امر گل کی تین نثری نظمیں

جمہوری نظام کی بکری اور ہم ۔۔۔


ﺍﻟﯿﮑﺸﻦ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﻣﯿﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﮔﻨﺠﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ
ﺟﮭﻮﭨﮯ ﻭﻋﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻮﮐﮭﻠﮯ ﻧﻌﺮﻭﮞ ﮐﮯ
ﺍﻭﻟﮯ ﺑﺮﺳﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺍﺱ ﺑﮯ ﻣﮩﺮ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﺩﯾﺲ ﮐﮯ ﺟﻤﮩﻮﺭﯼ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﮑﺮﯼ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﭼﻨﺪ ﻣﯿﻨﮕﻨﯿﺎﮞ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﮈﮬﺎﭨﺎ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ
ﺍﭘﻨﯽ ﻻﭨﮭﯽ ﮔﮭﻤﺎ ﮐﺮ
ﮨﻤﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻮﺭ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﮐﮭﺎ ﻟﻮ!
ﮨﻢ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﻨﮕﻨﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻨﮧ ﮐﺎ ﺫﺍﺋﻘﮧ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﺪّﺍ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﺑﮑﺎﺋﯿﺎﮞ ﻟﯿﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ
ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ، ﺑﮑﺮﯼ ﮐﺎ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﺎ
ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﮨﺎﻧﮑﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔۔۔


میں نہ جانے کیوں لکھتا ہوں ۔۔۔

کبھی کبھی لکھتے وقت مجھے،
اندھوں کے شہر میں
آئینہ لے کر پھرنے کا سا احساس ہوتا ہے،
لیکن کیا کیجیے
کہ آنکھوں کا ہسپتال کھولنے کا جادو
جس الہ دین کے پاس ہے
وہ میری جیب کے چراغ میں نہیں رہتا…
اب اکثر ایسا ہوتا ہے
کہ میں لکھنے کے لیے
جب بھی نوٹ بک پر قلم چلاتا ہوں
تو مجھے، میرا قلم
شیخ چلّی کی طرح لگتا ہے،
جو خوابوں کے انڈوں کا ٹوکرا سر پر لادے
خیالوں ہی خیالوں میں
ایک دنیا بسا لیتا ہے
لیکن ایک ہی ٹھوکر سے
وہ دھڑام سے کاغذ کی زمین پر گر جاتا ہے
اور خوابوں کے سارے انڈے ٹوٹ کر
زمین پر بکھر جاتے ہیں..
اب اکثر لکھتے وقت مجھے
میرا قلم، علی بابا کی طرح لگتا ہے
جو دنیا کے بکھیڑوں کے
چالیس چوروں سے بچ بچا کر
غارِ سخن کے سامنے
ہونکوں کی طرح کھڑا ہے،
لیکن دروازہ کھولنے کا اسم
اس سے یکسر بھول چکا ہے!
پھر مجبور ہو کر میں
اُس پُل کے نیچے کھڑا ہو جاتا ہوں
جس پر ٹرین کی پٹڑی بچھی ہوئی ہے،
جب ٹرین گزرتی ہے
تو وہ ٹرین مجھے
میرے دل پر سے گزتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
اور میرے دل کی پٹڑی میں پیوست تختوں میں
ایک دھڑ دھڑ کی سی حرکت
دھڑکن کی طرح سرایت کر جاتی ہے،
میں اس حرکت کو
اپنے قلم میں منتقل کر دیتا ہوں۔۔۔
الفاظ کی سیٹیاں بجتی ہیں
اور ایک نظم
میرے ذہن کے اسٹیشن پر آ کر رک جاتی ہے،
اس پر سوار ہونے کا کوئی بھی ٹکٹ نہیں لگتا
لیکن باجود اس کے
کوئی بھی مسافر اس پر سوار نہیں ہوتا!


خاموشی کے حبس میں ۔۔۔

ﺑﮩﺮﯼ ﺳﻤﺎﻋﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻭﻓﺎﺋﯽ ﺳﮯ
ﺩﻝ ﺑﺮﺩﺍﺷﺘﮧ ﮨﻮ ﮐﺮ
صدائے احتجاج نے
ﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﺮ ﻟﯽ۔۔۔
ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺒﻮﮞ ﭘﺮ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﺰﯾﺖ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺍﺩﺍﺱ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ اس ﺣﺒﺲ ﻣﯿﮟ
ﺩﻡ ﮔُﮭﭩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ…
ﭼﻠﻮ ﺁﺅ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ
ﺩﺭﺩ ﮐﮯ ﻧﻮﺣﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﺍﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ…

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close