بلوچستان میں لیشمینیا کے مریضوں میں اضافہ، ’انجکشن کسی کے پاس نہیں‘

کوئٹہ – ژوب کے رہائشی عبدالہادی اپنی دس سالہ بیٹی گل بشرہ کو کوئٹہ کے بے نظیر بھٹو شہید گورنمنٹ ہسپتال میں علاج کے لیے لائے، لیکن تین سو کلومیٹر دور سے آنے کے باوجود بھی انہیں مایوس ہونا پڑا

عبدالہادی نے بتایا ”میری بیٹی کے چہرے پر نکلا ہوا دانا زخم کی شکل اختیار کر گیا ہے، جس کی وجہ سے اسے شدید خارش، تکلیف اور بخار رہتا ہے۔ ڈاکٹر نے اس بیماری کے علاج کے لیے جو انجکشن لکھ کر دیے ہیں وہ نہ سرکاری ہسپتالوں سے مل رہے ہیں اور نہ ہی عام مارکیٹ میں دستیاب ہیں“

گل بشرہ کو کٹینیئس لیشمینیاسس (Cutaneous Leishmaniasis) کی بیماری ہے، جسے عام طور پر لیشمینیا کہا جاتا ہے

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق لیشمینیا، سینڈ فلائی نامی مادہ مکھی کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ اس مرض میں متاثرہ مریض کے جلد پر دانے نکل آتے ہیں، جو بہت زیادہ خارش، سوزش اور تکلیف کا باعث بنتے ہیں

عبدالہادی کہتے ہیں ”میری بیٹی ابھی بہت چھوٹی ہے مگر اسکول جاتے ہوئے اپنا چہرہ چھپاتی ہے اور وہ اب اپنی سہلیوں کے ساتھ بھی نہیں کھیلتی کیونکہ چہرے پر دانا بدنما داغ بن رہا ہے اور بچے اس کا مذاق اڑاتے ہیں“

ان کا کہنا تھا کہ پہلے چند ہفتوں تک ہم اسے معمولی زخم سمجھ رہے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ دانا بڑا ہوتا گیا اور بدنما زخم بن گیا۔ بیٹی کافی کمزور ہوگئی ہے۔ ”ہم نے ژوب میں مقامی ڈاکٹر سے علاج کرایا مگر کوئی فرق نہیں پڑا اس کے بعد کوئٹہ میں جلد کے ایک ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے لیشمینیا کی بیماری تشخیص کی اور کہا کہ اس کا علاج گولوکاٹائم انجکشن ہے، جو مسلسل چودہ سے اکیس دنوں تک لگانے ہوں گے“

عبدالہادی نے بتایا ”اس انجکشن کی قیمت دو سے تین ہزار روپے تک ہے، وہ یہ قیمت ادا کر سکتا ہے لیکن کوئٹہ میں یہ انجکشن کہیں سے مل ہی نہیں رہا۔ ہم نے شہر کے تمام سرکاری ہسپتالوں کے چکر لگائے اور سارے بڑے پرائیوٹ میڈیکل اسٹور بھی دیکھ لیے مگر انجکشن کسی کے پاس نہیں“

عبدالہادی واحد شخص نہیں، جنہیں اس صورتحال کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں لیشمینیا سے متاثر ہونے والے ہزاروں افراد کو اس قابلِ علاج مرض کی دوائی کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں

عالمی ادارہ صحت کے مطابق بلوچستان میں 2017ع سے فروری 2022ع تک لیشمینیا سے نوے ہزار پانچ سو پندرہ افراد متاثر ہوئے ہیں، تاہم ڈائریکٹر جنرل صحت بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے

ڈاکٹر قاضی نے بتایا ”گذشتہ دو ماہ میں بلوچستان کے بائیس اضلاع میں اس بیماری کے چار ہزار جبکہ گذشتہ سال سے اب تک اکیس ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ کوئٹہ، قلعہ عبداللہ، جعفرآباد اور کیچ سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شامل ہیں“

ماہرین کے مطابق پاکستان میں میگلومین اینٹیمونیٹ (گولوکاٹائم انجکشن) لیشمینیا ٹراپیکا کے خلاف واحد آپشن ہے، جو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کٹینیئس لیشمینیاسس کی ایک شکل ہے

ڈی جی ہیلتھ بلوچستان کا کہنا ہے ”لیشمینیا کے علاج کے لیے پاکستان میں کوئی دوائی تیار نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں ایک ہی کمپنی اس کے لیے انجکشن تیار کرتی ہے لیکن پاکستان میں گلوکاٹائم نامی یہ انجکشن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں ہے، اس لیے ہم اسے سرکاری طور پر خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی میڈیکل اسٹور اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے“

ڈاکٹر نور قاضی کے مطابق ”ہم اس بیماری کے علاج کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) اور غیر ملکی فلاحی تنظیم میڈیسینز سانس فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) پر انحصار کرتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے ہمیں چند ہزار انجکشن دیے تھے، جو ختم ہوگئے اس وقت ایم ایس ایف کے مراکز سے ہی علاج کا واحد ذریعہ ہیں“

میڈیسینز سانس فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) نے کوئٹہ میں بے نظیر شہید ہسپتال، بولان میڈیکل کمپلیکس اور کچلاک میں واقع سرکاری ہسپتال میں اس بیماری کے علاج کے تین مراکز قائم کر رکھے ہیں، مگر ان تینوں مراکز میں بھی گذشتہ دو ہفتوں سے یہ انجکشن دستیاب نہیں

کوئٹہ میں ایم ایس ایف کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہمارے مراکز پر ہر روز درجنوں نئے مریض آ رہے ہیں مگر ہم صرف پرانے مریضوں کو مفت انجکشن فراہم کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس ادویات کا اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔ ہم یہ انجکشن بیرونِ ملک سے منگواتے ہیں لیکن اس بار اس کی ترسیل میں تاخیر ہوئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ”ہم نئے مریضوں کی رجسٹریشن کر کے انہیں ’ویٹنگ لسٹ‘ میں شامل کر رہے ہیں اور اب تک اس ویٹنگ لسٹ میں چھ سے زائد افراد اندراج کرا چکے ہیں“

کوئٹہ میں عالمی ادارہ صحت کے ماہر ڈاکٹر داؤد ریاض کے مطابق اس بیماری کے لیے چودہ سے اکیس انجکشنز کا کورس کرایا جاتا ہے۔ روزانہ ایک انجکشن متاثرہ جگہ پر لگایا جاتا ہے، جو بہت تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ اگر چودہ دنوں بعد بھی بہتری نہیں آتی تو سات مزید انجکشن لگائے جاتے ہیں

ان کا کہنا ہے ”اس بیماری کا شکار بہت سے لوگ علاج تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ بہت مہنگا ہے۔ ایک شخص کے علاج پر کم از کم پچاس ہزار روپے تک خرچ آتا ہے۔ یہ بیماری زیادہ تر غریب طبقے کے افراد کو متاثر کرتی ہے، جو ادویات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے یا انہیں بڑے شہروں میں مفت علاج تک رسائی حاصل کرنے کے لیے طویل سفر کرنا پڑتا ہے“

کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں قائم لیشمینیا سینٹر میں موجود ایک متاثرہ مریض کے چچا عبداللہ نے بتایا ”میں لورالائی سے اڑھائی سو کلومیٹر کا سفر کر کے اپنے بھتیجے کو انجکشن لگوانے آیا ہوں ۔ یہاں انجکشن مفت تو مل رہے ہیں مگر رہائش کے لیے انہیں ہوٹل میں کرایہ پر رہنا پڑ رہا ہے۔“

کوئٹہ کے ماہر امراض جلد ڈاکٹر عرفان ترین نے بتایا کہ وہ پریشان ہیں کہ مریضوں کو کیا لکھ کر دیں۔ مجبوراً اسمگل شدہ دوائی تجویز کرنا پڑتی ہے مگر وہ بھی آسانی سے نہیں ملتی

ان کا کہنا تھا ”دوائی کا نہ ملنا اس بیماری کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے“

قانونی طور پر عدم دستیابی کی وجہ سے یہ دوائی بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں۔ کوئٹہ کے جناح روڈ پر ایک میڈیکل اسٹور کے مالک نے بتایا ”ہمارے پاس گلوکو ٹائم انجکشن بھارت، ایران اور افغانستان سے اسمگل ہو کر آتے ہیں۔ آج کل اس کی طلب بہت زیادہ ہوگئی ہے، اس لیے انجکشن کی قیمت بارہ سو روپے سے بڑھ کر تین ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے“

ان کا کہنا تھا ”اگر ڈرگ انسپکٹر کسی میڈیکل سے یہ دوائی پکڑ لیں تو بھاری جرمانہ عائد کر دیتا ہے۔ اس لیے میڈیکل اسٹورز والے اسے چھپا کر رکھتے ہیں اور ہر کسی کو فروخت نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں عام شخص کو دوائی بڑی مشکل سے ملتی ہے“

عالمی ادارہ صحت نے مارچ 2019ع میں پاکستانی حکام کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان میں لیشمینیا کے علاج کے لیے گولوکاٹائم کے نام سے جعلی ادویات فروخت ہو رہی ہیں

لیکن بدقسمتی سے اس تمام تر صورتحال کے باوجود لیشمینیا کے علاج کے لیے دوائی کی رجسٹریشن ابھی تک نہیں ہو سکی، ایسا آخر کیوں ہے؟ اس سلسلے میں وزارت صحت کے ترجمان اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی

ڈائریکٹر جنرل صحت بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی کا کہنا ہے ”ہم نے ڈبلیو ایچ او اور ایم ایس ایف سے مدد مانگی ہے اور ان سے مزید انجکشن عطیہ کرنے کا کہا ہے“

تاہم کوئٹہ میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر داؤد ریاض نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او 2010ع سے ہر سال ہزاروں انجکشن عطیہ کرتا ہے مگر یہ اس مسئلے کا حل نہیں۔ یہ ملیریا کی طرح عام بیماری ہے اس سے جان کو خطرہ نہیں ہوتا اس لیے اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے

ڈاکٹر داؤد ریاض کا کہنا تھا کہ یہ انجکشن چھوٹے پیمانے پر تیار کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ بین الاقوامی مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے۔ بلوچستان حکومت اگر یہ دوائی کچھ قانونی وجوہات کی بنا پر خود نہیں خرید سکتی تو ڈبلیو ایچ او ان کے لیے درآمد کروا سکتی ہے

انہوں نے کہا ’خیبر پختونخوا کی حکومت نے ڈبلیو ایچ او کی مدد سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد انجکشن خرید لیے ہیں، جو ایک اچھا فیصلہ ہے۔ بلوچستان اور باقی صوبوں کواس کی تقلید کرنی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے بلوچستان حکومت کو تین اضلاع میں لیشمینیا ٹریٹمنٹ سینٹرز بنانے کی پیشکش کی ہے

کوئٹہ کے علاقے پشتون آباد کی رہائشی چھبیس سالہ فاطمہ بھی اس بیماری کا شکار رہ چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے کئی رشتے صرف لیشمینیا کی وجہ سے چہرے پر بننے والے اس بدنما داغ کی وجہ سے مسترد ہوئے

ماہر امراض جلد ڈاکٹر عرفان ترین کے مطابق لیشمینیا سے جان کا خطرہ نہیں ہوتا مگر یہ ٹھیک ہونے پر بھی بدنما داغ اور نفسیاتی صدمے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ بیماری انسان سے انسان کو منتقل نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود بعض متاثرین کو امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے

ماہرین کے مطابق لیشمینیاسس میں اضافے کے عوامل میں موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیاں، نقل مکانی، جنگوں کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی اور ان مکھیوں کے مسکن کو پریشان کرنے والی سرگرمیاں شامل ہیں۔ یہ بیماری خاص طور پر ہمسایہ ملک افغانستان سے متصل علاقوں اور ایسے شہروں میں زیادہ پھیلتی ہے، جہاں پناہ گزینوں اور خانہ بندوشوں کی آمد زیادہ ہے

ڈاکٹر عرفان ترین نے بتایا ”کٹینیئس لیشمینیاسس پھیلانے کا سبب بننے والی سینڈ فلائی مکھی بہت چھوٹی ہوتی ہے اور چند فٹ سے زیادہ اوپر نہیں اُڑ سکتی، اس لیے متاثرین میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ یہ مکھی عام طور پر چہرے، گردن، ہاتھ اور پاؤں سمیت جسم کے بے نقاب حصوں پر کاٹتی ہے“

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں کٹینیئس لیشمینیاسس کے سالانہ سات سے دس لاکھ نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ 2020ع میں پچاسی فیصد سے زیادہ نئے کیسز جن دس ممالک میں رپورٹ ہوئے ان میں پاکستان، افغانستان اور عراق بھی شامل ہیں

خیال کیا جاتا ہے کہ جانوروں کی افزائش بھی اس بیماری کے پھیلاؤ میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیوار اور زمین کی دراڑیں ریت کی مکھیوں کے لیے مناسب رہائش فراہم کرتی ہیں

ڈاکٹر عرفان ترین کہتے ہیں ”سردیوں کے اختتام اور موسم بہار کے آغاز پر اس بیماری کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے۔ بیماری سے بچاؤ کے لیے کیڑے مار دوا کا چھڑکاؤ، مچھر دانی کا استعمال اور صفائی کی احتیاطی تدابیر کرنی چاہئیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close