گلگت: سیاح ڈاکٹر کیسے ڈوبنے والے جاں بلب نوجوان کی جان بچانے کا ذریعہ بنیں؟

ّویب ڈیسک

گلگت میں سیر کے لئے آئی لیڈی ڈاکٹر نے جھیل میں ڈوبنے والے لڑکے کی جان بچالی

سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو میں نلتر جھیل کے کنارے ایک لیڈی ڈاکٹر کو اپنے شوہر کے ساتھ جھیل میں ڈوب جانے والے لڑکے کی جان بچانے کے لئے کوششیں کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے

نوجوان لڑکا نلتر جھیل میں اپنے چچا کو بچانے کی کوشش کے دوران ڈوب گیا تھا، اسے جب مقامی لوگوں نے پانی سے نکالا تو لگا کہ وہ آخری سانسیں لے رہا ہے اور اسے بچانے کا کوئی ذریعہ نہیں لیکن موقع پر موجود لوگوں نے اس لڑکے کو ایک نئی زندگی دے دی

گلگت بلتستان کے ضلع گلگت کے قریب وادی نلتر میں سلطان شعیب نے دیکھا کہ کیسے کچھ افراد نے ست رنگی جھیل کے قریب ایک نوجوان لڑکے کی جان بچائی

’انھوں نے انتہائی پھرتی کے ساتھ لڑکے کو ابتدائی طبی امداد دیتے ہوئے اس کی سانس بحال کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ موقع پر سب اپنے سانس روکے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ اس وقت تک اس کی سانس بحال کرتے رہے جب تک وہ لڑکا اُٹھ کر کھڑا نہیں ہو گیا‘

وادی نلتر کی یہ وڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ڈاکٹر قرّۃ العین اور ان کے شوہر چوہدری اسرار ایک نوجوان کو مصنوعی تنفس فراہم کر رہے ہیں

نوجوان کو زمین پر لٹایا گیا اور بروقت سی پی آر ملنے کی وجہ سے اس کی زندگی بچانے میں مدد ملی

سلطان شعیب بتاتے ہیں کہ واقعہ تین دن قبل ست رنگی جھیل کے پاس ایک اور چھوٹی سی جھیل کے قریب پیش آیا۔ دونوں چچا اور بھتیجا خانہ بدوش ہیں اور حالیہ دنوں میں ہی انھوں نے جھیل کے قریب ڈیرے ڈالے تھے۔ یہ دونوں جن کی عمریں کوئی پندرہ سال سے لے کر بیس سال تک ہوں گی وہاں پر اپنے مال مویشیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے

سلطان شعیب کہتے ہیں کہ یہ دونوں چھوٹی جھیل کے قریب کنارے پر موجود تھے کہ اچانک چچا کا پاؤں پھسل گیا اور وہ پانی میں گر گئے۔ بھتیجے نے دیکھا کہ چچا کو پانی سے نکلنے میں مشکل پیش آ رہی ہے تو وہ ان کی مدد کے لیے پانی میں کود گئے

پانی سے پہلے چچا کو نکالا گیا جنہیں فوراً ہی ڈاکٹر قرّۃ العین اور ان کے شوہر کی جانب سے مدد مل گئی اور ان کی جان بچا لی گئی جبکہ بھتیجے کو کچھ وقفے کے بعد نکالا جا سکا۔ دونوں نے ان کی بھی جان بچانے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہ مل سکی

ڈاکٹر قرّۃ العین نشتر ہسپتال ملتان میں ایک کینسر اسپیشلسٹ ہیں جبکہ چوہدری اسرار ملتان کے رڈیو مست 103 کے انچارج اور اینکر ہیں

چوہدری اسرار بتاتے ہیں کہ ان کا پروگرام ضلع مانسہرہ میں ناران جانے کا تھا مگر اُن کے ایک دوست کی خواہش تھی کہ وہ اُن کے ساتھ اکٹھے وادی نلتر کا بھی دورہ کریں

’ہم لوگ ست رنگی جھیل کے پاس سے گزر رہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ بہت سی خواتین اور مرد اکٹھے ہیں اور وہ ایک نوجوان کے پاس رو رہے ہیں۔‘

چوہدری اسرار کہتے ہیں کہ ’ہمارا یہ دورہ اپنے خاندان کے ہمراہ تھا جس میں ہمارے بچے اور خاندان کے دیگر لوگ شامل تھے۔ ہم دو جیپوں پر سوار تھے۔ میں جیپ سے اترا تو اس کے ساتھ ہی ہماری دوسری جیپ سے ڈرائیور اترا اور اس نے فوراً اس جھیل میں چھلانگ لگا دی۔‘

’میں نے نوجوان کو دیکھ کر فوراً اپنی اہلیہ سے کہا کہ فوراً نیچے اترو تمہاری ضرورت ہے۔‘

اتنی دیر میں اُنہوں نے مقامی لوگوں کو آواز لگائی کہ اُن کے ساتھ ڈاکٹر موجود ہے، جس پر نوجوان کو ڈاکٹر قرّۃ العین کے پاس لے آیا گیا

جب اس کو لٹایا گیا تو دیکھا کہ بظاہر اس نوجوان کی نہ تو سانس چل رہی تھی، نہ دل کی دھڑکن تھی جبکہ منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ میں نے فوراً اپنی پیشہ ورانہ تربیت کو بروئے کار لاتے اس کو سی پی آر دینا شروع کر دیا

ڈاکٹر قرّۃ العین کہتی ہیں کہ اُنھوں نے اپنی تربیت کے مطابق اس کے سینے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پوری قوت کے ساتھ پمپ کرنا شروع کر دیا

’میری کوشش تھی کہ اس کی دھڑکن اور سانس بحال ہو جائے مگر شروع کے چند سیکنڈ بہت مایوس کن تھے۔ اس موقع پر میں نے اسرار سے کہا کہ میری مدد کرو اور اپنے منھ سے نوجوان کے منھ پر زور پھونک مارو اس کا سانس بحال کرو۔‘

ڈاکٹر قرّۃ العین کہتی ہیں ’میرا اپنا سانس پھول رہا تھا مگر کوشش جاری رکھی کہ کسی طرح اس کی دھڑکن اور سانس بحال ہو جائے۔ شروع کے چند سیکنڈ گزرنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اس نے پلک جھپکی۔ سانس کی رمق اور دل کی دھڑکن سنی تو اسرار سے کہا کہ تھوڑا زور سے اس کے منھ میں سانس پھونکو۔‘

اس سب کے نتیجے میں نوجوان کی حالت بہتر ہونی شروع ہوئی۔ ہم نے پانچ چھ منٹ تک سی پی آر جاری رکھا، جس کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ مکمل ہوش میں آ گیا اور پھر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا

چوہدری اسرار کہتے ہیں کہ اُن کی جیپ کا ڈرائیور، جس نے پانی میں چھلانگ لگائی تھی، ایک ماہر تیراک تھا

’وہ دوسرے نوجوان کو بہت دور سے جا کر باہر نکال کر لے آیا تھا۔ اس کو ڈاکٹر قرّۃ العین نے دیکھا تو زیادہ وقت گزر چکا تھا اس کی سانس اور دھڑکن بحال کرنا ممکن نہیں تھا۔‘

ڈاکٹر قرّۃ العین کہتی ہیں کہ ان کا تعلق مڈل کلاس خاندان سے ہے۔ بچپن ہی سے اُنہیں ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اور اُنہوں نے ہمیشہ سکالرشپ پر تعلیم حاصل کی ہے

واقعے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ جب اسرار نے کہا کہ تمہاری ضرورت ہے تو وہ سب کچھ بھول گئیں کہ وہ تفریحی دورے پر ہیں اور اُن کے ذہن میں صرف یہی چل رہا تھا کہ اُنہوں نے اس لڑکے کی جان بچانی ہے

ڈاکٹر قرّۃ العین کہتی ہیں کہ اُنہوں نے اس واقعے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک نوجوان کی جان بچانے کی اُنہیں اتنی خوشی ہے کہ وہ بتا نہیں سکتیں، لیکن دوسرے کی جان چلی جانے پر رنجیدہ بھی ہیں

سی پی آر کیا ہے؟

سی پی آر (کارڈیو پلمنری ریسسیٹیشن) ابتدائی طبی امداد کا طریقہ ہے اور اس کا استعمال سیکھنے کے لیے ڈاکٹر ہونا یا طبی عملے سے منسلک ہونا ضروری نہیں ہے

ایوب ٹیچنگ انسٹیٹوٹ ایبٹ آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ایمرجنسی سروسز ڈاکٹر فضل منان کہتے ہیں کہ سی پی آر کا مقصد دل اور پھیپھڑوں کو ہاتھوں سے پمپ کر کے دھڑکن اور سانس کی بحالی ہے

’یہ عام طور پر ان مریضوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جن کی دل کی دھڑکن کی رفتار بہت کم ہو چکی ہو یا ہو رہی ہو اور سانس کی بحالی میں بہت دشواری ہو۔ اس میں چند سیکنڈز اہمیت کے حامل ہوتے ہیں‘

اُن کا کہنا تھا کہ اکثر ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے اور کئی معاملات میں اگر طبی عملہ صرف سی پی آر ہی ٹھیک سے کر دے تو مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے

ڈاکٹر فضل منان کہتے ہیں ”سی پی آر ہمارے نوجوانوں کو لازمی سیکھنا چاہیے۔ کسی بھی وقت اسے کام میں لا کر کسی کی جان بچائی جا سکتی ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close