باتونی بسیا (سلاوی لوک کہانی)

ترجمہ: جاوید بسام

سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ ماہی گیر فطرتاً کم گو ہوتے ہیں۔ وہ شکار کے لیے سمندر میں جا رہے ہوں یا تھکے ہوئے ساحل پر واپس آ رہے ہوں، وہ خاموش نظر آتے ہیں۔ آپ ان کے منہ سے کم ہی الفاظ سنتے ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہی گیر مچھلیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اور مچھلیاں خاموش رہتی ہیں، وہ انسانی آواز کو پسند نہیں کرتیں، وہ ڈر جاتی ہیں۔ اسی لیے مچھیروں کی بیویاں بول چال میں بخل کرتی ہیں اور مائیں باتوں میں الفاظ ضائع نہیں کرتیں۔ مگر دیودار کے جنگل میں ہر درخت سیدھا نہیں اگتا ہے اور نہ مویشیوں کے ریوڑ میں ایسا ہوتا ہے کہ ٹیڑھے سینگوں والی گائے کبھی پیدا نہ ہو۔۔

ماہی گیروں کے ایک گاؤں میں جو سمندر کے قریب آباد تھا۔ وہاں بسیا نامی ایک لڑکی رہتی تھی۔ جس کا عرفی نام چیٹرباکس ( بک بک کرنے والی) تھا اور لوگ یونہی تو عرفی نام نہیں رکھتے۔ بسیا کوئی بری لڑکی نہیں تھی۔ وہ خوبصورت اور نرم دل تھی، لیکن اُس کی آواز میں ایسی گھڑگھڑاہٹ تھی۔ جس سے چڑیاں اور کوے گھبرا کر باغ سے بھاگ جاتے تھے۔ وہ صبح سے شام تک بولتی رہتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی بوری سے اناج کے دانے برتن میں گر رہے ہیں۔

جب موسم خراب ہوتا اور سمندر میں جانا ناممکن ہوجاتا، تو اس کے ابا اپنے کان روئی ڈال کر بند کر لیتے تاکہ بیٹی کی آواز نہ سن سکیں، لیکن بسیا کو اتنی آسانی سے ہرایا نہیں جا سکتا تھا۔ جب وہ دیکھتی کہ ابا اس کی باتوں پر توجہ نہیں دے رہے، تو وہ زور سے چیخ چیخ کر بولنے لگتی۔ آخر بوڑھے مچھیرے کی برداشت ختم ہوجاتی اور وہ کہتا ”بہتر ہے کہ تم سیر کے لیے چلی جاؤ۔۔“

”ٹھیک ہے۔“ وہ غصے سے کہتی اور برتن، پیالے اور دیگچیاں گرانے لگتی، پھر کپڑے بدل کر گاؤں کے لوگوں سے ملنے نکل جاتی۔ وہ ایک پڑوسن سے بات شروع کرتی۔ وہ جلد تنگ آجاتی اور کام کا بہانہ کر کے چل دیتی۔ وہ دوسری کے پاس جاتی مگر کسی کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا۔

ایک صبح جب بسیا بیدار ہوئی تو دیکھا کہ اس کے ابا مچھلی پکڑنے کے اونچے جوتے پہنے سمندر میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ جوں ہی بسیا کی آنکھ کھلی، اس کا منہ بھی کھل گیا اور زبان چلنے لگی۔ وہ بولی ”ابا ابا! سنو میں نے کیسا عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک چمچہ میز پر پڑی ہوئی لوہے کی نمک دانی کے گرد اچھل رہا ہے اور اسے اپنا خواب سنا رہا ہے۔۔ چمچے نے خواب دیکھا کہ اسے نمک دانی نے انگوٹھی دی ہے۔ مگر جب چمچہ سو کر اٹھا تو انگوٹھی نہیں تھی۔ کیا خیال ہے ابا! چمچے نے خواب دیکھا تھا کہ نمک دانی نے خواب دیکھا تھا؟ اور ابا، انگوٹھی تھی یا نہیں؟“

باپ نے جواب میں صرف سر ہلایا۔ مگر بسیا نے ہمت نہیں ہاری۔

”ابا! کیا آپ مجھے ویسی انگوٹھی خرید کر دیں گے؟“

”دفع ہو جاؤ!“ بوڑھے مچھیرے کو آخر غصہ آ گیا، ”کم از کم جب میں مچھلی پکڑنے جا رہا ہوں تو خاموش رہا کرو، تاکہ میں یکسوئی سے اپنا کام کر سکوں۔۔ اس طرح تو ایک مچھلی بھی جال میں نہیں آئے گی۔“

”تو نمک دانی نے چمچ سے کہا مجھے اکیلا چھوڑ دو، مجھے اکیلا چھوڑ دو اور انگوٹھی میں پتھر سمندر کی لہر کی طرح سبز تھا۔۔“ بسیا بولنے سے باز نہ آئی

باپ نے زور سے زمین پر تھوکا، دروازہ پٹخ کر بند کیا اور چلا گیا

بسیا اپنے باپ سے خفا ہو گئی۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے تیار ہوئی اور خواب سنانے کے لیے پڑوسیوں کے پاس چل دی، لیکن بسیا کے لیے وہ بدقسمت دن تھا۔ کسی بھی پڑوسن نے اس کی بات نہیں سنی۔ سب اپنے اپنے کاموں میں الجھے تھے۔ انہوں نے بسیا کو ٹال دیا۔

’کوئی مجھ سے محبت نہیں کرتا۔۔ میری نظر جہاں تک پہنچ رہی ہے، میں وہاں تک جاؤں گی، ہو سکتا ہے کہ مجھے اچھے دوست مل جائیں۔‘ بسیا نے خودکلامی کی اور چل دی

اس کے اٹھتے قدم اسے بہت دور گاؤں سے باہر لے گئے۔ آخر وہ تھک کر ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گئی اور بڑبڑانے ہوئے رونے لگی ’میں واپس نہیں جانا چاہتی ۔ میرے پاس جانے کے لیے کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔۔ وہاں مجھ سے کوئی بات کرنے والا نہیں ہے۔‘

جب وہ رو رہی تھی تو اچانک بہتے آنسوؤں کے پیچھے اسے ایک نوجوان ماہی گیر جھاڑیوں کا گھٹا اٹھائے راستے پر آتا نظر آیا۔ وہ بھی ایک مچھیرا تھا اور گاؤں کے مضافات میں پتھروں سے بنی ایک پرانی جھونپڑی میں رہتا تھا۔ اس کا باپ اُس کی نوعمری میں ہی ڈوب کر مر گیا تھا۔ بعد میں ماں بھی اپنے شوہر کے غم میں مر گئی اور وہ اکیلا رہ گیا۔

نوجوان ماہی گیر بسیا کے پاس آیا اور پوچھا کہ وہ یہاں بیٹھی کیوں رو رہی ہے؟

بسیا کے آنسو ایک دم خشک ہو گئے۔ وہ نیل کنٹھ کی طرح تڑپ اٹھی اور اپنی تمام شکایات جلدی جلدی بیان کرنے لگی۔

مچھیرے نے جواب دیا ”یہ کتنی غلط بات ہے کہ وہ آپ سے گفتگو نہیں کرتے اور میرے پاس کوئی گفتگو کرنے کے لیے نہیں ہے۔“

پھر کچھ سوچ بچار کی اور بولا، ”کیوں نہ ہم شادی کر لیں؟ شاید یہ ہمارے لیے ٹھیک رہے گا۔“

”شادی کر لیں؟ آپ کا نام کیا ہے؟“

”ستشک۔“

”میں بسیا ہوں، لیکن نہ جانے کیوں لوگ مجھے ’چیٹر باکس‘ کہتے ہیں۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ حالانکہ میں زیادہ وقت خاموش رہتی ہوں۔۔ بھلا بتاؤ کیا ہم سوتے ہوئے بات کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! کیا ہم کھاتے وقت بات کر سکتے ہیں؟…بس شاذ و نادر ہی، جب ہمیں کسی کے سوال کا جواب دینا ہو۔ خیر۔۔ میں راضی ہوں، لیکن آپ کو میرے والد سے پوچھنا ہوگا۔ کیا آپ ان سے ملنے آؤ گے؟“

”ضرور، میں ان سے ضرور ملوں گا۔“

دونوں شام کو پھر ملاقات کا وعدہ کر کے رخصت ہو گئے ۔ شام کو ستشک صاف ستھرا لباس پہن کر باسیا کے باپ سے رشتہ مانگنے اس کے گھر آیا۔ اس نے اپنے بارے میں سب کچھ بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں اور مجھے اپنی فرزندی میں قبول کرلیں۔

”زرا اس بارے میں غور کرو! ہاتھ کو ہاتھ روک سکتا ہے، لیکن زبان کو۔۔۔“ والد نے کہا

”کوئی بات نہیں۔ یہ میرے لیے مسئلہ نہیں ہے۔“ نوجوان ماہی گیر نے کہا

”تمہیں خبردار کرنا میرا فرض تھا، تاکہ بعد میں تم یہ نہ کہو کہ مجھے دھوکہ دیا ہے۔“ باپ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا

ستشک اور بسیا شادی کر کے ایک ساتھ رہنے لگے۔ ان کی زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ بسیا دس سوال کرتی، وہ صرف ایک کا جواب دیتا، نو نظر انداز کر دیتا۔

بس ایک چیز بری تھی۔ وہ تنگیِ معاش سے پریشان تھا۔ اس کا جال پرانا تھا، کشتی میں کئی سوراخ تھے اور شادی کے بعد گھر میں اب کھانے والے دو منہ ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں بسیا اچھے کپڑے پہننا بھی پسند کرتی تھی۔

اسی دوران طوفانی موسم شروع ہو گیا، سمندر غصے میں آیا ہوا تھا۔ سات دنوں تک ہوا سیٹیاں بجاتی رہی اور کناروں پر طوفانی لہریں جھاگ اڑاتی رہیں۔ اس موسم میں کوئی مچھلی پکڑنے نہیں جا سکتا تھا، یہاں تک کہ اپنی جھونپڑی سے باہر قدم رکھنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ ان دونوں میں ستشک نے کئی بار بوڑھے ماہی گیر یعنی بسیا کے ابا کو یاد کیا، بیوی کی مسلسل بک بک سے اس کا سر ہل رہا تھا۔ اسے طوفان کے تھمنے کا انتظار تھا۔ ساتویں دن کی شام جوں ہی ہوا تھمی، ستشک جلدی سے جھونپڑی سے باہر بھاگا۔ اس نے صرف اتنا کہا ”میں جا کر دیکھتا ہوں کہیں کشتی ریت میں تو نہیں دھنس گئی؟“

جب ستشک وہاں گیا تو دیکھا واقعی کشتی میں ریت بھری ہوئی ہے۔ اس نے کشتی میں سے ریت ہٹائی اور واپس چل دیا مگر وہ ابھی گھر واپس آنے سے گریزاں تھا۔

اس نے سوچا میں دیر سے گھر جاؤں گا، تب تک شاید بسیا سو جائے گی۔ میں نے سنا ہے کچھ لوگ سوتے میں بھی باتیں کرتے ہیں، اس لحاظ سے میں ایک خوش قسمت آدمی ہوں۔

ستشک ساحل کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، اچانک اسے ایک چٹان کے نیچے سے کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔ وہ رک گیا اور غور کرنے لگا۔ ہاں بالکل کراہنے کی آواز تھی۔ کمزور اور درد بھری۔۔ اس نے قریب جا کر دیکھا، اسے چٹان کے نیچے پتھروں کے درمیان ایک عورت نظر آئی۔۔۔ بلکہ عورت نہیں، سمندر کا ایک عجوبہ۔۔۔ اس کے بال سبز تھے، پانی میں سبز گھاس کی طرح ڈولتے ہوئے اور ٹانگوں کی بجائے ایک کھردری پرت دار دم تھی۔۔۔ ’جل پری! یہ یقیناً جل پری ہے اور کچھ نہیں۔‘ اس نے سوچا

”تم یہاں کیا کر رہی ہو؟“ اس نے پوچھا

”اوہ۔۔۔ بس کچھ نہ پوچھو، سخت طوفانی لہروں نے مجھے سمندر کی تہہ سے اٹھایا، کئی دنوں تک مجھے گھماتی رہیں، مجھے ریت پر گھسیٹا پھر یہاں پتھروں پر لا پھینکا۔“

”میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں، ایسا کرو میرے ساتھ چلو، میری بیوی تمہارے زخموں کی مرہم پٹی کر دے گی۔“ ستشک نے کہا

”میں کیسے جا سکتی ہوں؟ میری ٹانگیں نہیں ہیں۔ میں صرف تیرنا جانتی ہوں۔“

”ٹھیک ہے، پھر میں تمہیں لے چلتا ہوں۔“ ستشک نے کہا

اس نے جل پری کو اٹھایا اور گھر لے گیا۔

باسیا اسے دیکھ کر خوشی سے کھل اٹھی۔ آخرکار اسے ایک ایسی سہیلی مل گئی تھی، جو کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ جس سے وہ اس خدشے س بے نیاز ہو کر بات کر سکتی تھی کہ وہ کہیں چلی جائے گی

بسیا نے فوراً جل پری کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ اس نے زخموں پر مرہم اور پاؤڈر لگایا اور چوٹوں کی سکائی کی۔ وہ اس پر پانی ڈالتی اور اس کے سبز بالوں میں کنگھی کرتی۔ بسیا کے ہاتھ تیزی اور مہارت سے چلتے تھے اور اس کی زبان تو تھی ہی بہت تیز۔۔ بس وہ بولتی رہتی اور جل پری کے کانوں میں الفاظ انڈیلتی رہتی۔

جوں جوں دن گزرتے رہے، جل پری صحتیاب ہوتی گئی۔ آخر ایک دن اس نے سمندر میں واپس جانے کی خواہش کی۔

بسیا آنسو بہانے لگی۔ وہ جل پری سے جدا ہونا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اس کی جدائی پر رنجیدہ تھی، مگر ستشک نے سمندر کے عجوبے کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور ساحل پر لے گیا۔ پھر وہ گہرے پانی میں گیا اور اسے چھوڑ دیا۔

جل پری لہروں پر تیرتی ہوئی بولی ”مہربان آدمی! آپ کا شکریہ! آپ کی بیوی کا شکریہ! وہ اچھی ہے، مگر وہ بہت بولتی ہے۔“

”یہ بات تو ٹھیک ہے۔“ ستشک نے اس کی بات کی تائید کی، ”اگر اس کے ہر لفظ کے عوض مجھے ایک پینی (سکا) ملنے لگے تو ہم جلد امیر ہو جائیں اور میں نیا جال خرید لوں، کشتی کی مرمت بھی کروا لوں۔“

”یہ تم نے اچھی بات کی، ایسا ہونا چاہیے۔۔ میں بہت دیر سے سوچ رہی تھی کہ تمہاری اس خدمت کا کیا صلہ دوں؟ اچھا خدا حافظ!“

”خدا حافظ!“ ستشک نے کہا

پھر جل پری نے اپنی دم لہرا کر چھپاکا مارا اور گہرائی میں چلی گئی

ستشک گھر واپس آیا تو گھر میں سے بولنے اور ٹن ٹن کچھ گرنے کی آواز آ رہی تھی۔ اس نے دیکھا بسیا چولہے کے پاس بیٹھی اس سے باتیں کر رہی ہے اور اس کے منہ سے تانبے کے پینی نکل نکل کر فرش پر لڑھک رہے ہیں

”جل پری نے اپنا کہا پورا کیا!“ ستشک نے کہا

”اچھا یہ اس کا کرشمہ ہے۔۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ میرے منہ سے پینی کیوں نکل رہے ہیں؟“ بسیا نے چونک کر کہا

دونوں جلدی جلدی پینی گن کر ٹوکری میں جمع کرنے لگے۔ بسیا کی زبان مسلسل چل رہی تھی۔ ستشک جتنی دیر میں ایک ڈھیری گنتا، دو اور مٹھی بھر پینی تیار ہو جاتے۔ باسیا کی چلتی زبان اس کی گنتی بھلا رہی تھی۔

”رکو! کیا تم تھوڑی دیر کے لیے چپ نہیں ہو سکتی؟“

”نہیں، میں زیادہ سے زیادہ مزید پیسے بنانے کی کوشش کر رہی ہوں اور آپ مجھے ملامت کر رہے ہیں۔ بس اب میں منہ بند نہیں کروں گی، میں دن رات بولتی رہوں گی۔“

یہ سن کر ستشک خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے اپنی ٹوپی سنبھالی اور دوبارہ سمندر کی اس چٹان کی طرف بھاگا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، اچانک چٹان کے نیچے سے چھپاکے کی آواز آئی اور جل پری پانی کی سطح پر ابھر آئی۔

”تم مجھے ڈھونڈ رہے ہو؟ کیا پھر کچھ غلط ہو گیا؟“اس نے پوچھا

”ہاں، اگرچہ بسیا آپ کے تحفے سے خوش ہے۔۔ مگر اب وہ خاموش ہونے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کہتی ہے کہ میں دن رات بولتی رہوں گی۔“

جل پری یوں ہنسی جیسے گھنٹی بجی ہو اور بولی ”اچھا۔۔۔ اچھا چلو پھر ایسا کرتے ہیں کہ اب ہر لفظ پر نہیں بلکہ جب وہ ایک عقل والی بات کرے گی۔ تب اس کے ہونٹوں سے چاندی کا ایک سکہ نکلے گا۔۔ یہ ٹھیک رہے گا؟“

”ہاں، یہ امر بظاہر برا نہیں لگتا، لیکن کون جانتا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔“ وہ بولا

”تو ٹھیک ہے، پورے چاند کی رات یہاں آنا۔ میں تمہیں یہاں تیرتی ملوں گی۔“

ستشک گھر گیا اور بسیا کو سب کچھ بتا دیا۔

وہ چونکی اور بولی ”ہم کو کیسے پتہ چلے گا کہ کون سی بات عقل مندانہ ہے اور کون سی احمقانہ؟“

”جب چاندی کا سکہ نکلے گا تو تم کو معلوم ہو جائے گا کہ تم نے ایک معقول بات کی ہے۔“

جب نیا چاند نکلا اور ایک پتلی درانتی کی طرح سمندر کے اوپر نظر آنے لگا تو ستشک پہلے ہی چٹان پر جل پری کا انتظار کر رہا تھا۔

وہ تیرتی ہوئی سطح پر آئی اور اپنا ہاتھ لہرا کر پوچھا ”کیا تم نے نیا جال خرید لیا؟ نئی کشتی بنوالی ہے؟“

”ابھی کہاں؟ ابھی چاندی کے تین سکے نکلے ہیں۔ پہلی بار اس نے کہا ’اوہ، میں نے آج یخنی میں زیادہ نمک ڈال دیا۔‘ دوسری بار اس نے کہا، ’سردی ہو رہی ہے۔ اپنی جیکٹ کے نیچے گرم قمیض پہن لو۔‘ اور تیسری بار اس نے سب سے ہوشیار لفظ کہے ’باتیں بہت ہو گئیں، سونے کا وقت ہو گیا ہے۔‘ اور اب اس کے سر میں یہ سودا سما گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بات کرے، وہ مسلسل بول رہی ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ ہوشیار الفاظ زبان پر آئیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں؟ آخر میں گھر سے نکل بھاگا۔“

جل پری نے سوچا۔۔ پھر وہ بولی، ”اپنی بیوی سے کہو۔ اگر وہ پورا دن خاموش رہے تو شام کو اس کے منہ سے سونے کا سکہ نکلا کرے گا۔“

بسیا نے جل پری کی باتیں سنیں اور خاموش ہو گئی۔ وہ بستر پر گئی خاموش، صبح اٹھی خاموش، ناشتہ بنایا خاموش، دوپہر کا کھانا کھایا خاموش، مگر رات کے کھانے پر وہ اچانک ہنس پڑی۔۔

”تم کس بات پر ہنس رہی ہو؟“ شوہر نے پوچھا

”آج ہمسائے کے کتے نے ہماری بلی کا پیچھا کیا اور بلی۔۔۔“

پھر بسیا رک کر اپنا چہرہ پیٹنے اور رونے لگی۔ ”میں سارا دن خاموش رہنے کی کوشش کرتی رہی۔ آخری تم نے مجھ سے سوال کیوں پوچھا؟“

”چلو کوئی بات نہیں“ ستشک نے تسلی دی، ”شاید تم کل خاموش رہ کر سونے کا سکہ حاصل کر لو۔“

اگلے دن بھی کچھ نہیں نکلا۔ بس ایک لفظ بسیا بولی اور سکہ پھر غائب ہو گیا۔

دن گزرتے رہے۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی بیوی کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ وہ پہلے خوش مزاج تھی، مگر اب ایک کونے میں بیٹھی چپکے چپکے روتی رہتی۔ وہ سُرخ سفید اور صحتمند ہوا کرتی تھی، مگر اب اس کا منہ اُتر گیا تھا۔ وہ زرد ہو گئی تھی۔۔ اور ہاں ستشک کو یاد آیا کہ گھر میں ویسی خاموشی چھائی ہوئی ہے، جیسی ان دنوں ہوتی تھی، جب وہ اکیلا رہتا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا رہا حالات بدتر ہوتے گئے۔ بسیا بیمار ہو گئی۔ وہ اتنی کمزور ہو گئی تھی کہ اس سے کچھ کھایا بھی نہیں جا رہا تھا، نہ وہ بول رہی تھی

ستشک بے چینی سے نئے چاند کا انتظار کر رہا تھا۔ جب چاند نکلا تو وہ چٹان پر چڑھ گیا اور تین چاندی اور تین سونے کے سکے سمندر میں پھینک دیے اور چیخ کر بولا ”جل پری! ان تحائف کے لیے تمہارا شکریہ! ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسے ہم پہلے جیتے تھے، ویسے ہی جیتے رہیں گے۔۔ میں مچھلیاں پکڑوں گا اور اپنی بیوی کو چہچہانے دوں گا۔ کیوں کہ اسے اس سے خوشی ملتی ہے۔“

سنا ہے، کہیں دور سمندر کی لہروں میں جل پری ہنس پڑی اور کچھ بڑبڑائی۔ ستشک اس کا یہ مطلب نکال سکا۔ ”اچھا جو بہتر سمجھو!“

جیسے ہی بسیا کو پتا چلا کہ اب خاموش رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ فوراً ٹھیک ہو گئی اور خوش و خرم رہنے لگی۔ ستشک اس کے ساتھ خوش تھا۔ کچھ عرصے بعد اس نے پیسے جمع کر کے جال اور کشتی کی مرمت کروا لی۔ اب اس کے ہاتھ بھرپور شکار لگتا تھا یا تو وہ خوش قسمت تھا یا پھر جل پری اس کے جال میں مچھلیاں ڈال دیتی تھی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close