مو فرح: برطانوی اولپمک اسٹار کی کہانی، جنہیں بچپن میں صومالیہ سے برطانیہ اسمگل کیا گیا

ویب ڈیسک

برطانیہ کے اولمپک اسٹار سر مو فرح نے اپنی کہانی بتاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انہیں بچپن میں غیر قانونی طور پر برطانیہ لایا گیا اور گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سرمو کہنا تھا کہ انھیں محمد فرح نام ان لوگوں نے دیا، جو انہیں جبوتی سے یہاں لائے تھے۔ ان کا اصل نام ’حسین عبدی کہن‘ ہے

انہوں نے کہا ”جب میں محض نو برس کا تھا تو ایک عورت، جس سے میں کبھی نہیں ملا تھا، مجھے مشرقی افریقی ملک سے غیرقانونی طور پر برطانیہ لائیں اور پھر برطانیہ میں زبردستی ایک خاندان کے بچوں کی دیکھ بھال کا کام سونپا گیا“

’ٹیم جی بی‘ کے ایتھلیٹ کے مطابق انہوں نے اس حقیقت کو ’برسوں تک اپنے سینے میں بطور راز چھپائے رکھا‘

یاد رہے کہ طویل فاصلے کی دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لینے والے یہ اسٹار اس قبل یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ صومالیہ سے اپنے والدین کے ساتھ ایک پناہ گزین کے طور پر برطانیہ آئے تھے

لیکن بی بی سی اور ریڈ بل سٹوڈیوز کی ایک دستاویزی فلم میں، جو بدھ کو نشر کی گئی، ان کا کہنا تھا کہ ان کے والدین کبھی بھی برطانیہ نہیں آئے۔ ان کی ماں اور دو بھائی ’صومالی لینڈ‘ کی ریاست میں اپنے خاندانی فارم پر رہتے ہیں

ان کے والد، عبدی، صومالیہ میں خانہ جنگی کے دوران فائرنگ کا نشانہ بنے اور ہلاک ہو گئے۔ اس وقت مو فرح محض چار برس کے تھے

ریاست صومالی لینڈ نے سنہ 1991ع میں آزادی کا اعلان کیا تھا، لیکن اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے

سر مو کا کہنا ہے ”میں تقریباً آٹھ یا نو سال کا تھا جب مجھے جبوتی میں فیملی کے ساتھ رہنے کے لیے گھر سے لے جایا گیا۔ اس کے بعد مجھے ایک ایسی عورت کے ذریعے برطانیہ لایا گیا، جس سے میں کبھی نہیں ملا تھا اور نہ ہی میرا اس سے کسی قسم کا کوئی تعلق تھا۔“

اس عورت نے سرمو کو بتایا تھا کہ انہیں رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کے لیے یورپ لے جایا جا رہا ہے۔ سرمو کے مطابق وہ رشتے داروں سے ملنے کے لیے خاصے ’پرجوش‘ تھے۔ ان کے مطابق ’میں پہلے کبھی ہوائی جہاز میں نہیں گیا تھا‘

عورت نے انہیں یہ کہا کہ آپ نے اپنا نام محمد بتانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس عورت نے میری جعلی سفری دستاویزات تیار کی تھیں، جن میں میری تصویر کے سامنے میرا نام ’محمد فرح‘ درج تھا‘

جب وہ برطانیہ پہنچے تو وہ خاتون انہیں مغربی لندن کے علاقے ہانسلو میں اپنے فلیٹ پر لے گئیں اور ان سے وہ کاغذ چھین لیا، جس میں ان کے رشتہ داروں سے رابطے کی تفصیلات درج تھیں

ان کے مطابق ’میرے سامنے، اس نے اس کاغذ کو پھاڑ کر ڈبے میں ڈال دیا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اب میں ایک مصیبت میں پھنس چکا ہوں‘

سر مو کا کہنا ہے ”کھانے پینے کے لیے اب انہیں گھر کا کام اور بچوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی تھی۔ اس عورت نے مجھ سے کہا کہ ’اگر آپ کبھی اپنے خاندان سے دوبارہ ملنا چاہتے ہیں، تو پھر چپ رہنا‘ اکثر میں خود کو باتھ روم میں بند کر کے روتا تھا“

ابتدائی چند برسوں تک اس خاندان نے انہیں ق
اسکول جانے کی اجازت نہیں دی، لیکن جب وہ بارہ سال کے ہوئے تو انہوں نے ’فیلتھم کمیونٹی کالج‘ میں ساتویں جماعت میں داخلہ لیا۔کالج انتظامیہ کو بتایا گیا کہ سر مو صومالیہ کا مہاجر ہے

ان کی اس وقت کی ٹیچر سارہ رینی نے بتایا ”سر مو اسکول میں بغیر کسی تیاری کے بے پروا سے انداز میں داخل ہوئے تھے۔ وہ انگریزی میں بہت کم بات کر پاتے تھے، اس وقت وہ جذباتی اور ثقافتی طور پر الگ تھلگ قسم کے بچے تھے“

وہ کہتی ہیں ”جن لوگوں نے کہا تھا کہ وہ سرمو کے والدین ہیں، انہوں نے کبھی شام کو اسکول کی ’پیرنٹ میٹنگ‘ میں شرکت نہیں کی“

سرمو کی پی ای (فزیکل ایجوکیشن کی) ٹیچر، ایلن واٹکنسن، نے اس نوجوان لڑکے میں تبدیلی دیکھی، جب انہوں نے انہیں ایتھلیٹکس ٹریک پر پایا

وہ کہتی ہیں ”سرمو بظاہر صرف ایک ہی زبان سمجھتے تھے، وہ تھی پی ای اور کھیل کی زبان“

سر مو کا کہنا ہے ”کھیل میرے لیے لائف لائن تھی کیونکہ اس طرز زندگی سے بچنے کے لیے میں صرف ایک ہی چیز کر سکتا تھا وہ تھا باہر نکلنا اور دوڑنا“

آخر کار سرمو نے ایلن واٹکنسن کو اپنی حقیقی شناخت، اپنے پس منظر اور اس خاندان کے بارے میں بتایا، جس کے لیے انہیں کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا

اس کے بعد پی ای ٹیچر نے سوشل سروسز سے رابطہ کیا اور سرمو کی ایک اور صومالی خاندان میں پرورش کو یقینی بنانے میں مدد کی۔

سرمو بتاتے ہیں ’مجھے ابھی بھی اپنے حقیقی خاندان کی یاد ستاتی ہے مگر اس دن کے بعد سے سب بہتر ہونا شروع ہو گیا۔۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے کندھوں سے بہت سا بوجھ اتر گیا ہے اور میں اپنی دنیا میں واپس آ گیا ہوں۔ یہ وہ وقت تھا جب میرے اندر کا مو باہر آیا۔۔ حقیقی مو“

سرمو نے ایک ایتھلیٹ کے طور پر اپنا نام بنانا شروع کیا اور چودہ سال کی عمر میں انہیں لٹویا میں ہونے والی ریس میں انگلش اسکولوں کے مقابلے کے لیے مدعو کیا گیا، لیکن ان کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھیں

تب ایلن واٹکنسن نے محمد فرح کے نام سے برطانوی شہریت کے لیے درخواست دینے میں ان کی مدد کی، جو انہیں جولائی 2000ع مل گئی

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی دستاویزی فلم میں بیرسٹر ایلن برڈاک نے سرمو کو بتایا کہ ان کی قومیت تکنیکی طور پر ’دھوکہ دہی یا غلط بیانی سے حاصل کی گئی‘

واضح رہے کہ قانونی طور پر حکومت کسی ایسے شخص کی برطانوی شہریت ختم کر سکتی ہے، جو دھوکہ دہی سے حاصل کی گئی ہو

تاہم ایلن برڈاک کا کہنا ہے کہ سرمو کے کیس میں اس کا خطرہ کم ہے۔ وہ سرمو کو یہ بتاتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر اسمگلنگ کی تعریف استحصالی مقاصد کے لیے (کسی دوسرے ملک) لے جانا ہے‘

انہوں نے سرمو کو مزید بتایا ”آپ کے معاملے میں آپ خود ایک بہت چھوٹے بچے کی حیثیت سے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرنے اور گھریلو ملازم ہونے کے پابند تھے۔ اور پھر آپ نے متعلقہ حکام کو بتایا تھا ’یہ میرا نام نہیں ہے‘ اس لیے یہ سب چیزیں اس خطرے کو کم کر دیتی ہیں کہ ہوم آفس آپ کی قومیت ختم کر دے“

سرمو کا کہنا ہے کہ وہ اسمگلنگ اور غلامی کے بارے میں عوامی تاثرات کو چیلنج کرنے کے لیے اپنی کہانی سنانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ بہت سارے لوگ ہیں جو بالکل اسی چیز سے گزر رہے ہیں جو میرے ساتھ ہوا۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ میں کتنا خوش قسمت تھا‘

وہ کہتے ہیں ”واقعی مجھے جس چیز نے بچایا، جس چیز نے مجھے مختلف بنایا، وہ یہ تھا کہ میں بھاگ سکتا تھا“

سرمو کو لندن لانے والی خاتون سے بی بی سی کی اس دستاویزی فلم بنانے والی ٹیم نے تبصرے کے لیے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close