درگاہ لواری شریف: گدی نشینی پر قتل کے 15 ملزمان 39 سال بعد بری

ویب ڈیسک

سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ روز ضلع بدین کی درگاہ لواری شریف کی گدی نشینی کے تنازع کے دوران 1983ع میں سات افراد کے قتل میں نامزد کل بتیس میں سے زندہ بچ جانے والے پندرہ ملزمان کو بری کر دیا ہے

کیس کے وکیل محمود اے قریشی ایڈووکیٹ کے مطابق تنازع کے دوران قتل ہونے والے سات اور زخمی ہونے والے تین افراد کے مقدمے میں کل بتیس افراد کو بطور ملزم نامزد کیا گیا تھا

عدالتی حکم نامے کے مطابق 1983ع میں درگاہ لواری شریف کے گدی نشین پیر گل حسن کے انتقال کے بعد دو گروہوں میں تناؤ پیدا ہو گیا تھا

مقدمے کے ملزمان کا گروہ پیر فیض محمد کو گدی نیشن بنانا چاہتا تھا، جبکہ مقدمے کا مدعی گروپ اس کا مخالف تھا

28 جنوری 1983ع کی دوپہر دو بجے ہونے والے ایک حملے میں مدعی گروپ کے سات افراد قتل اور تین زخمی ہو گئے تھے۔ واقعے کا مقدمہ بدین تھانے میں دائر کیا گیا تھا۔ تحریری فیصلے کے مطابق مقدمہ سترہ سال ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت رہا

عدالتی فیصلے کے مطابق مقدمے کے ملزم گروپ کے بتیس افراد کو کیس میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمے میں نامزد بتیا افراد میں سے دو مفرور تھے، جبکہ دو ملزمان کو مقدمے کے دوران بری کردیا گیا تھا۔ تین ملزمان سماعت شروع ہونے سے پہلے انتقال کر گئے تھے جبکہ آٹھ ملزمان سماعت کے دوران انتقال کر گئے۔ باقی سترہ افراد کو سزا ہوگئی تھی۔ سزا کے دوران دو ملزمان کا انتقال ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد باقی پندرہ ملزمان نے ضمانت لے کر سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی

ملزمان کی اپیل پر فیصلہ آتے آتے مزید بائیس سال لگ گئے۔ آخرکار انتالیس سال کے بعد بدھ کو مقدمے کا حتمی فیصلہ سنا دیا گیا

جسٹس عمر سیال نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیس کا ریکارڈ غیر ضروری طور پر طویل بنایا گیا۔ کیس میں غیر ضروری طور پر بار بار طویل جرح کی گئی۔ اپیل کنندہ میں سے کوئی بھی شواہد کی روشنی میں سات افراد کے قتل میں ملوث نہیں پایا گیا اور پراسکیوشن ملزمان کے خلاف کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے

بعد ازاں محمود اے قریشی ایڈووکیٹ نے فیصلے پر خوشی کا ظہار کرتے ہوئے کہا عدالتی نظام کے تحت یہ کیس چھبیس سال ہائی کورٹ میں چلتا رہا اور ملزمان چھبیس سال تک مسلسل پیشیوں پر آتے رہے

محمود اے قریشی ایڈووکیٹ کے مطابق: ’اس طرح اتنے سالوں تک بار بار آنا تو اصل سزا سے بھی زیادہ سزا ہو گئی۔ مگر خوشی ہے کہ آخرکار اس کیس کا فیصلہ ہو گیا۔‘

1983 میں ہونے والے تنازعے کے بعد صوبہ سندھ کی بے شمار درگاہوں میں سے ایک ’لاڑ‘ میں واقع یہ قدیمی درگاہ سینتیس سال تک مکمل طور پر بند رہی

واضح رہے کہ درگاہوں میں زائرین کی طرف سے دیے جانے والے بے تحاشا نذرانوں کی وجہ سے اکثر گدی نشینی کے معاملات پر کشیدگی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں

لنواری کی درگاہ کی بندش کے دوران دونوں مخالف گروہوں بشمول پیر فیض محمد کے حامیوں کے گروپ اے اور پیر گل حسن کے حامیوں کے گروپ بی میں مسلسل تناؤ رہا

دو سال قبل جنوری 2020ع میں درگاہ کو سینتیس سال کے بعد زائرین کے لیے کھولا گیا۔ اس وقت کرونا وائرس کی پابندیوں کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ درگاہ پہنچے تھے

ضلع بدین میں واقع یہ درگاہ نقش بندیہ سلسلے سے تعلق رکھنے والے خواجہ محمد زمان لواری شریف کی ہے، جو سندھی کے کلاسک شاعر بھی تھے

جنوبی سندھ کے اضلاع ٹھٹہ، بدین، سجاول اور ٹنڈو محمد خان کا شمار زیریں سندھ میں ہوتا ہے، جسے اس نسبت سے لاڑ پکارا جاتا ہے۔ درگاہ لواری شریف کے نام سے مشہور یہ درگاہ بدین شہر سے تقریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع لواری شریف شہر میں واقع ہے

اس درگاہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ زائرین یہاں آ کر باقاعدہ حج سے ملتے جلتے مناسک کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس لیے ہر سال 9 اور 10 ذوالحج کو یہاں کرفیو لگایا جاتا ہے اور کسی بھی فرد کو ان دو دنوں کے دوران شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی اور یہ کرفیو کے نفاذ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کرفیو کے دوران لواری شریف شہر کی دیگر درگاہوں کو بھی سیل کر دیا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close