ایشیا میں الیکٹرک موٹر بائیکس کا بڑھتا استعمال اور پاکستان میں اس کا مستقبل

ویب ڈیسک

اگر ہم الیکٹرک وہیکل کی بات کریں تو ذہن میں فورا ٹیسلا یا کسی ملتی جلتی کار کا تصور آتا ہے لیکن ایشیا میں الیکٹرانک وہیکلز کے غلبے کی جنگ موٹربائیکس پر لڑی جا رہی ہے

ایشیا کے زیادہ تر ملکوں میں جائیں تو فوری طور پر ایک بات جو سامنے آتی ہے، وہ ہر جانب دوڑتے بھاگتے موٹر سائیکل ہیں۔ جو اکثر ایک فیملی کار کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں کیوں کہ یہ سستے ہیں

ایشیا میں موٹر سائیکلز کی اکثریت پیٹرول پر چلتی ہے لیکن ٹرانسپورٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب الیکٹرانک موٹر سائیکل کا رواج تیزی سے بڑھ رہا ہے

اکنامسٹ انٹیلیجنس یونٹ میں آٹو موٹیو تجزیہ کار اروشی کوٹیچا کہتی ہیں ”ایشیا میں الیکٹرانک موٹر بائیکس کی فروخت میں تیزی کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا میں کمائی اب بھی بہت کم ہے جس کی وجہ سے گاڑی خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ پھر خصوصاً ایسے وقت میں جب کھانے پینے اور فیول کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں، جس کی وجہ سے پیٹرول پر چلنے والی گاڑی رکھنے کا خرچہ بھی بڑھ گیا ہے، اسی لیے لوگ تیزی سے الیکٹرک موٹر بائیکس کی جانب راغب ہو رہے ہیں“

اروشی کا ماننا ہے کہ ایشیا میں بجلی سے چلنے والی موٹر بائیکس کی فروخت میں رواں دہائی کے آخر تک موجودہ سطح سے تین سے چار گنا اضافہ ہو جائے گا

واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں ایک رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ دنیا بھر میں الیکٹرک موٹر سائیکل کی فروخت 2020ع میں 15.73 15 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2030 تک 30.52 ارب ڈالر یعنی دوگنی ہو جائے گی

الیکٹرانک موٹر بائیک کیا ہے؟

الیکٹرانک موٹربائیک الیکٹرک پش بائیک، جسے ای بائیک بھی کہا جاتا ہے، سے مختلف ہوتی ہے

ای بائیکس ایسی بائی سیکل ہوتی ہے، جس کے پیڈل ہوتے ہیں لیکن الیکٹرانک موٹر پیڈل چلانے میں مدد فراہم کرتی ہے

الیکٹرک پش بائیک کی طاقت اور رفتار محدود ہوتی ہے۔ برطانیہ میں ای بائیک ڈھائی سو واٹ تک کی ہوتی ہے جو صرف پندرہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے

اس کے مقابلے میں الیکٹرک موٹر بائیک پیٹرول پر چلنے والے بائیک جتنی ہی طاقت ور اور تیز رفتار ہو سکتی ہے اور اس کے لیے لائسنس بھی ضروری ہوتا ہے

اسکوٹر کے لفظ کے استعمال سے بھی کنفیوژن پیدا ہوتا ہے جس کے دو مطلب ہیں۔ پہلا اسکوٹر ایسا موٹر بائیک ہے، جس میں پیر آگے کی جانب کر کے بیٹھتے ہیں۔ اسکوٹر کی دوسری قسم کک اسکوٹر ہوتی ہے، جس میں چلانے والا ایک پتلے بورڈ پر کھڑا ہوتا ہے اور ایک لمبا ہینڈل بار پکڑ کر اسے استعمال کرتا ہے۔ کک اسکوٹر کی یہ قسم ای سکوٹر کہلاتی ہے اور برطانیہ اور یورپ میں کافی مشہور ہے

اس وقت چین الیکٹرانک موٹر بائیکس کی عالمی پیداوار میں چھایا ہوا ہے

بیجنگ کی این آئی یو ٹیکنالوجیز، جس نے سب سے پہلا ماڈل 2015 میں لانچ کیا تھا، اس وقت سب سے بڑا ادارہ ہے جو ایسی موٹر بائیکس بنا رہا ہے

اس فرم کے ڈائریکٹر گلوبل اسٹریٹجی جوزف کونسٹینٹی اپنی کمپنی کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں ”اگر ٹیسلا اور ویسپا کا بچہ ہوتا تو وہ ہم ہیں“

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ الیکٹرانک موٹر بائیک چین میں پہلے سے موجود تھے، انہوں نے بھاری لیڈ ایسڈ بیٹری کا استعمال کیا اور ان کی کمپنی ٹیسلا یا موبائل فون میں استعمال ہونے والی جدید لیتھییئم بیٹری والی الیکٹرانک موٹر بائیک بیچنے والی پہلی کمپنی تھی

وہ کہتے ہیں ”ہم ایک طرح سے اس وقت چین اور دنیا کی مارکیٹ میں ایسا کرنے والے پہلے لوگ تھے“

چین میں الیکٹرانک موٹر بائیک کی فروخت کے لیے حکومت بھی مدد دے رہی ہے جس کا مقصد ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہے

لیکن کمبوڈیا اور لاؤس جیسے ممالک میں یہ انڈسٹری بلکل صفر سے شروع ہوئی ہے

چینی آٹو موٹیو انالسس فرم سائینو آٹو انسائٹس کے بانی اور مینیجنگ ڈائریکٹر ٹو لی کا کہنا ہے ”ایشیا میں الیکٹرک موٹر بائیکس عام ہونے سے پہلے بہت سے معاملات درست کرنا ہوں گے۔ ایک اہم معاملہ چارجنگ اسٹیشنز کی کمی کا بھی ہے جو دیہی علاقوں میں الیکٹرک موٹر بائیکس کے استعمال کو مشکل بناتا ہے“

جہاں بڑی یاماہا اور ہونڈا جیسی جاپانی کمپنیاں بھی اب الیکٹرک ماڈل بنا رہی ہیں، ایشیا کی مارکیٹ کی سربراہی نئی کمپنیاں کر رہی ہیں

تائیوان کی گوگورو بھی ایک ایسی کمپنی ہے جو الیکٹرک موٹر بائیک بنانے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کا حل بھی نکال رہی ہے کہ بائیک چارج کرتے ہوئے کسی کو کھڑا نہ ہونا پڑے

چارجنگ پوائنٹس کی بجائے، تائیوان میں گوگورو کے صارفین بائیس سو اسٹورز میں سے کسی پر بھی جا کر پرانی بیٹری دے کر نئی بیٹری مفت حاصل کر سکتے ہیں

کمپنی اب بیٹری بدلنے والی ہارڈ ویئر اور اس کی ٹیکنالوجی ایشیا میں دیگر پارٹنر کمپنیوں کو بھی دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جن میں بھارت میں ہیرو، انڈونیشیا میں گوجیک اور چین میں ڈی سی جے اور یاڈیا شامل ہیں۔ گوگورو یاماہا کے ساتھ بھی شراکت داری قائم کرنے پر کام کر رہی ہے

گوگورو کے چیف ایگزیکٹیو ، ہوریس لوک کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی الیکٹرک موٹر بائیک کی دنیا کا اینڈرائڈ بننے کی کوشش کر رہی ہے

وہ اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے ایک موبائل فون سسٹم جدت کو فروغ دیتا ہے، اسی طرح ان کی کمپنی بھی بیٹری مینیجمنٹ سافٹ ویئر دوسری کمپنیوں کو فراہم کرنا چاہتی ہے جس کی مدد سے بیٹری کی زندگی بڑھائی جا سکتی ہے

لیکن جہاں چند کمپنیاں بڑے خواب دیکھ رہی ہیں وہیں کچھ ایسی بھی ہیں جن کو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ بھارت کی اولا الیکٹرک فرم حال ہی میں اس وقت خبروں میں آئی جب اس کی ایک الیکٹرک موٹر بائیک میں آگ لگ گئی

بھارت کی دو اور کمپنیوں، اوکیناوا اور جتیندرا، میں بھی گزشتہ سال آگ لگنے کے واقعات پیش آئے جن کی وجہ بیٹری کی خرابی بتائی گئی

پاکستان میں پہلی الیکٹرک بائیک

پاکستان میں پہلی الیکٹرک بائیک لگ بھگ ایک سال قبل متعارف کرائی گئی، اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں جولٹا ای بائیک کا افتتاح کیا تھا، جو روایتی موٹر سائیکل کے ڈزائن پر بنائی گئی

اسے متعارف کرانے والی جولٹا الیکٹرک کا دعویٰ ہے کہ ان کی بنائی ہوئی الیکٹرک موٹر سائیکل پیٹرول سے چلنے والی 70 سی سی موٹر سائیکل کے مقابلے میں فیول کی مد میں ہزاروں روپے کی بچت کرے گی۔ ہونڈا 70 سی سی موٹر سائیکل کی 90 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے تاہم جولٹا الیکٹرک بائیک کی زیادہ سے زیادہ رفتار 60 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوگی

تعارفی تقریب میں جولٹا الیکٹرک کے چیئرمین محمد اعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے نچلی سطح الیکٹرک بائیک متعارف کرائی ہے، تاہم ہمارے پاس اوپری سطح کی بائیکس جو 150 سی سی بائیکس کے مقابلے پر ہوں گی اور اس کے بعد تھری وہیلر (جیسا کہ الیکٹرک رکشہ) اور الیکٹرک کار (چار پہیوں والی) بھی متعارف کرانے کا منصوبہ ہے

نیشنل سیلز ہیڈ محمد سہیل خان کے مطابق ان کی موٹر سائیکلیں بالکل 70 سی سی بائیکس جیسی دکھتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ خواتین کے لئے ای اسکوٹی بھی فروخت کر رہے ہیں

کمپنی حکام کے مطابق جولٹا کی ای بائیکس کی حد 80 کلو میٹر سے 100 کلو میٹر کے درمیان ہوگی جس کا دار و مدار اسپیڈ اور سڑکوں کی صورتحال پر ہوگا

سہیل خان کا مزید کہنا ہے کہ اس گاڑی کی بیٹیریوں (12 والٹ کی 5 ڈرائی بیٹریاں) کی تین ماہ کی وارنٹی ہوگی اور اوسطاً 2 سال تک چلیں گی

سہیل خان نے بتایا کہ اس بائیک کی سواری مکمل طور پر ماحول دوست ہے اور اس سے نوائس پولوشن (شور شرابہ) بھی نہیں ہوگا جبکہ فیول کی مد میں لوگوں کو بچت بھی ہوگی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی تیار کردہ موٹر سائیکل کے الیکٹرک جیسی کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ ایک یونٹ بجلی میں چارج ہوجائے گی

موٹر سائیکل کی صنعت پر نظر رکھنے والے آٹو سیکٹر کے ایک ماہر صابر شیخ نے بتایا کہ دنیا بھر میں الیکٹرک بائیکس کے خدوخال مختلف ہیں، الیکٹرک بائیک ہلکی اور الیکٹرک موٹر کی ضروریات کے مطابق مختلف ایروڈائنامکس کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان میں ان الیکٹرک بائیکس میں فیول ٹینک کس مقصد کے لئے ہوگا؟

تاہم جولٹا الیکٹرک کے سہیل خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کیلئے 70 سی سی کے جیسا عام شیپ لوگوں کیلئے قابل قبول ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’’ان کے خیال میں یہ بائیک فیول ٹینک کے ساتھ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ موٹر سائیکل کی روایتی شکل ان کے لئے قابل قبول ہے‘‘

پاکستان میں الیکٹرک بائیکس کا مستقبل

الیکٹرک بائک پوری دنیا میں مقبول ہو رہی ہیں۔ اکیلے 2020 میں، الیکٹرک موٹرسائیکل مارکیٹ نے پوری موٹرسائیکل مارکیٹ کا 30% ریونیو شیئر کیا۔ پاکستان میں الیکٹرک بائیکس بھی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ جولٹا ایک مثال ہے

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا الیکٹرک بائیکس پاکستان کا مستقبل ہیں؟ ٹھیک ہے، جواب صرف "ہاں!” ہے

الیکٹرک موٹرسائیکلوں کے مقامی مارکیٹ پر حاوی ہونے کی ایک سب سے اہم وجہ ان کی کم توانائی کی کھپت ہے۔ کچھ بائک ایک ہی چارج پر تقریباً 1.5-2 یونٹ بجلی استعمال کرتی ہیں اور 80km – 100 کلومیٹر تک کا سفر کرتی ہیں، لیکن یہ رفتار پر منحصر ہے

اسی فاصلے کے لیے، 50-60 کلومیٹر فی لیٹر کی اوسط کے ساتھ بہت سی 70cc بائک تقریباً 1.7 – 2 لیٹر پٹرول استعمال کرتی ہیں

یہ شرح مختلف عوامل کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ تاہم، الیکٹرک بائیک سفر کرنے کے لیے کمبشن انجن والی بائیک کے مقابلے میں ہمیشہ سستا آپشن ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کم سے درمیانی آمدنی والے خاندانوں کے لیے موزوں ترین ہے

پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) کے مطابق صرف 2020-2021 میں 1.8M بائک فروخت ہوئیں۔ اگر ایک الیکٹرک بائیک سے اوسطاً 3000 روپے ماہانہ بچائے جائیں تو پاکستانی ایک ماہ میں 5.4 ارب روپے اور ایک سال میں 64.8 ارب روپے بچا سکتے ہیں۔ یہ اخراج میں کمی کے علاوہ ہے جو الیکٹرک بائک کے ساتھ آتی ہے

دوسری اہم بات یہ ہے کہ الیکٹرک بائیک میں کوئی انجن نہیں ہوتا ہے، اس لیے اسے وقتاً فوقتاً دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی ہے جیسے انجن کے تیل کی تبدیلی، ٹیوننگ، یا ایئر فلٹر کی تبدیلی۔ کوئی کلچ، چین، یا دیگر پرزے نہیں ہیں جو پیٹرول انجن سے منسلک ہوں۔ لہٰذا ، ان حصوں سے منسلک کوئی دیکھ بھال کی لاگت نہیں ہے. اوسطاً، ایک شخص ہر ٹیوننگ (تیل اور ایئر فلٹر کی تبدیلی + لیبر چارجز) پر تقریباً ایک ہزار سے پندرہ سو روپے ادا کرتا ہے۔ یہ خرچہ الیکٹرک موٹرسائیکلوں سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ان طریقوں میں سے ایک ہے جس سے آپ الیکٹرک بائیک کا مالک ہو کر پیسے بچاتے ہیں

علاوہ ازیں الیکٹرک بائک چلانے میں آسان ہے، ان موٹر سائیکلوں میں کوئی گیئر نہیں ہے. کلچ کا بھی یہی حال ہے۔ سوار کی تمام ضرورت ایکسلریٹر/تھروٹل کی ہے اور موٹر سائیکل حرکت کرنا شروع کر دے گی۔ یہ اتنا ہی آسان ہے۔ اس کے علاوہ، موٹر سائیکل کو شروع کرنے کے لئے کوئی کک نہیں ہے؛ الیکٹرک بائک میں موٹر سائیکل کو آن کرنے کے لیے ایک سوئچ ہوتا ہے۔

الیکٹرک بائک ماحول دوست بھی ہیں۔ ہوا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے ہمارا سیارہ گرم ہو رہا ہے۔ اگر ہم یہاں رہنا چاہتے ہیں، تو ہمیں توانائی کے صاف ذرائع کی طرف جانے کی ضرورت ہے۔ جرمن واچ کے مطابق پاکستان گزشتہ بیس سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ الیکٹرک بائک کا کوئی اخراج نہیں ہوتا کیونکہ وہ بجلی سے چلتی ہیں

تصور کریں کہ کیا الیکٹرک بائک اگلے 5 سے 10 سالوں میں پاکستان کی 50 فیصد مارکیٹ پر قبضہ کر لیں گی۔ زہریلے اخراج کی ایک بڑی مقدار کم ہو جائے گی

یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان میں الیکٹرک بائیکس کا استعمال ناگزیر ہے

ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ الیکٹرک بائیک زیادہ محفوظ ہے کیونکہ الیکٹرک بائیک بہت تیز نہیں چلتی۔ اس کی رفتار 40-60 کلومیٹر فی گھنٹہ کے درمیان رکھی جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ موٹرسائیکل سست رفتاری سے محفوظ طریقے سے سفر کرنے کے لیے موزوں ہے۔ مزید برآں، نوجوان سواروں کے لیے مقررہ رفتار پر موٹر سائیکل چلانا سیکھنا بھی زیادہ محفوظ ہے

الیکٹرک بائک انجن کے شور سے پاک ہیں۔روایتی بائک میں وائبریشن ہونا عام بات ہے۔ انجن کی وجہ سے کمپن پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ الیکٹرک موٹرسائیکلوں میں انجن نہیں ہوتا، وہ تقریباً کمپن کے بغیر اور پرسکون ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بائک نہ صرف ماحول کی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے بلکہ شور کی آلودگی کے لیے بھی اچھی ہیں۔ ان کی ڈرائیو کمبشن انجن والی موٹرسائیکلوں سے کہیں زیادہ آرام دہ ہے

مزید یہ کہ الیکٹرک بائک سب کے لیے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ الیکٹرک موٹر سائیکلیں صرف کم آمدنی والے سواروں کے لیے ہیں۔ وہ واقعی کم سے درمیانی آمدنی والے سواروں کو فائدہ پہنچائیں گی۔ تاہم، بہت سی کمپنیاں بین الاقوامی سطح پر الیکٹرک اسپورٹس بائک تیار کر رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں زیادہ آمدنی والے افراد کو الیکٹرک ہیوی بائیکس بھی مل سکتی ہیں۔ تو، یہ موٹر سائیکلیں سب کے لیے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close