھاتا تھا کہ انہیں خوامخواہ ایک دوسرے سے الجھانے کے بجائے چائے پلا کر معاملہ نپٹاؤ۔ اگر ان کی عقل ٹھکانے نہ آئے تو پھر اگلے ہفتے سے سماعت شروع کریں گے۔ انہیں بتاؤ کہ ابھی دلوں میں گنجائش پیدا کر لو گے تو فائدے میں رہو گے، ورنہ برسوں تک ان راہ داریوں میں جوتیاں چٹخاتے پھرو گے۔ یوں اکثر معمولی جھگڑے بنا سماعت کے نپٹ جاتے اور عدالت کو سنگین مقدمات پر دھیان دینے کے لیے ضروری اور اضافی وقت میسر آ جاتا

تب پرائیویٹ ہسپتال بھی آٹے میں نمک برابر تھے۔ یا سرکاری ہسپتال تھے یا پھر مشنری اور متمول برادریوں کے فلاحی شفا خانے۔ بس آپریشن اور ڈلیوری کے پیسے دینے پڑتے تھے۔ ہر سرکاری ہسپتال میں مخیّر شہریوں کی امداد سے چلنے والی انجمن فلاحِ مریضاں بھی ہوتی تھی۔ اس کا کام نادار مریضوں کے علاج معالجے میں مدد کرنا تھا

اکثر دوائیں ہسپتال کی ڈسپنسری سے مفت مل جاتی تھیں۔ گلی محلوں میں پرائیویٹ کلینک ضرور تھے مگر وہ بھی شام کو کھلتے تھے۔معائنے کی فیس میں اسی کلینک سے دوا کی شیشی یا پڑیوں میں بندھی گولیاں مل جاتی تھیں اور مریض تین دن میں ٹھیک بھی ہو جاتا تھا۔ ڈاکٹر اپنے دماغ سے نسخہ تجویز کرتا تھا۔ کسی دوا ساز کمپنی کے دیے گئے قلم سے نہیں لکھتا تھا

ذخیرہ اندوزی اور بنیادی اشیاِ خور و نوش کی من مانی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے ہر محلے میں ایک راشن شاپ تھی۔ راشن کارڈ محکمہ خوراک کے دفتر سے پچیس پیسے فیس کے عوض اسی دن بن جاتا۔ ان راشن شاپس پر سرکاری نرخ پر آٹا، چینی، چائے کی پتی، صابن، گھی وغیرہ ملتا۔ یوں سفید پوش زندگی شکن آلود ہونے سے بچی رہتی

بالائی سطح پر جمہوریت، آمریت، آئینی اکھاڑ پچھاڑ کا کاروبار جاری رہتا مگر عام آدمی کا ریاستی ڈھانچے پر اعتماد متزلزل نہیں تھا

نوآبادیاتی دور میں لاکھ خرابیاں تھیں مگر نچلی سطح پر روزمرہ کا نظام ایک خاص ترتیب و دائرے میں جواب دہی کی پٹڑی پر چلتا تھا۔ جیسے ہی سابق دور کے نظم و ضبط کی عادی اور کام کو کام سمجھنے والی انتظامی مشینری کی مدتِ کار مکمل ہوئی اور اس کی جگہ دیسی جگاڑی انتظام نے لینا شروع کی، تب سے معاملات ہاتھ سے نکلتے گئے۔ سماج ہجوم میں ڈھلتا گیا اور قیادت گینگسٹر ازم میں مبتلا ہوتی چلی گئی۔ نہ پچھلا نظام سنبھالا جا سکا نہ اس سے بہتر نظام بنایا جا سکا

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا (اقبال)

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اُردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close