9/11 حملوں کی مخالفت کرنے والے القاعدہ کے ممکنہ نئے سربراہ ’سیف العدل‘ کون ہیں؟

ویب ڈیسک

القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اب تنظیم کے نئے سربراہ کے حوالے سے چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں

اس کے لیے جو سب سے اہم نام گردش کر رہا ہے،  مصر میں پیدا ہونے والے سیف العدل کا ہے، جو القاعدہ کے اگلے ممکنہ امیدوار نظر آ رہے ہیں۔ وہ ایمن الظواہری کے نائبین قرار دیے گئے پانچ القاعدہ رہنماؤں میں سے آخری زندہ شخص ہیں اور خیال ہے کہ وہی ممکنہ طور پر ان کے جانشین ہوں گے

لیکن اس سلسلے میں ایک مسئلہ ہو سکتا ہے۔ سیف العدل کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ فی الوقت ایران میں پابندیوں کی زندگی گزار رہے ہیں، جس سے القاعدہ کی نہیں بنتی

سیف العدل القاعدہ کے بانی ارکان میں سے ہیں اور اسامہ بن لادن کے بھروسہ مند ساتھیوں میں سے رہے ہیں۔ وہ ایک پراسرار شخصیت ہیں اور اپنے حلقے میں کافی مقبول بھی ہیں

امریکی حکام کی بھی ان میں کافی دلچسپی رہی ہے اور وہ امریکہ کے فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) کی ’سب سے مطلوب دہشتگردوں کی فہرست‘ میں بھی موجود ہیں۔ ایف بی آئی نے ان کی معلومات فراہم کرنے پر ایک کروڑ ڈالر انعامی رقم کا اعلان کر رکھا ہے

ان پر اگست 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بیک وقت ہونے والے بم حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا جاتا ہے، جس میں دو سو بیس سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے

سیف العدل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے 11 ستمبر کو واشنگٹن اور نیویارک پر ہونے والے حملوں کی مخالفت کی تھی

فروری 2021 میں امریکی ملٹری اکیڈمی (ویسٹ پوائنٹ) کے محققین کی ایک دستاویز میں دعویٰ کیا گیا کہ سیف العدل اور دیگر سینیئر القاعدہ رہنماؤں کو خوف تھا کہ امریکی سرزمین پر ایک بڑے حملے کا بھرپور ردِ عمل سامنے آ سکتا ہے، جس میں افغانستان پر حملہ بھی شامل ہو سکتا ہے جو اس وقت القاعدہ ارکان کے لیے ایک محفوظ ٹھکانہ تھا

ان افراد کا یہ خدشہ بعد میں درست ثابت ہوا

سیف العدل ماضی میں کئی موضوعات بشمول ’سکیورٹی اور انٹیلیجنس‘، جنگ، اور انقلابوں پر لکھتے بھی رہے ہیں

القاعدہ میں شمولیت سے پہلے کی ان کی زندگی کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ ایف بی آئی کے مطابق وہ 11 اپریل 1963 یا پھر اس سے تین سال پہلے پیدا ہوئے

القاعدہ تنظیم میں اعلیٰ رتبے کے باوجود وہ گروہ کی جانب سے نشر ہونے والے پروپیگنڈا میں بہت کم نظر آئے۔ ان کی اصل شناخت کے بارے میں بھی ابہام ہے۔ ان کا نام سیف العدل جس کا عربی میں مطلب ’انصاف کی تلوار‘ ہے، بھی غالباً ایک فرضی نام ہے

امریکی ملٹری اکیڈمی (ویسٹ پوائنٹ) کے محققین دعویٰ کرتے ہیں کہ سیف العدل کو اکثر غلطی سے مصری فوج کے اسپیشل فورسز دستے کے سابق کرنل محمد ابراہیم سے ملایا جاتا ہے

ان کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ انہوں نے افغانستان میں 1980 کی دہائی میں اسامہ بن لادن کے ساتھ اس وقت سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لیا، جب القاعدہ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی

افغانستان کے بعد العدل صومالیہ منتقل ہوئے جہاں انہوں نے خانہ جنگی میں امریکی مداخلت کے خلاف لڑنے کے لیے مقامی جنگجوؤں کو تربیت دی

اس لڑائی کو اس وقت عالمی شہرت ملی جب صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں دو امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر راکٹ سے تباہ کر دیے گئے تھے۔ اس واقعے پر سنہ 2001ع میں ہالی وڈ فلم بلیک ہاک ڈاؤن بھی بنائی گئی تھی

خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک راکٹ سیف العدل کے گروہ کے تیونس سے تعلق رکھنے والے رکن نے چلایا تھا

سیف العدل نوے کی دہائی میں افغانستان واپس آئے۔ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں طالبان اپنا اثر و رسوخ جما رہے تھے۔ وہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد ملک چھوڑ کر چند القاعدہ اراکین کے ہمراہ ایران منتقل ہو گئے

خیال کیا جاتا ہے کہ ان کو ایرانی حکام نے سنہ 2003ع میں حراست میں لے لیا تھا۔ بارہ سال بعد ان کو قیدیوں کے ایک تبادلے میں دیگر القاعدہ اراکین کے ساتھ رہا کر دیا گیا تھا

اس طویل حراست کے باوجود سیف العدل کو القاعدہ میں اہم شخصیت کا درجہ حاصل رہا اور انہوں نے 2011ع میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایمن الظواہری کو تنظیم کے نئے سربراہ کے طور پر مستحکم کرنے میں بھی مدد فراہم کی

تاہم ان کو نیا سربراہ تعینات کرنا ایک پیچیدہ عمل ہو سکتا ہے۔ امریکی انسداد دہشت گردی کے ماہر کولن پی کلارک دعویٰ کرتے ہیں کہ سیف العدل اب بھی ایران میں ہی ہیں اور نظر بندی کی زندگی گزار رہے ہیں

اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ان کی تعیناتی مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ ایران میں زیر حراست یا پھر نظر بندی کی زندگی گزارتے ہوئے القاعدہ جیسی عالمی تنظیم کو چلانا بہت مشکل ہوگا۔ وہ بھی ایسے میں جب ان کو سکیورٹی مسائل کا بھی سامنا ہوگا

واضح رہے کہ القاعدہ کے ایک اور اہم رہنما ابو محمد المصری کو 2020ع میں تہران میں مبینہ طور پر اسرائیلی کمانڈوز نے ایک خفیہ آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا

القاعدہ کی سربراہی کے لیے امیدواروں کی کوئی لمبی چوڑی فہرست نہیں کیونکہ بہت سے اہم اور سینیئر رہنما بھی الظواہری کی طرح مارے جا چکے ہیں

ممکن ہے کہ القاعدہ ان علاقائی تنظیموں میں سے کسی ایک کے سربراہ کو چن لے، جن سے اس کا الحاق ہے۔ ان میں صومالیہ کی الشباب، یمن اور مالی کی تنظیمیں شامل ہیں

البتہ یہ نہایت غیر معمولی ہوگا، کیونکہ ایسی کوئی نظیر اب تک موجود نہیں۔ لیکن یہ حیران کن اس لیے نہیں ہوگا کہ ایمن الظواہری کی سربراہی میں القاعدہ نے رفتہ رفتہ ذیلی تنظیموں کو زیادہ اختیارات دیے ہیں

سنہ 2013ع میں القاعدہ مالی کے رہنما ناصر الوحشی کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ان کو الظواہری کا نائب مقرر کر دیا گیا ہے

اس سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ علاقائی رہنما بھی مرکزی سربراہ کے کردار کے لیے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ لیکن الوحشی نہیں کیونکہ وہ 2015ع میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close