’لال سنگھ چڈھا‘ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

ویب ڈیسک

بولی وڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ کی عرفیت سے مشہور اداکار عامر خان نے آئندہ ہفتے ریلیز ہونے والی اپنی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہونے کے بعد کہا ہے کہ ان کے بھارتی ہونے پر شک نہ کیا جائے، وہ محب وطن ہیں

’نئی دہلی ٹیلی وژن‘ (این ڈی ٹی وی) کے مطابق عامر خان کی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ کے بائیکاٹ کا مطالبہ ابتدائی طور پر ٹوئٹر پر کیا گیا، جس کے بعد لوگوں نے نہ صرف ان کی فلم بلکہ اداکار کے بائیکاٹ کا بھی مطالبہ کیا

اس فلم کے مخالفین بائیکاٹ لال سنگھ چڈھا، بائیکاٹ عامر خان، اور بائیکاٹ کرینہ کپور کا سہارا لے کر اپنا اپنا ردعمل دے رہے ہیں اور عامر خان کو بھارت چھوڑ کر جانے کا بھی کہا جا رہا ہے

رپورٹ کے مطابق عامر خان کی فلم اور ان کے بائیکاٹ کا مطالبہ ان کے پرانے وڈیو کی ایک کلپ وائرل ہونے کے بعد کیا گیا

اسی حوالے سے ویب سائٹ ’دی کئنٹ‘ نے بتایا کہ عامر خان کے 2015 کے انٹرویو کی ایک کلپ وائرل ہونے کے بعد ان کے فلم کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ چلایا گیا اور ان کی فلم کے حوالے سے بھی غلط معلومات پھیلائی گئیں

بائیکاٹ کی اپیل کرنے والے عامر کے سنہ 2015 کے ایک انٹرویو کا حوالہ دے رہے ہیں جس میں ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ملک کے حالات کا ایسا برا اثر ہو رہا ہے کہ ان کی اہلیہ نے ایک بار ان سے کہا تھا کہ ان حالات میں کسی دوسرے ملک چلے جاتے ہیں، کیونکہ اب ہندوستان میں عدم برداشت کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے

رپورٹ میں بتایا گیا کہ عامر خان کے مذکورہ بیان کے بعد ان کی فلم کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا

’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق سوشل میڈیا پر لوگوں کے بائیکاٹ کے بعد عامر خان نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ان کے محب وطن بھارتی ہونے پر شک نہ کیا جائے، وہ مخلص بھارتی ہیں

دوسری جانب ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ لوگوں کی جانب سے الزامات عائد کیے جانے کے بعد عامر خان نے واضح کیا کہ ان کی فلم میں کوئی بھی نیم عریاں اور برہنہ منظر نہیں

رپورٹ کے مطابق عامر خان نے واضح کیا کہ انہوں نے ہولی وڈ فلم ’فارسٹ گمپ‘ کے مناظر کی طرح اپنی فلم میں بولڈ اور نیم عریاں مناظر شامل نہیں کیے

واضح رہے کہ ’لال سنگھ چڈھا‘ کو آئندہ ہفتے 11 اگست کو بھارت سمیت دنیا بھر میں ریلیز کیا جائے گا، مذکورہ فلم ’فارسٹ گمپ‘ کا آفیشنل ہندی ریمیک ہے

فلم میں عامر خان کے ساتھ کرینہ کپور نے ان کی جوڑی کا کردار ادا کیا ہے، جبکہ مونا سنگھ نے ان کی والدہ کا کردار ادا کیا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ مونا سنگھ حقیقی زندگی میں عامر خان سے سترہ برس کم عمر ہیں، جب کہ ان کی ہیروئن بننے والی کرینہ کپور ان سے چودہ برس چھوٹی ہیں

عامر خان اور ان کی نئی فلم کے خلاف مہم چلانے والے ان کی ایک فلم ’پی کے‘ سے بھی ایک تصویر شیئر کر رہے ہیں، جس میں عامر کو ہندوؤں کے بھگوان شیو کا روپ دھارے ایک شخص سے بات کرتے دکھایا گیا ہے

یہ فلم مذہب کو استعمال کرنے والے ڈھونگی رہنماؤں اور توہمات کے خلاف بنی تھی اور باکس آفس پر بہت کامیاب رہی تھی، لیکن اب اسے ہندو مخالف کے طور پر مشتہر کیا جا رہا ہے۔ عامر کو بھارت اور ہندو مخالف کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ عامر خان اور کرینہ کپور کی نئی فلم نہ دیکھیں

سنجے تنوانی نام کے ایک صارف نے ’پی کے‘ فلم کی تصویر کے ساتھ لکھا: ”کبھی نہیں بھولیں گے، کبھی معاف نہیں کریں گے“

اس کے جواب میں ایک صارف نے لکھا ”پی کے سنہ 2014 میں سب سے زیادہ چلنے والی فلم تھی۔ اس کا بھی بائیکاٹ ہوا تھا، اور کرو بائیکاٹ!“

پیٹرک نام کے ایک صارف نے اپنی ٹویٹ میں کئی مہینے پرانی ایک تصویر پوسٹ کی ہے، جس میں عامر ترکی کے صدر کی اہلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں

پیٹرک نے عامر کی فلم کے بائیکاٹ کی حمایت کرتے ہوئے لکھا ”ترکی پاکستان کے ساتھ مل کر بھارتی مسلم نوجوانوں کو انتہا پسند بنانے میں لگا ہوا ہے، اس کے باوجود عامر نے ترکی کی خاتون اول سے ملاقات کی۔ ترکی کشمیر کے معاملے پر بھی پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ بالی ووڈ ہمارے معاشرے میں جنگلی بیلوں کی طرح پھیل گیا ہے اور اسے اب کاٹ کر پھینکنے کی ضرورت ہے“

ابھیشیک شریواستو لکھتے ہیں ”اس فلم کی آمدن کا ایک بڑا حصہ چین اور ترکی کے توسط سے دہشت گردی کی مالی مدد میں جائے گا۔ یہ دونوں ممالک عامر کا گھر ہیں۔ وہ وہاں زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں“

اروند بلیگا نے بالی وڈ کے بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے لکھا ”عامر خان نے ہندو دھرم اور ملک کو نیچا دکھانے میں کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ بالی وڈ ہندو دھرم کا مذاق اڑا کر پیسے بنا رہا ہے“

عامر خان نے بائیکاٹ کی مہم پر ردعمل دیتے ہوئے ایک بیان جاری کیا ہے۔ اُنہوں نے لکھا کہ ”میری فلم کے بائیکاٹ کی اپیل کرنے والے بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ میں بھارت سے پیار نہیں کرتا۔ وہ اپنے دل میں یہی سوچتے ہیں لیکن یہ سچ نہیں۔ میں بھارت سے پیار کرتا ہوں۔ آپ پلیز میری فلم کا بائیکاٹ نہ کریں اور اسے ضرور دیکھیں“

ان کے اس بیان پر معروف صحافی رعنا ایوب نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ”بھارت کے ایک سپر فلم اسٹار عامر خان کو اپنے ملک سے اپنی محبت ثابت کرنی پڑ رہی ہے“

ایک اور صارف کلیم نے لکھا ”گذشتہ ہفتے بھارت کے ایک سابق نائب صدر پر، جو مسلم ہیں، جاسوسی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس ہفتے بھارت کے ایک صفِ اوّل کے فلم اسٹار کو مسلم ہونے کے سبب ملک سے اپنی محبت ثابت کرنی پڑ رہی ہے“

ملک کے معروف ایڈورٹائزنگ ماہر پرہلاد ککڑ نے ایک ٹی وی چینل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر اس طرح کے بائیکاٹ کی اپیل کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہوتی

انہوں نے کہا ’اس طرح کی مہم کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ اس سے پہلے بھی عامر کی فلموں ’لگان‘ اور ’پی کے‘ کا بائیکاٹ ہو چکا ہے لیکن یہ فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ اس طرح کی مہم سے فلم کو مفت کی شہرت حاصل ہو جاتی ہے۔ بائیکاٹ کی مہم سے فلم کو فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔‘

بالی ووڈ ایک عرصے سے دائیں بازو کے نشانے پر ہے۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے سابق مشیر سنجے بارو نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ بی جے پی اور ہندوتوا کے نظریہ ساز، بالی ووڈ پر اردو زبان اور کلچر کے اثرات اور بڑی تعداد میں مسلم اداکاروں اور فلم سازوں کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے

ان کا خیال ہے کہ اعتدال پسند عناصر کے سبب ہندوتوا کے نظریات ہندی فلموں پر غالب نہیں ہو سکے مگر کئی برس کی کوششوں کے بعد بالی وڈ کا ایک طبقہ اب کھل کر حکمران جماعت کے ساتھ ہے

بالی ووڈ کے مسلم اداکاروں شاہ رخ خان، سلمان خان، سیف علی خان، عامر خان، نصیرالدین شاہ اور کئی دیگر اداکاروں کو اکثر سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جاتا ہے

ان کی فلموں، انٹرویوز اور زندگی پر اتنی گہری نظر رکھی جاتی ہے کہ اب یہ کچھ کہنے میں بہت محتاط رہتے ہیں۔ بیشتر اداکار ملک کے حالات پر کچھ بھی بولنے سے گریز کرتے ہیں

اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے چند مہینے قبل ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی کہ بالی ووڈ کے اداکاروں کے خلاف کس طرح مہم چلائی جاتی ہے

اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یوٹیوب، فیسبک اور انسٹا گرام پر ایسے درجنوں اکاؤنٹس اور چینل ہیں، جو دن رات بالی وڈ کے مسلم اداکاروں اور اداکاراؤں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں، انہیں پاکستان اور آئی ایس آئی کا ایجنٹ، مسلم انتہا پسند اور ملک دشمن قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے

بی بی سی کی تحقیق کے مطابق ان چینلوں کے لاکھوں ناظرین ہیں، جو ان پروگرامز کو دیکھ رہے ہیں۔ تفتیش کے مطابق ان چینلز کا تعلق ملک میں انتہا پسند کی ہندو تنظیموں سے ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close