روبی ڈوبی (کہانی)

راحیلؔ فاروق

شام ہو رہی تھی۔ مجھے لگا شاید ہجوم کم ہو جائے گا۔ مگر لوگ بڑھ گئے۔ روبی نے چٹکی بجا کر کہا ”آپ کو ایک چیز دکھاتی ہوں۔“

”کیا؟“ میں نے ہونقوں کی طرح کہا.

اس نے اپنا بیگ ٹٹول کر ایک چھوٹی سی پیلی ٹکیا نکالی۔ میٹرو بس سروس کا ٹوکن۔

”باہر نہیں لانے دیتے۔ مگر میں تو پھر میں ہوں نا“ وہ ہنسی اور ٹوکن بڑھاتے ہوئے دھیرے سے میرا ہاتھ چھوا۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ کھینچ لیا اور ادھر ادھر دیکھ کر کہا ”تمھارے انکل نہایت گھٹیا آدمی ہیں ویسے۔۔“

وہ شہباز شریف کو انکل کہتی تھی۔ اس نے ٹوکن واپس رکھا اور مجھے اپنی اس چالاکی کی داستان سنانے لگی جس سے وہ یہ ٹوکن چھپا کر میٹرو اسٹیشن سے باہر لائی تھی۔ میں نے توجہ نہیں دی۔ اس نے پھر بھی کہانی جاری رکھی۔ میں نے کہا:

کیا ہے؟

وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

روبی مجھے اس سے سے زیادہ جانتی تھی جتنا میں خود کو جانتا ہوں۔ مگر ایسے تو بہت سے لوگ ہیں۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ میں خوب سوچ سمجھ کر کہہ سکتا ہوں کہ اس جیسی لڑکی نہ میں نے کبھی اس سے پہلے دیکھی نہ اس کے بعد۔ وہ ایک مسحور کن خوشبو کی طرح تھی جو کچرا گھر کے تعفن میں کسی نادر کیمیائی تعامل کے نتیجے میں پیدا ہو گئی ہو۔ یا ایک نظارہ سوز پرچھائیں کی مانند جو اماوس کی رات میں آسیب کے اثر سے نظر آئے مگر نہ آئے۔ یا شاعروں کے تخیل میں بسنے والے اس حسنِ کامل کی صورت جو کسی انسان کے حیوانی بدن میں پھنس کر رہ گیا ہو۔ یا قدرتِ مطلق کے اس پیکر کی مثل جسے توریت کے مطابق اسرائیل نے ایک کشتی میں پچھاڑ ڈالا تھا۔

میں نہیں جانتا کہ روبی کی کیا مثال دوں۔ میں جانتا ہوں وہ کیا تھی اور کیا ہے۔ مگر اس سے زیادہ کچھ کہہ نہیں سکتا کہ وہ کامل تھی مگر اس کا وجود ناقص تھا۔ میں نے اسے کابک میں گرفتار ایک جنگلی کبوتری کی طرح پھڑپھڑاتے ہوئے پایا اور سمجھ لیا کہ وہ جب تک جیے گی پھڑپھڑاتی ہی رہے گی۔ کابک میں خوش تو وہی رہ سکتا ہے جس نے آسمان نہ دیکھا ہو۔

روبی اور میں باغ میں بیٹھے رہے۔ بیٹھے رہے۔ بیٹھے رہے۔ مجھے دیر ہو رہی تھی۔ مگر میں نہیں جانا چاہتا تھا۔ روبی جانتی تھی کہ بھائی آنے والے ہیں۔ مگر نہیں چاہتی تھی کہ وہ آئیں۔ اور وہ بہت دیر تک آئے بھی نہیں۔ ناصر باغ میں مچھر لوگوں سے بہت زیادہ ہو گئے تھے مگر ہم بیٹھے ہاتھ پاؤں کھجاتے رہے۔ روبی نے ایک لڑکے کو دیکھ کر کہا:

سرخ رنگ لڑکوں پر بالکل اچھا نہیں لگتا۔

میرا یہ خیال نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی میں نے آج تک سرخ شرٹ نہیں خریدی۔ ادھر ادھر سے آئی ہوئی پہننی پڑ جائے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ روبی یاد نہ آئی ہو اور میں نے یہ نہ سوچا ہو کہ کہیں وہ مجھے اس شرٹ میں دیکھ نہ لے۔

پھر بھائی آئے اور ہم دونوں یوں سہم گئے جیسے کبوتروں نے بلی دیکھ لی ہو۔ حالانکہ روبی انھیں بتا کر آئی تھی۔ میں تو شاید انھیں لاہور آنے کی اطلاع بھی نہ دیتا۔ مگر بھائی بےنیاز تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ انھیں ہمارے کسی خوف، کسی نفرت، کسی جذبے سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ حسبِ سابق مجھ سے لپٹ گئے اور تیزی سے کہنے لگے:

کیسا ہے تو؟

میں نے کچھ منمنانے کی کوشش کی۔ انھوں نے ادھر ادھر دیکھا اور بولے، یہاں کیوں بیٹھے ہو ابھی تک؟ چلو۔

ہم دونوں نے بلا چون و چرا، میکانکی انداز میں حکم کی تعمیل کی۔ نہ روبی نے پوچھا نہ میں نے کہ حضور، کہاں جانا ہے، کیوں جانا ہے، کیسے جانا ہے۔ بھائی نے میرا ہاتھ تھاما اور باتیں کرتے ہوئے چل پڑے۔ مجھے کچھ خبر نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ میں صرف روبی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ مجھے غصہ آ رہا تھا۔ تشویش ہو رہی تھی۔ مگر جرأت نہیں تھی کہ گردن گھما کے دیکھ ہی لوں وہ آ بھی رہی ہے یا وہیں رہ گئی۔ بھائی کو میں مل گیا تھا۔ وہ بولتے رہے۔ چلتے رہے۔ بولتے رہے۔ چلتے رہے۔ مجھ سے روبی کھو گئی تھی۔ میں انارکلی کے پرشور ہجوم میں گردن ہلائے بغیر اس کے قدموں کی چاپ ڈھونڈتا رہا۔ ڈھونڈتا رہا۔

دوستوئفسکی۔ جھانسی کی رانی۔ زائٹ گائسٹ۔ سو روپیہ، سو روپیہ۔ زوالِ مغرب۔ لو ان دا ٹائم آف کالرا۔ رومیؔ۔ سٹیپس۔ ایکسکیوز می۔ کافکا۔ فرانسیسی انقلاب۔ تپِ دق۔ شیطان۔ ماضی کے مزار۔ او تیری پین نوں۔۔۔

میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

وہ سر جھکائے چلی آ رہی تھی۔

میرا دل کٹ کر رہ گیا۔

میں نے سوچا، کیا یہ باندی ہے؟ بھائی کی کنیز؟ میری لونڈی؟ یا ہم دونوں کی داسی؟ میرا جی چاہا کہ بازار کے سارے زیوارات لوٹ کر روبی کے آگے ڈھیر کر دوں اور گھٹنے ٹیک کر، ہاتھ جوڑ کر کہوں، اے بھٹکی ہوئی اپسرا، تو یہ سب پہن کر بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی جو تو ہے۔ پھر تو یہاں کیوں آ گئی؟ تو بالکل ایک عام عورت ہے۔ بلکہ اس سے بھی کم تر۔ تو یہاں کیوں آ گئی؟ تیری گردن کے خم پر فرشتوں کے مصلے قربان۔ تو یہاں کیوں آئی؟ انارکلی میں؟ نیم تاریکی میں؟ ایک الجھی ہوئی، احساسِ جرم کی ماری ہوئی، بےتوقیر چھوکری کے پنجر میں؟ ہماری غلامی میں؟ کیوں آ گئی تو؟

روبی نے ایک بار کہا تھا۔ می امور، میرا جی چاہتا ہے آپ مجھ پر کچھ لکھیں۔ میں ٹھہرا مثالیہ پرست آدمی۔ مجھے زندگی کے حقیقی حوادث اس قابل ہی معلوم نہیں ہوتے تھے کہ شاعری کی آفاقیت کو چھو سکیں۔ مگر یہ بات روبی نے کہی تھی۔ وہ روبی جو خود ایک مثالیہ تھی۔ جو بولتی تھی تو دھڑکنیں اس کے لہجے کی تال پر شاہ عنایت کا بلھا بن کر ناچنے لگتی تھیں۔ لکھتی تھی تو مجھ جیسے نک چڑھے قاری کا ذوق سجدوں میں گر گر جاتا تھا۔ جس فنکار کا نام اس کے لبوں پر آ گیا اس کے فن اور وجود میں گویا امرت گھل گیا۔ وہ روبی جس سے زیادہ شائستہ، نفیس اور کامل عورت نہ میں دیکھی نہ دیکھنے کی امید رکھتا ہوں۔ وہ روبی جس کی کوتاہیوں میں بھی اس کے پسندیدہ مقولے کے مطابق وہ رعنائی تھی جو شاید فرشتوں کی معصومیت کو نصیب نہ ہو۔ اس روبی نے مجھ سے کہا کہ میں اس پر لکھوں۔ میں نے لکھا۔ اس کے بشری وجود پر لکھا۔ اور روبی کے بعد بہت عورتوں پر لکھا۔ ہر عورت روبی نہیں تھی مگر روبی ایک عورت تھی۔

بھائی نے چلتے چلتے میرے کندھے پر اپنا سرد ہاتھ رکھا اور میری گردن اور خیالات کھٹاک سے سیدھے ہو گئے۔ ہم روبی کی قیام گاہ پہنچ گئے۔ بھائی نے اس سے کہا:

تم جاؤ۔

وہ لرزنے لگی۔

نہیں۔

بھائی نے ڈپٹ کر کہا۔

جاؤ۔

روبی نے میری طرف دیکھا۔ مجھے وہ اس زخمی چڑیا کی طرح نظر آئی جسے میں نے بچپن میں ایک بار گرمیوں کے موسم میں پکڑ لیا تھا۔ اس کے پر جھڑ گئے تھے۔ صورت مسخ ہو گئی تھی۔ میری انگلیوں کے درمیان اس کا دل دیوانوں کی طرح ٹکرا رہا تھا۔ اس کا کپکپاتا ہوا بدن تپ رہا تھا اور پسینے اور لہو میں بھیگ چکا تھا۔ میں نے مسکرانے کی کوشش کی اور پھر گھگیا کر کہا:

ہاں، ٹھیک۔ تم آرام کرو۔

وہ یکایک میری جانب بڑھی۔ میں گھبرا گیا۔ اس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔

یہ لے جائیں۔

میں نے سراسیمہ ہو کر بھائی کی طرف دیکھا۔ وہ بت بنے کھڑے تھے۔ میں نے زور سے کہا۔

نہیں۔

وہ مڑی اور دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ بھائی نے میرا ہاتھ تھاما اور چلنا چاہا۔ مگر میں جم گیا۔ مجھے نہیں معلوم ان پر کیا گزری کیونکہ میں ٹکٹکی باندھے روبی کو دیکھ رہا تھا۔ وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ مجھے اس پار سے اس کے آنسو نظر آنے لگے۔ اس کا ڈوبتا ہوا دل نظر آنے لگا۔ اکھڑتی ہوئی سانسیں اور ٹکریں مارتی ہوئی نبضیں دکھائی دینے لگیں۔ ابلتا ہوا لہو نظر آنے لگا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ واپس مڑی۔ مجھے لگا کہ ابھی میں دیوانہ وار بھاگ کر اس تک پہنچوں گا اور کہانی ختم ہو جائے گی۔ یا شاید وہ دوڑ کر میرے سینے سے آ لگے گی اور بھائی مر جائیں گے۔ مگر چھاتی ہوئی رات میں میں یہی دیکھ سکا کہ حسنِ کامل کے اس ناقص ہیولے نے لڑکھڑا کر رخ بدلا اور گھپ اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔

روبی بتایا کرتی تھی کہ وہ مجھے چھپ کر دیکھتی ہے۔ میں نے تو اسے کھلی آنکھوں سے بھی خواب کی طرح دیکھا ہے۔ لہٰذا میرے لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اسے بھائی سے محبت تھی یا مجھ سے۔ میں اس تگڈم کے بارے میں صرف یہ جانتا ہوں کہ وہ انسان کی عاشق تھی۔ بھائی تخیل کے اسیر تھے۔ اور میں؟

یہ تو روبی ڈوبی ہی بتا سکتی ہے۔

بشکریہ: اردوگاہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close