”موت کا گاؤں“ جنوبی افریقہ میں قتل کے واقعات کی پراسرار کہانی

ویب ڈیسک

یہ کہانی ہے جنوبی افریقہ کے ایک دور دراز کونے میں واقع تین ہزار افراد پر مشتمل ایک خوفزدہ گاؤں زنگقولوینی کی، جہاں تقریباً ایک سال سے ہر ماہ باقاعدگی سے ایک قتل نے کئی مہینوں سے اس گاؤں کے باسیوں کی آنکھوں سے نیند تک تک چھین لی ہے

قتل و غارت گری کے اس وحشیانہ سلسلے کے باعث اس گاؤں کو اب ’موت کے گاؤں‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے

زنگقولوینی گاؤں میں ایک سال کے دوران مجموعی طور پر اٹھارہ افراد کو پراسرار طریقے سے قتل کیا جا چکا ہے، مقتولین میں سے گیارہ متاثرین عمر رسیدہ افراد تھے اور ان میں سے زیادہ تر خواتین تھیں، جو تنہا رہتی تھیں

ان افراد کو رات ڈھلنے کے بعد ان کے گھروں میں چھرا گھونپ کر قتل کر دیا گیا۔ قاتل اپنے پیچھے کوئی سراغ نہیں بلکہ صرف پراسراریت چھوڑ کر گئے

پچاس سالہ نوبونگیلے فہلا کی والدہ متاثرین میں پہلی خاتون تھیں، جنہیں مئی 2021ع میں قتل کیا گیا

قبرستان سے واپسی پر اے ایف پی سے گفتگو میں انہوں نے بتایا ”میں نے اپنی ماں کو دروازے کے پاس خون میں لت پت دیکھا۔ ان کا گلا کٹا ہوا تھا“

اس کے بعد نوبونگیلے کی خالہ کو بھی اسی جھونپڑی نما مکان میں چھرا گھونپ کر قتل کر دیا گیا، جہاں دونوں بہنیں رہتی تھیں

اس واقعے کے بارے میں نہ کسی نے کچھ دیکھا اور نہ سنا

یہ گھر، جنہیں رونڈاویل کے نام سے جانا جاتا ہے، زنگقولوینی میں ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں

یہ ایک ایسا معمہ تھا، جس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہ آتی تھی، کیونکہ جنوبی افریقہ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا!

اگرچہ جنوبی افریقہ دنیا کے سب سے زیادہ پُرتشدد ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ہر بیس منٹ میں اوسطاً ایک قتل ہوتا ہے، لیکن قتل و غارت کی ان لرزہ خیز وارداتوں سے سخت جان پولیس بھی حیران رہ گئی ہے، جہاں تمام متاثرین کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا

ایک سینیئر پولیس تفتیش کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ”وہ واقعی خون بہنے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ کسی نفسیاتی مقصد کے ساتھ عمر رسیدہ افراد کے قتل کا یہ سلسلہ جنوبی افریقہ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا“

ان ہلاکتوں کے سلسلے میں چھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف مقدمے کی سماعت جون میں شروع ہونے والی ہے

مقامی پولیس کا خیال ہے کہ یہ قتل محض چوری کی وارداتیں ہیں، تاہم ایک مقامی عہدیدار سنیکایا کوکی ان لوگوں میں شامل ہیں، جن کا خیال ہے کہ یہ چوروں کا کام نہیں ہے

چونسٹھ سالہ سنیکایا کہتے ہیں ”قتل کے بعد جب لوگ گھر کی تلاشی لے رہے تھے تو انہیں گھر میں پیسے ملے جبکہ دیگر قیمتی سامان بھی ویسے ہی موجود تھا۔۔۔ اب آپ خود سے پوچھیں کہ وہ اس شخص سے کیا چاہتے ہیں، جسے انہوں نے قتل کیا؟“

تفتیش کے دوران اب تک ملنے والا واحد سراغ لباس کا ایک ٹکڑا ہے

پورے گاؤں پراسرار اور بے رحم سیریل کلر کے خوف کی لپیٹ میں ہے۔ کچھ افراد گاؤں سے نقل مکانی کر کے جا چکے ہیں، جبکہ خواتین رات کو ایک ساتھ سونے لگی ہیں

گزشتہ دنوں سیریل جرائم کی تحقیقات کرنے والی خصوصی پولیس یونٹ نے کئی بار اس علاقے کا دورہ کیا ہے۔

ایک تفتیش کار نے بتایا ”قتل کے تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی اکیلے قاتل کا کام ہے. ہر قتل میں ایک ہی طریقہ کار ہوتا ہے۔ قتل ہر مہینے کے شروع میں باقاعدگی سے ہوتا ہے اور اس جرم کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا“

انہوں نے مزید بتایا ”اس منظر نامے کے مطابق قاتل کو بظاہر جوان اور اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ اپنے متاثرین کو زیر کر سکے جبکہ گاؤں کے دور دراز مقام پر ہونے کی وجہ سے وہ شاید قریب ہی رہتا ہے اور ممکنہ طور پر بزرگوں سے نفرت رکھتا ہے“

مذکورہ تفتیش کار کے مطابق ”وہ شخص وہاں رہنے والے لوگوں کو جانتا ہوگا اور ان کو بھی جو اکیلے رہتے ہیں“

تاہم ان واقعات کے باوجود اپنے گھر کے سامنے ایک اسٹول پر بیٹھی مکئی بھونتی بیاسی سالہ نونٹوکونینا بینیانا کہتی ہیں ”میں خوفزدہ ہوں لیکن میں یہاں سے نہیں جاؤں گی“

نونٹوکونینا بینیانا کے بیٹے کو بھی ان واقعات میں قتل کیا جاچکا ہے، تاہم انہوں نے کہا ”اگر وہ میرے لیے آتے ہیں تو میں تیار ہوں۔ میں اپنے ہی گھر میں مر جاؤں گی“

حکام نے مہینوں تک ان ہلاکتوں پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی، لہٰذا شہریوں نے خود اس سلسلے میں قدم اٹھایا اور سات مشتبہ افراد، جن کی عمریں اکیس سے ستائیس سال تھیں، مردہ پائے گئے۔ کچھ کو زندہ جلا دیا گیا جبکہ دیگر کو قریبی جنگلوں میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا

اس سلسلے میں بارہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن پھر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں رہا کر دیا گیا۔۔ اس لیے گاؤں میں ’خاموشی کے ضابطے‘ کے درمیان تفتیش جاری ہے

ایک شخص نے کہا ’یہاں کچھ نہیں ہوا۔‘

اگرچہ حال ہی میں ان واقعات کا سلسلہ رک گیا ہے، تاہم اس نے صورتحال کی پُراسراریت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ لوگ اس قدر خوفزدہ ہیں، کہ اسے طوفان آنے سے پہلے کی خاموشی سمجھتے ہیں

پولیس تفتیش کار نے بتایا ”پولیس کے گشت میں اضافے اور میڈیا کی توجہ نے کچھ وقت کے لیے قتل کے ان واقعات کو روک دیا ہے“

انہوں نے مزید کہا ”کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ سیریل کلر جب بے نقاب ہونے لگتے ہیں تو وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ شاید ہمارا اس سے کہیں اور سامنا ہو“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close