پاکستانی اور امریکی شہریوں پر مشتمل ایک وفد نے حال ہی میں اسرائیل کا سات روزہ دورہ کیا ہے، جس میں اس نے اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ سمیت اسرائیل کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی
حیرت انگیز طور پر پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے اسے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے
حالانکہ وفد میں ایسے پاکستانی بھی موجود ہیں جن کا میڈیا سے تعلق ہے۔ ان میں سے ایک احمد قریشی ہیں جو سرکاری نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ورژن (پی ٹی وی) سے منسلک ہیں
سوشل میڈیا پر اس دورے کو لے کر شدید تنقید کے ساتھ ساتھ کئی سوالات پوچھے جا رہے ہیں
سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ احمد قریشی کو اسرائیل میں دیکھ کر محض اس لیے ہی حیران نہیں کہ وہ پی ٹی وی کے لیے کام کرتے ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ’وہ حساس نوعیت کے ریاستی اداروں سے وابستہ ہیں‘
شیرین مزاری نے دعویٰ کیا کہ احمد قریشی ایک برس سے زائد عرصے سے ’اسرائیل نواز ایجنڈے کو ہوا دے رہے ہیں‘ اور عمران خان کی آزاد خارجہ پالیسی کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں
انہوں نے ٹویٹ میں کہا: ’یہ بھی تبدیلی سرکار کی امریکہ سازش ہی کا حصہ لگتا ہے۔ یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے اور ہمیں خفیہ اداروں سے نہیں تو ڈی جی آئی ایس پی آر سے باضابطہ جواب درکار ہے‘
سینیٹر مشتاق احمد نے ٹویٹر پر سوال اٹھایا کہ قومی نشریاتی ادارے سے منسلک اینکر کا دورے میں شامل ہونا کیا پاکستان کی پس پردہ ڈپلومیسی ہے؟
انہوں نے کہا ’یہ صحافی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے وکیل ہیں۔ ان کا یہ دورہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے جس کی وزارت اطلاعات اور وزیر خارجہ کو وضاحت دینی چاہیے۔‘
دوسری جانب اسرائیل کا دورہ کرنے والے وفد میں شامل احمد قریشی نے اس حوالے سے کہا: ’یہ ایک پاکستانی نہیں امریکی وفد ہے۔ اس میں پاکستانی نژاد امریکی ہیں، جو واشنگٹن کے ذریعے تل ابیب پہنچے‘
انہوں نے بطور سرکاری ملازم اسرائیل دورے کے الزام کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ نہ وہ پی ٹی وی کے ملازم ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت کرتے ہیں
ان کے بقول وہ کچھ ماہ سے ایک عارضی پروگرام کے میزبان ہیں اور ’یہ وفد مشرق وسطیٰ میں امن کےحوالے سے دبئی میں کانفرنس کے بعد اسرائیل اور فلسطینی رہنماؤں سے ملاقات کرنے گیا جو کہ ایک تعلیمی دورہ ہے، جس پر سیاست کرنا افسوس ناک ہے۔‘
شیریں مزاری کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے پی ٹی وی کے حساس ادارہ ہونے سے متعلق سوال اٹھایا۔
انہوں نے لکھا: ’ڈاکٹر صاحبہ، یہ حساس نوعیت کے ریاستی اداروں کا کوئی نام بتا دیں، مجھے بھی پتہ چلے؟ کیونکہ پی ٹی وی، وزارت خارجہ، غیر ممالک میں ہمارے سفارت خانے، یہ سب ایک طرح سے حسّاس ادارے ہیں، جن کے ساتھ قومی سلامتی پر کام کرنے والے کسی بھی صحافی کا رابطہ ہوتا ہے‘
جبکہ انڈپینڈنٹ اردو نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان کی جانب سے احمد قریشی
اور وفد کے دوسرے رکن فشل بن خالد نے بھیجے گئے سوالات کے جواب نہیں دیے
اس دورے پر سوالات کیوں اٹھائے جا رہے ہیں؟
اس دورے پر سوالات اٹھائے جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح لکھا ہوتا ہے کہ ’اس پاسپورٹ پر ماسوائے اسرائیل دنیا کے کسی بھی ملک میں سفر کیا جا سکتا ہے‘
اس کا واضح مطلب ہے کہ کم سے کم گرین پاسپورٹ پر کوئی اسرائیل کا سفر نہیں کر سکتا۔ اس دورے پر سوال اس لیے اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب پاسپورٹ پر واضح درج ہے تو پھر یہ پاکستانی کس طرح اسرائیل پہنچنے میں کامیاب ہوئے؟ اور ایک سرکاری ٹی وی سے تعلق رکھنے والا صحافی کس طرح اسرائیل جا پہنچا؟
یہ معاملہ اس لیے بھی زیرِ بحث ہے کیونکہ ماضی میں قیاس آرائیاں ہوتی رہی ہیں کہ شاید پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اسرائیل سے قربت بڑھا رہا ہے
اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ہیوم‘ نے اسلام آباد میں موجود ذرائع کے حوالے سے 28 جون، 2021 کی ایک خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے مشیر زلفی بخاری نے گذشتہ سال نومبر میں اسرائیل کا مختصر دورہ کیا
تاہم وزیر اعظم کے مذہبی امور کے مشیر طاہر اشرفی اور خود زلفی بخاری نے اس خبر کی تردید کی تھی
یہی سوالات پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں پارلیمان کے اندر بھی پوچھے گئے اور حکومت نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جا رہا‘
ماضی میں کئی صحافی اسرائیل جا چکے ہیں لیکن حالیہ دورے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اسرائیل جانے والے افراد میں جو صحافی ہیں وہ رپورٹنگ یا اسائنمنٹ پر نہیں گئے بلکہ باقی افراد کے ہمراہ ایک تنظیم ’شراکا‘ کی جانب سے منعقد کیے گئے ایک دورے پر گئے
شراکا، جس کا مطلب عربی زبان میں شراکت داری ہے، ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جسے 2020ع میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے لوگوں نے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کے بعد قائم کیا تھا
اس تنظیم کی جانب سے مدعو وفود بظاہر ایک دوسرے کی تاریخ، معاشرے اور جیوپولیٹیکل حقائق کے بارے میں سیکھنے اور اپنی ثقافت اور نقطہ نظر شیئر کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں
شراکا تنظیم کی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ”وفد نے اسرائیلی صدر سے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے پر اپنی کوششوں سے متعلق بات کی“
شراکا کی اس ٹویٹ کو احمد قریشی اور ان کے ساتھ وفد میں شامل پاکستانی یہودی فشل بن خالد نے ری ٹویٹ کیا
یہ دورہ کس نے منعقد کروایا؟
وفد میں شامل پاکستانی نژاد امریکی انیلہ علی، جو اس دورے کی شریک منتظم ہیں، کا کہنا ہے کہ دورے کا انتظام امریکی مسلم اینڈ ملٹی فیتھ ویمنز امپاورمنٹ کونسل کی پاکستانی نژاد امریکی خواتین رہنماؤں نے ’شراکا‘ کے ساتھ مل کر کیا، جو عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن کو فروغ دینے کے لیے بنائی گئی ہے
انہوں نے مزید بتایا ہے کہ اس وفد میں پاکستانی، بنگالی، امریکی اور ملائیشیا سے اراکین شامل ہیں
وزارت خارجہ کا کیا کہنا ہے؟
اسلام آباد میں وزارت خارجہ میں جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں دورے سے متعلق ایک صحافی نے ترجمان سے سوال پوچھا کہ ’اس وقت پاکستانی شہریت رکھنے والے کچھ افراد اسرائیل کے دورے پر ہیں، جن میں سرکاری نشریاتی ادارے سے منسلک احمد قریشی بھی شامل ہیں، کیا ان کا یہ دورہ سرکاری اسائنمنٹ ہے یا اسرائیل کے ساتھ پس پردہ کوئی معاملہ ہے؟‘
اس کے جواب میں ترجمان وزارت خارجہ عاصم افتخار کا کہنا تھا: ’میرے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں‘
کیا ماضی میں پاکستانی اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سے سینیئر صحافی و تجزیہ نگار وسعت اللہ خان کے مطابق اس سے قبل صحافی اویس توحید، طلعت حسین اور محمد حنیف اسرائیل جا چکے ہیں
ان کے مطابق اسرائیل سے متعلق ریاست کی پالیسی سرکاری اہلکاروں پر تو لاگو ہو سکتی ہے کہ وہ اسرائیل کیوں گئے، کس حیثیت میں گئے، لیکن بطور صحافی انہیں ان قوائد سے استثنی ہونا چاہیے
ان کا کہنا تھا ’صحافی اسرائیل سمیت دنیا میں کہیں بھی جا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی سرکاری اہلکار یا سفیر ہے تو پھر اسے وضاحت دینا ہوگی‘
انہوں نے بتایا کہ حالیہ دورے کا انہیں مکمل علم نہیں، وزارت خارجہ کو اس کا علم ہوگا۔ کوئی سرکاری ملازم این او سی کے بغیر نہیں جا سکتا اور اگر گیا ہے تو این او سی لیا گیا ہوگا
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے وزارت اطلاعات اور وزارت خارجہ بتا سکتے ہیں کہ کس طریقہ کار کے تحت صحافی کو اسرائیل جانے کی اجازت دی گئی اور ان کی اسائنمنٹ کیا ہے
سینیئر صحافی اعجاز احمد کہتے ہیں کہ ماضی میں دیکھا گیا کہ جب بھی پاکستانیوں کو اسرائیل لے جانے کی مہم چلتی ہے، اس دعوت کو قبول کرنے والے افراد جانے سے پہلے قومی سلامتی کے اداروں کو بہت حد تک اعتماد میں لیتے ہیں لیکن عمومی طور پر ایسا دورہ اس وقت ہوتا ہے، جب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی مہم چل رہی ہو
اس حوالے سے وزارت داخلہ اور پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے تاحال کوئی موقف سامنے نہیں آیا.