عمران خان کی جانب سے تسلیم کی گئی پہلی غلطی، جو ان کے طرز حکومت کو واضح کرتی ہے

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے ہاتھ میں تسبیح لیے، ٹراؤزر شرٹ میں عمران خان بہت ریلیکس اور خوش باش دکھائی دے رہے تھے

پیر کی دوپہر ایک بجے کے قریب بنی گالہ کے گیٹ نمبر ایک پر گارڈز کے پاس چند صحافیوں کے ناموں کے فہرست تھی جنہیں عمران خان سے ملنے کی خصوصی اجازت دی گئی

ان صحافیوں میں شامل فہیم اختر نے بتایا ”رات کو ملاقات کا پیغام ملا اور یہ ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ عمران خان ہشاش بشاش اور اچھے موڈ میں تھے“

عمران خان نے صحافیوں کو کہا کہ”ہم چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس فائل کریں گے۔ ان کے پاس وقت تھا وہ حلقہ بندیاں کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیں اور ان کی وجہ سے سپریم کورٹ کے سامنے معاملات خراب ہوئے“

لیکن ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس نشست میں عمران خان سے ایک سوال اس ریفرنس کے بارے میں بھی کیا گیا، جو انہوں نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے دائر کرنے کی منظوری دی تھی

صحافی فہیم اختر کہتے ہیں ”ملاقات کرنے والے صحافیوں میں سے ایک نے پوچھا آپ کی وکیلوں سے ملاقات ہوئی تھی اور آپ نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا ایک غلطی تھی“

جواب میں عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ”بالکل یہ بات کی ہے، ہمیں غیر ضروری طور پر عدالتی امور پر بات نہیں کرنی چاہیے تھی“

خیال رہے کہ گذشتہ سال سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کی اکثریت نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریفرنس دائر کرنے کے تمام عمل قانون و آئین کے خلاف تھا

اس کیس کا تعلق جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثہ جات سے ہے تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی عیسیٰ اور اہل خانہ کا ٹیکس ریکارڈ حکام نے غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا

سابق وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے صحافیوں میں ایک اور صحافی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کہا ”اس وقت کی وزارت قانون نے ہمیں کہا تھا کہ یہ ریفرنس لایا جائے، میں اس حق میں نہیں تھا یہ ہماری غلطی تھی، ریفرنس حکومت نہیں لاتی۔ ہم نے اس وقت بھی بہت بات چیت کی وزیر قانون چاہتے تھے کہ یہ لایا جائے“ تو کیا عمران خان کی جانب سے تسلیم کی جانے والی یہ پہلی غلطی ہے؟ جی ہاں ایسا ہی ہے

ذرا پیچھے چلتے ہیں اس ملاقات کی جانب جس کا حوالہ صحافیوں نے اپنے سوال میں دیا

9 تاریخ کو شب 11 بج کر 58 منٹ پر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا آغاز ہوا۔ تحریک کامیاب ہوئی، حکومت ختم ہوئی اور نتیجتاً عمران خان کو گھر جانا پڑا

اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو بنی گالہ میں انصاف لائرز فورم میں شامل وکلا عمران خان سے ملاقات کے لیے بنی گالہ آئے۔ سہ پہر چار سے پانچ بجے کے درمیان یہ ملاقات ہوئی

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس ملاقات میں شامل ایک سینئیر وکیل کے مطابق ان حالات میں لائرز ونگ کی ضرورت تھی اور عمران خان نے بلایا، ہم آئے تو جہاں اور بہت باتیں ہوئیں وہاں یہ بھی نکتہ زیر بحث آیا کہ کیا غلطیاں ہوئیں؟

لائرز فورم میں شامل وکیل کے مطابق ”ہمارے فورم کے سابق صدر عمیر نیازی نے کہا کہ جو قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا یہ نہیں بھیجنا چاہیے تھا، یہ غلط کیا گیا ۔ عمران خان نے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ کیا کرنے جا رہے ہیں“

لائرز فورم کے وکلا کا شکوہ ہے کہ پونے چار سال میں بس ایک مرتبہ ہی فورم کے تین چار سینئر ساتھی عمران خان تک رسائی حاصل کر پائے، ہم سے ریفرنس کے بارے میں نہ مشورہ لیا گیا تھا نہ ہی ہم میں سے کسی کو فروغ نسیم نے اپنی ٹیم میں شامل کیا تھا، ہم تو یہی سمجھتے کہ عمران خان اس سے آگاہ ہیں اور وہ فیصلے کر رہے ہیں“

”پارٹی بڑے فرنٹ پر لڑ رہی تھی ایک سینئیر جج کے ساتھ محاذ آرائی کرنا ٹھیک نہیں تھا۔ فروغ نسیم نے پارٹی کو عدالتوں کے سامنے لا کھڑا کیا تھا، پارٹی کو نقصان پہنچایا“

عمران خان نے تو غلطی تسلیم کی لیکن سابق وزیر قانون، جنہوں نے کئی مقدمات میں اپنا استعفیٰ دے کر بھی بہت محاذوں پر حکومت کی معاونت کی، کا بیان اس سے بالکل مختلف ہے

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایسٹ ریکوری یونٹ براہ راست عمران خان کے ماتحت تھا اور انہوں نے اس کی جانب سے پیش کیے جانے والے مواد کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنے پر اصرار کیا

سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس پر ردعمل میں ٹویٹ کی اور کہا کہ ”بطور وزیر قانون آپ کو ذمہ داری لینی چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ تمام معاملہ آپ نے کھڑا کیا میں نے کابینہ میں کہا ججز کے خلاف ریفرینس بھیجنا حکومت کا کام نہیں اگر الزامات کے ثبوت ہیں تو بار ایسوسی ریفرنس کر لے لیکن آپ کی اصرار پر ریفرینس بھیجا گیا“

ٹوئٹر پر فواد چوہدری اور فروغ نسیم کی ان باتوں پر یوں سمجھیے ایک بھونچال کی کیفیت ہے۔ صارفین فواد چوہدری کی پرانی ٹوئٹس نکال نکال کر ان کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں اور ان سے سوال کر رہے ہیں کہ اگر آپ اس کے خلاف تھے، تو فلاں ٹویٹ کیوں کی پریس کانفرنس کیوں کی؟

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف مئی 2019ع میں حکومت نے ریفرنس دائر کیا تھا

اس وقت کی کابینہ کے دیگر اراکین کا کہنا ہے کہ جو فواد چوہدری نے بتایا دیا ہے، اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے

کابینہ کے سابق رکن ندیم افضل چن، جو اب اپنی پرانی جماعت پیپلزپارٹی میں ہیں، سے پوچھا گیا کہ دونوں وزار بالکل الگ بات کر رہے ہیں سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے تو ان کا مختصراً جواب تھا ”دیکھیں اس روز کابینہ اجلاس میں ہوا کیا اس کی مکمل تفصیل تو میں نہیں بتا سکتا تاہم دونوں وزرا آدھا آدھا سچ بتا رہے ہیں۔ پورا سچ کیا ہے مناسب ہو گا کہ وہ خود بتائیں“

سابق ایف آئی اے ڈائریکٹر بشیر میمن کا دعویٰ ہے کہ انھیں وزیراعظم نے اپنے دفتر میں بلوایا تھا اور وزیراعظم اور وزیر قانون فروغ نسیم دونوں یہی چاہتے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرانس دائر کریں

یاد رہے کی بشیر میمن نے اس سے قبل بھی ایسا بیان دیا تھا، لیکن بعد ازاں وہ اپنی بات سے پھر گئے تھے

فروغ نسیم بشیر میمن سے ہونے والی اس ملاقات کی تردید کرتے ہیں

قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کے بارے میں ایک اہم دستاویز سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ عدالت نے کیس کا مختصر فیصلہ 26 اپریل 2021 کو سنایا تھا اور پھر نو ماہ دو دن بعد نظر ثانی درخواستوں کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ تحریر کیا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے (سابق) چیئرمین بیرسٹر شہزاد اکبر اور وزیرِ قانون فروغ نسیم کی غیر قانونی ہدایات پر ٹیکس حکام نے سرینا عیسیٰ کے مقدمے میں ٹیکس سے متعلق رازداری کے حق کو بھی واشگاف طور پر پامال کیا ہے۔ اضافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ شہزاد اکبر اور فروغ نسیم سرینا عیسیٰ کے خلاف مقدمے میں ٹیکس سے متعلق رازداری کے قانون کو توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں

وزیر قانون اور چیئرمین اے آر یو کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس یحیٰ آفریدی نے لکھا کہ اس عدالت کی جانب سے ان افراد کے اقدامات کو متفقہ طور پر غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود ان کو عہدے پر برقرار رکھنا متحرم وزیر اعظم کے ان خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کو واضح کرتا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close