اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غلطی سے تین اسرائیلیوں کی ہلاکت ’ناقابلِ برداشت سانحہ‘ قرار

ویب ڈیسک

اٹھارہ ہزار سے زائد معصوم فلسطینی بچوں، خواتین اور عام شہریوں کو خون میں نہلا کر، انہیں رزقِ خاک بنا کر اور انہیں ’انسان نما جانور‘ قرار دیتے ہوئے مٹانے پر تلے اسرائیل کے ہاتھوں اپنے ہی تین اسرائیلی قیدیوں کی ہلاکت کو اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے ’ناقابلِ برداشت سانحہ‘ قرار دیا ہے، جب کہ وائٹ ہاؤس نے واقعے کو ’افسوس ناک غلطی‘ قرار دیا

جبکہ اسرائیلی فوج نے ’افسوس ناک واقعے‘ پر ’گہرے پچھتاوے‘ کا اظہار کرتے کہا کہ اس کے فوجیوں نے غزہ پر حملوں کے دوران اپنے ہی تین قیدیوں کو ’خطرہ سمجھ‘ کر مار ڈالا

اسرائیلی فوج نے ہفتے کو جاری بیان میں کہا کہ حماس کی قید میں موجود یوتم ہیم، ایلون شمریز اور سمر الطلقا نامی اسرائیلی شہریوں کو غزہ کے ایک علاقے میں آپریشن کے دوران گولی مار دی گئی

بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’غزہ کے قریبی علاقے شیجایا میں حماس کے ساتھ لڑائی کے دوران اسرائیل کے تین یرغمالیوں کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوئی اور انہیں خطرہ سمجھا گیا، جس کے بعد اہلکاروں نے ان پر فائرنگ کر دی۔‘

بیان کے مطابق ’اس افسوسناک واقعے سے سبق سیکھا گیا ہے اور لڑنے والے تمام فوجیوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔‘

یہ تینوں سات اکتوبر کو حماس کی کارروائی کے دوران قیدی بنائے گئے تھے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس نے 240 اسرائیلیوں کو قیدی بنایا تھا

مارے جانے والوں میں ایک کی شناخت فرانسیسی نژاد اسرائیلی کے طور پر ہوئی ہے جو ان افراد میں شامل تھے جن کو حماس نے یرغمال بنایا تھا

واقعے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے تین قیدیوں کی موت کو ایک ’ناقابل برداشت سانحہ‘ قرار دیا جب کہ وائٹ ہاؤس نے واقعے کو ’افسوس ناک غلطی‘ قرار دیا

اسرائیلی یرغمالیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ’اپنے تین پیاروں کی ہلاکت کے بعد میرا سر پورے اسرائیل کے سامنے جھکا ہوا ہے اور میں شدید دکھ کی کیفیت میں ہوں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ مرنے والوں کے خاندان والوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

اس واقعے کی خبر پھیلتے ہی سینکڑوں اسرائیلی شہری تل ابیب میں وزارت دفاع کے سامنے احتجاج کے لیے جمع ہوئے

مظاہرین نے اسرائیلی قیدیوں کی تصاویر والے پلے کارڈز لہرائے۔ اسرائیل سے تعلق رکھنے والے 129 قیدی اب بھی غزہ میں قید ہیں۔

ایک بینر پر تحریر تھا ”غزہ میں روزانہ ایک قیدی مارا جا رہا ہے“

تل ابیب میں قیدیوں کے رشتہ داروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مزید لوگوں کو رہا کرنے کے لیے حماس سے معاہدہ کرے

حماس کی قید میں موجود ایتے سویرسکی نامی شخص کی بہن میرو سورسکی نے کہا، ”میں خوف سے مر رہی ہوں۔ ہم (حماس کے ساتھ) معاہدے کا مطالبہ کرتے ہیں“

واضح رہے کہ نومبر میں قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے ایک مختصر مدت کی فائر بندی کے معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے بدلے میں سو سے زائد اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا تھا

خبر رساں ادارے ’ایکسیوس‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ برنیا رواں ہفتے قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی سے یورپ میں ملاقات کرنے والے ہیں

رپورٹ میں کہا کہ حکام باقی قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدے کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر تبادلہ خیال کریں گے

غزہ کی پٹی میں شدید لڑائی جاری ہے جہاں حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جنوبی شہر خان یونس میں اسرائیلی فوجیوں کو دھماکے سے اڑا دیا ہے

غزہ میں طبی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 18,800 فلسطینی مارے جا چکے ہیں جب کہ غزہ کا بڑا حصہ ملبے میں تبدیل ہو گیا ہے

جمعے کو نیوز چینل الجزیرہ نے کہا کہ اس کا ایک صحافی بھی اسرائیلی حملے میں جان سے گیا ہے۔

صحافیوں کی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں اب تک ساٹھ سے زیادہ صحافی اور میڈیا کے ارکان مارے گئے ہیں۔

تذلیل، بھوک اور تشدد، اسرائیل کی گرفتاری مہم سے غزہ میں خوف و ہراس

انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو حراست میں لیے جانے والے فلسطینیوں کو شدید مشکلات اور ہتک آمیز رویے کا سامنا ہے اور مردوں کو زیرجامہ تک اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق غزہ کے شمالی حصے میں اپنے خاندانوں سے بچھڑ جانے والے لوگ موجود ہیں، جہاں سے اسرائیلی فوج لوگوں کو حراست میں لیتی ہے اور ٹرک پر چڑھانے سے قبل زیرجامے اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کے بعد انہیں ساحل سمندر کے قریب حراستی مرکز لے جایا جاتا ہے، جہاں انہیں سخت سردی میں بھوکا، پیاسا رہنا پڑتا ہے

پکڑے جانے والے فلسطینیوں کو حملوں کا شدید نشانہ بننے والے شہر بیت لہبیہ، جبالیہ اور اس کے قریبی علاقوں میں بنے حراستی مرکز میں لے جایا گیا اور اس سے قبل آنکھوں پر پٹی باندھ کر ٹرکوں میں سامان کی طرح بھرا گیا

ان میں سے کچھ نے بتایا کہ ان لوگوں کو کسی نامعلوم مقام پر تقریباً برہنہ حالت میں لے جایا گیا

ابراہیم نے بتایا ’ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔ انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر نمبرز لکھے‘

تیس سالہ ابراہیم ایک کمپیوٹر انجینیئر ہیں اور ان کو سات دسمبر کو لہیہ سے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور پوری رات حراست میں رکھا گیا۔‘

ان کے مطابق ’ہم ان کی شدید نفرت کو محسوس کر سکتے تھے۔‘

ماہرین اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہریوں کو حراست میں لیے جانے کے سلسلے کو ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس کا مقصد خالی ہونے والے علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا ہے اور حماس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرنا ہے

حراست میں لیے جانے والے افراد کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات پر اسرائیلی فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ان کو پروٹوکول کے مطابق ٹریٹ کیا گیا اور مطلوبہ کھانا اور پانی دیا گیا۔‘

فوج کے ترجمان ریئر ڈینیئل ہرگئی کا کہنا ہے کہ مردوں سے سوال جواب کیے گئے اور پھر لباس پہننے دیا جاتا اور اگر کہیں ایسا نہیں ہوا تو فوج یقینی بنائے گی ایسا دوبارہ نہ ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کے بارے میں خیال ہے کہ وہ حماس کے ساتھ رابطے میں تھے اسی لیے پوچھ گچھ کے لیے دور لے جایا گیا ہے۔
انہوں نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ حماس سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے

ایسی تصاویر اور وڈیوز بھی منظر عام پر آئی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فلسطینی مردوں کے ہاتھ پیچھے باندھے گئے ہیں اور ان کو گھٹنوں کے بل کھڑا کیا گیا، جس کے بعد سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے

پکڑے جانے والے افراد کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے یہ ہتک آمیز ہے، ان میں بارہ سال سے ستر سال تک افراد شامل تھے

ان کا کہنا ہے کہ پکڑے جانے والے افراد کا کسی گروہ سے تعلق نہیں اور جنگ شروع ہونے سے قبل وہ عام شہری کی زندگی گزار رہے تھے

ابو عدنان ال کاہلوت کا کہنا تھا ’میرا صرف یہ جرم ہے کہ جنوبی علاقے کی طرف جاتے ہوئے میرے پاس زیادہ پیسے موجود نہیں تھے۔‘

ان کی عمر پینتالیس برس ہے اور بلند فشار خون اور ذیابیطس کے مریض ہیں

ان کو آٹھ دسمبر کو حراست میں لیا گیا اور حالت خراب ہونے پر کئی گھنٹے بعد رہا کیا گیا۔

یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر سے تعلق رکھنے والے رامے عبدو کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے کم از کم نو سو افراد کو حراست میں لیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close