بلوچستان میں جبری گمشدگیاں: ”والد کے بعد اب بچے کا نام کون رکھے گا“

ویب ڈیسک

کوئٹہ – رواں برس 2 فروری کو نوشکی اور پنجگور میں فرنٹیئرکور کے ہیڈکوارٹرز پر حملے ہوئے۔ اس کے کچھ دنوں بعد کفایت اللہ لاپتہ ہوگئے

کفایت اللہ بلوچ بلوچستان کے ضلع قلات میں ایک اسکول میں معلم کے فرائض انجام دے رہے تھے

کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کفایت بلوچ کی اہلیہ کرن بلوچ نے بتایا ”میرے شوہر کو 11 فروری کی شب گھر سے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ’منگیچر‘ میں میری آنکھوں کے سامنے سے لاپتہ کیا“

جب کرن پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریر پڑھ رہی تھیں تو اس وقت ان کی گود میں ان کا نومولود بچہ بھی تھا، جو ان کے بقول شوہر کی جبری گمشدگی کے پانچ روز بعد پیدا ہوا

کرن بلوچ نے کہا ”ہمارے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے چھٹے روز اس کا نام رکھنا والد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن میرے اس بچے کے معاملے میں ایسا ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ اس کی پیدائش سے پانچ روز قبل ہی اس کے والد کو جبری طورپر لاپتہ کر دیا گیا“

حالیہ دنوں میں رپورٹ ہونے والے ایسے واقعات پر بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے مؤقف کے مطابق، بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دو دہائیوں سے جاری ہے، لیکن رواں برس دو فروری کے بعد سے ان واقعات میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا

تاہم سرکاری حکام نے مسنگ پرسنز کے معاملے کو بنیادی طور پرایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے۔ ایک سینیئر اہلکار کے مطابق ”اس سازش کے تحت دشمن پاکستان کو بدنام کرنے اور عوام کو حکومتی اداروں کے خلاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے“

بلوچ قوم پرست حلقوں کا دعویٰ ہے کہ دو دہائی قبل بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا، جب سابق باوردی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں حالات خراب ہوئے۔ تاہم ان میں اضافہ سنہ 2005ع میں کوہلو میں فوجی آپریشن اور اس کے بعد 2006ع میں نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں مارے جانے کے بعد ہوا

سنہ 2000ع سے اب تک بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بد امنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، تاہم سنہ 2021ع سے بولان اور اس سے متصل علاقوں کے علاوہ مکران اور آواران میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا

اس کے ساتھ ساتھ سیکورٹی فورسز کے کیمپوں (مراکز) پر بھی حملوں میں اضافہ ہوا لیکن یہ حملے شہری آبادیوں سے بہت دور کے علاقوں میں ہوتے رہے۔ تاہم دو فروری 2022ع کو افغانستان سے متصل ضلع نوشکی اور ایران سے متصل ضلع پنجگور کے شہری علاقوں کے قریب فرنٹیئرکور کے ہیڈکوارٹرز پر بڑے حملے ہوئے

وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کے مطابق ان حملوں کے بعد سے نہ صرف دونوں اضلاع بلکہ بلوچستان کے مخلتف علاقوں سے لوگوں کی جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافہ سامنے آیا ہے

ان میں پنجگور سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا پر متحرک سماجی کارکن ملک میران بلوچ اور خضدار سے تعلق رکھنے والے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ایم فل کے طالب علم حفیظ بلوچ بھی شامل تھے

ملک میران گمشدگی کے تین چار ہفتے بعد بازیاب ہوئے۔ تاہم حفیظ بلوچ اب تک بازیاب نہیں ہوئے ہیں اور ان کی بازیابی کے لیے اسلام آباد میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے

وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ پنجگور اور نوشکی میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں، ان کے بعد سے اب تک سو سے زائد لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ستر لوگوں کے رشتہ داروں نے تنظیم سے رابطہ کیا اور ان کے تمام تر کوائف تنظیم کو فراہم کیے ہیں، جن میں یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے طالب علم بھی شامل ہیں

نصراللہ بلوچ کے مطابق ”2 فروری کے بعد سے پانچ افراد کی تشدد زدہ لاشیں بھی ملی ہیں، جن کے رشتہ داروں نے یہ بتایا کہ ان افراد کو مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔“

وی بی ایم پی کے صدر نصراللہ بلوچ کے مطابق فروری سے قبل دو مہینوں کا اگر فروری سے موازنہ کیا جائے تو جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے. ان کے بقول ”دسمبر 2021ع میں وی بی ایم پی نے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے جن افراد کی ڈاکومینٹیشن کی ہے اور ایسے افراد کی تعداد چھبیس تھی۔ ان کے مطابق جنوری میں مجموعی طور پر تینتیس افراد کی گمشدگی کی فہرست تیار کی گئی جبکہ فروری میں گمشدہ ہونے والوں کی تعداد پچاس ہوگئی“

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے وائس چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ کہتے ہیں ”لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان میں پہلے سے تھا اور یہ اب بھی ہے۔ جہاں تک اعداد و شمار کی بات ہے تو یہ ہم اس لیے نہیں کہہ سکتے کیونکہ واقعات ہو رہے ہیں لیکن وہ رپورٹ نہیں ہو رہے ہیں۔ تاہم وی بی ایم پی اور دیگر تنظیمیں یا جو سیاسی جماعتیں ہیں ان کا یہ دعویٰ ہے کہ نوشکی اور پنجگور واقعات کے بعد گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن ہم ان کیسز کو زیادہ تر مانیٹر کرتے ہیں، جو رپورٹ ہوئے ہیں“

انہوں نے کہا کہ ”ایچ آرسی پی کے پاس اکا دکا کیسز رپورٹ ہورہے ہیں اور لوگ بازیاب بھی ہورہے ہیں، جیسے ان واقعات سے پہلے ہورہے تھے۔ ہم کوئی خاص فرق محسوس نہیں کررہے ہیں لیکن بعض تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اضافہ ہوا ہے“

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایچ آر سی پی بطور تنظیم کسی ایک فرد کی جبری گمشدگی کے بھی خلاف ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ جرم ہے اس کا سدباب ہونا چاہیے

نصراللہ بلوچ کے مطابق ”گذشتہ دو دہائیوں سے ہزاروں افراد کو لاپتہ کیا گیا تاہم تنظیم نے مکمل کوائف کے ساتھ جن لوگوں کی فہرست بنائی ان کی تعداد چھ ہزار دو سو پچیس بنتی ہے۔ تاہم ان میں سے جن کی شناخت ہوئی، ان کی تعداد پندرہ ہے، جن کی تنظیم نے فہرست بھی مرتب کی ہے“

ایچ آر سی پی کے عہدیدار حبیب طاہر ایڈووکیٹ کہتے ہیں ”حکومت کا یہ کہنا کہ وہ اس میں ملوث نہیں ہے اور یہ سیاسی معاملہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ درست نہیں بلکہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو بلوچستان میں موجود ہے جسے حکومت سنجیدہ نہیں لے رہی ہے. ہم کہتے ہیں کہ حکومت کو اس کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ جتنے بھی لوگ ہیں ان کو فوراً بازیاب کرنا چاہیے“

سنہ 2019 میں اور اس کے بعد سے چار سو سے زائد افراد کی بازیابی

یاد رہے کہ سنہ 2018ع کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی نے تحریک انصاف کے ساتھ حکومت سازی کے حوالے سے جو معاہدہ کیا اس میں سے ایک نکتہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا تھا

تاہم سنہ 2018ع کے اواخر اور سنہ 2019ع میں بلوچستان میں پہلی مرتبہ خواتین کی بڑی تعداد جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کے لیے سامنے آئی

اس کی سب سے بڑی متحرک آواران سے تعلق رکھنے والے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنما شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ اور شبیرکی اہلیہ بنیں جو کہ شبیر بلوچ کی بازیابی کے لیے کوئٹہ آئیں اور یہ ان لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے علامتی بھوک ہڑتال میں بیٹھنا شروع کیا. اس میں بڑی تعداد میں دیگر لاپتہ افراد کے خواتین رشتہ داروں نے بھی آنا شروع کیا

خواتین کی بڑی تعداد میں احتجاج میں شرکت کے بعد لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم کے عہدیداروں سے بلوچستان کے مشیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے رابطہ کیا اوراس کے بعد وی بی ایم پی کے عہدیداروں کی وزیر اعلیٰ جام کمال سے بھی ملاقاتیں ہوئیں

وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا ”سنہ 2019ع میں بلوچستان حکومت کے ساتھ آٹھ ملاقاتیں ہوئیں، جن کے دوران انھوں نے حکومت کو 890 لاپتہ افراد کے کیسز فراہم کیے ہیں، جن میں سے اب تک 480 لوگ بازیاب ہوئے“

یاد رہے کہ سنہ 2008ع کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے جبری گمشدگیوں سے متعلق جو حکومتی کمیشن قائم کیا گیا تھا، وی بی ایم پی نے تنظیم کی سطح پر اسے بے اختیار قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کیا تھا تاہم لوگ انفرادی طور پر کمیشن کے سامنے پیش ہورہے ہیں

26 فروری 2022 کو کوئٹہ میں پریس کلب کے باہر وی بی ایم پی کے زیر اہتمام ہونے والے مظاہرے میں نوشکی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے کہا کہ ان کے دو بھائیوں آصف بلوچ اور رشید بلوچ کو نوشکی میں زنگی ناوڑ کے سیاحتی مقام سے ان کے متعدد دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جبری طور پر لاپتہ کیا گیا

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے دونوں بھائیوں کے ساتھ ان کے جن دیگر ساتھیوں کو لاپتہ کیا گیا تھا، وہ سارے بازیاب ہوئے لیکن ان کے دونوں بھائی تاحال بازیاب نہیں ہوئے ہیں

خاتون نے کہا کہ جب وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئیں تو انہیں کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے دونوں بھائی لاپتہ نہیں کیے گئے ہیں، بلکہ وہ اپنی مرضی سے بیرون ملک گئے ہیں

انہوں نے دعویٰ کیا ”میرے بھائیوں کی جبری گمشدگی کے گواہ وہ لوگ ہیں جو ان کے ساتھ لاپتہ کیے گئے ہیں لیکن کمیشن والوں نے کہا کہ وہ بیرون ملک گئے ہیں“

لاپتہ افراد کے حوالے سے سرکاری حکام کا موقف کیا ہے؟

جب بلوچستان سے لوگوں کی جبری گمشدگی کے حوالے سے بلوچستان کے مشیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بیس سال سے دہشت گردی کا ماحول چل رہا ہے۔ اس ماحول میں ایسے لوگ ہیں، جو یہاں دہشت گردی بھی کرتے ہیں اور ایسے لوگ ہیں جو باہر ملک بھی گئے ہیں“

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ذرا پیچیدہ ہے کیونکہ کچھ لوگ ریاست کے خلاف کام کرتے ہیں اور ان کے غائب ہونے کی صورت میں ان کو لاپتہ ظاہر کیا جاتا ہے

میر ضیا اللہ نے کہا کہ کچھ لوگ حقیقت میں لاپتہ ہیں اور جب حکومت کو پتہ چل جاتا ہے تو حکومت ضرور کوشش کرتی ہے کہ ان کو بازیاب کرائے لیکن لوگوں کے پاس یہ ثبوت نہیں ہوتے ہیں کہ ان کو کس نے لاپتہ کیا تھا

انھوں نے کہا ”یہ ایک مسئلہ تو ہے مگر اب حکومت کی کوششوں سے بہت سارے لوگ بازیاب ہوکر واپس بھی آگئے ہیں“

ضیا لانگو کا کہنا تھا ”میں نے جب وی بی ایم پی کے لوگوں کو بلایا تو تنظیم کے چیئرمین نے مجھے 392 لاپتہ افراد کی فہرست دی. جب میں نے دو تین ماہ پہلے حال احوال معلوم کیا تو ان میں سے 325 سے 330 لوگ واپس آگئے تھے“

اس سوال پر کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ملکی قانون پر کیوں عمل درآمد نہیں کیا جارہا ہے، ان کا کہنا تھا ”حکومت قانون پر اس وقت ضرور عمل درآمد کرے گی، جب یہ لوگ حکومت کے پاس ہوں“

وی بی ایم پی کی جانب سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارے جانے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جو لوگ مارے جاتے ہیں، وہ دہشت گردی کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز سے مقابلے میں مارے جاتے ہیں

‘اس سلسلے میں حکومت کے پاس کوئی معلومات اور ثبوت نہیں ہیں۔ اگر معلومات اور ثبوت ہوں توریاستی اداروں سے ضرور پوچھا جائے گا’

’مسنگ پرسنز کا معاملہ بنیادی طور پرایک سوچی سمجھی سازش ہے‘

سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ بنیادی طور پر ایک سوچی سمجھی سازش ہے، جس کے تحت دشمن پاکستان کو بدنام کرنے اور عوام کو حکومتی اداروں کے خلاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے

اہلکار نے بتایا کہ حکومت کے قائم کردہ کمیشن کے مطابق مسنگ پرسنز کے 8381 کیسز رپورٹ کیے گئے، جن میں سے 6163 کیسز عدالتی تحقیقات کے بعد ختم کر دیے گئے

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن روزانہ کی بنیاد پر ان کیسز کی سماعت کرتا ہے اور تحقیقات کے مطابق زیادہ تر افراد کو دہشت گرد تنظیمں اغوا کر کے قتل کر دیتی ہیں

سینیئر اہلکار نے بتایا اس کے علاوہ بہت سے لوگ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے گھر والوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ ان کے بقول پی سی ہوٹل پر حملہ کرنے والوں میں شامل حمل فتح اس کی ایک مثال ہے

اہلکار نے بتایا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف چند لوگوں کو امن و امان قائم رکھنے کے لیے گرفتار کرتے ہیں، جن کو تفتیش کے بعد بے قصور ہونے کی صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے

ان کا کہنا تھا ”پاکستان دشمن عناصر دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کر کے لوگوں کو اغوا ور قتل کرواتی ہیں اور جب پاکستانی ایجنسیاں ایسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف ایکشن لیتی ہیں تو ایک سوچی سمجھی چال کے مطابق الزام پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگایا جاتا ہے لیکن حکومت جلد اپنے باشعور اور بہادر عوام کے ساتھ سے ان سازشوں کو ناکام بنائے گی“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close