برطانوی وزیراعظم بورس جانسن پارٹی عہدے اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی

ویب ڈیسک

برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے آج پریس کانفرنس میں پارٹی عہدے اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بورس جانسن نے جمعرات کو 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر پریس کانفرنس میں کہا ’پارلیمانی کنزرویٹو پارٹی کی مرضی ہے کہ ان کا ایک نیا لیڈر ہونا چاہیے اس لیے ایک نیا وزیر اعظم ہونا چاہیے۔‘

بورس جانسن نے کہا کہ وہ نئے لیڈر منتخب ہونے تک کام جاری رکھیں گے

انہوں نے مزید کہا ’میں نئے آنے والے لیڈر کے لیے مکمل حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔‘

اٹھاون سالہ جانسن نے اعلان کیا کہ وہ اپنی کابینہ کے متعدد رہنماؤں کے استعفوں کے بعد بطور وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں گے لیکن جب تک کوئی متبادل نہیں مل جاتا وہ وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہیں گے

ٹوری قیادت کی دوڑ کے لیے ٹائم ٹیبل کا اعلان اگلے ہفتے کیا جائے گا

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نئی قیادت کا انتخاب موسم گرما میں ہی ہوگا اور فاتح اکتوبر کے شروع میں پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں جانسن کی جگہ لے گا

جانسن نے کہا ’میں دنیا کی بہترین پوسٹ چھوڑنے پر غمزدہ ہوں‘

جانسن کے اعلان کے بعد حزب اختلاف کے لیبر لیڈر کیئر سٹارمر نے ان کی روانگی کا خیرمقدم کیا۔وزیراعظم کے دفتر نمبر 10 میں ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کی ایشلی کاوبرن کو بتایا کہ اکتوبر میں پارٹی کی سالانہ کانفرنس میں نیا پارٹی سربراہ منتخب ہونے تک جانسن اپنے عہدے پر رہیں گے

پارلیمان میں حزب اختلاف کے رہنما اور لیبر پارٹی کے رکن کیئر سٹارمر نے اس خبر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا: ’یہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھے۔ وہ ہم عہدے کے لیے نااہل تھے۔‘

گذشتہ اڑتالیس گھنٹوں میں وزیراعظم کنزرویٹو پارٹی میں اپنے حمایتی کھوتے رہے ہیں، جن میں وزیرخزانہ رشی سونک اور وزیر صحت ساجد جاوید شامل ہیں جنہوں نے گذشتہ روز اپنے استعفوں کا اعلان کیا

منگل کی شب سب سے اب تک ستاون عہدیدار مستعفی ہوچکے ہیں جن میں بائیس وزرا اور کابینہ کے باعث وزرا شامل ہیں

انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ بورس جانسن کی انتظامیہ کو داغدار کرنے والے حالیہ سکینڈلز کے تناظر میں حکومت میں مزید نہیں رہ سکتے

برطانوی وزیراعظم کی حکمران کنزرویٹو پارٹی میں قانون سازوں کی بڑی تعداد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جانسن کے لیے کھیل ختم ہو چکا ہے۔‘ تاہم انہوں نے نیا وزیر خزانہ مقرر کر کے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا عزم ظاہر کیا

بورس جانسن پر کیا الزامات تھے؟

بورس جانسن کی حکومت پچھلے کچھ مہینوں سے سکینڈلز کی زد میں تھی۔ برطانوی وزیراعظم کو کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن قوانین کو توڑنے پر جرمانہ کیا گیا تھا

ڈاؤننگ اسٹریٹ آفس کے عہدیداروں کے رویے کے خلاف ایک رپورٹ بھی شائع ہوئی تھی جس میں لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی پر بات کی گئی تھی

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیراعظم بورس جانسن کی پالیسی میں کئی تبدیلیاں اور لابنگ کے حوالے سے بنائے گئے قواعد توڑنے والے ایک قانون ساز کا دفاع بھی ان پر تنقید کی وجہ بنا

اس کے ساتھ ساتھ بورس جانسن پر یہ تنقید بھی کی گئی کہ انہوں نے ایندھن اور اجناس کی بڑھتی قیمتوں کا سامنا کرنے والے برطانوی عوام کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے

تازہ ترین اسکینڈل میں بورس جانسن نے ایم پی کرس پنچر کو حکومتی عہدے پر تعینات کیا جن کے خلاف جنسی بدسلوکی کی شکایات تھیں

اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد رشی سونک نے وزیر خزانہ اور ساجد جاوید نے سیکریٹری صحت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا

ساجد جاوید نے اپنے استعفے کے متن میں لکھا ’یہ واضح ہے کہ یہ صورتحال آپ کی قیادت میں نہیں بدلے گی اس لیے آپ نے میرا اعتماد بھی کھو دیا ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا ’انتہائی افسوس کے ساتھ مجھے آپ کو بتانا ہو گا کہ میرا ضمیر مجھے اس حکومت میں خدمات جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ برطانوی عوام اپنی حکومت سے دیانتداری کی توقع رکھتے ہیں۔‘

ریسرچ اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والی برطانوی فرم یو گوو کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 69 فیصد برطانوی شہریوں کا خیال ہے کہ بورس جانسن کو وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہو جانا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close