ہیروشیما، ناگاساکی پر امریکی ایٹمی حملوں کے دوران زندہ بچ جانے والی جاپانی خواتین نے کیا دیکھا؟

ویب ڈیسک

انسانیت کے ماتھے پر سفاکی کا نہ مٹنے والا ایک داغ اس وقت لگا، جب دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے 6 اگست کو جاپان کے شہر ہیروشیما اور 9 اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیے

اس واقعے میں ریکارڈ شدہ اموات محض ایک تخمینہ ہیں لیکن یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہیروشیما کی ساڑھے تین لاکھ آبادی میں سے لگ بھگ ایک لاکھ چالیس ہزار افراد جبکہ ناگاساکی میں کم از کم چوہتر ہزار افراد ان حملوں میں ہلاک ہوئے تھے

جاپان پر ہونے والے اِن حملوں کے فوراً بعد ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اچانک خاتمہ ہو گیا تھا اور بالآخر 14 اگست 1945 کو جاپان نے اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے

امریکا ایٹم بم گرانے کے اپنے سفاکانہ اقدام کی توجیہہ میں اسی جنگبندی کو پیش کرتا رہا ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ جاپان اپنے شہروں پر ایٹمی حملوں سے قبل ہی ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر چکا تھا

اِن ایٹمی حملوں میں زندہ بچ جانے والے ہیروشیما اور ناگاساکی کے رہائشیوں کو جاپان میں ’ہیباکوشا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ زندہ بچ جانے والوں کو ایک خوفناک انجام کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس میں ایٹمی تابکاری کے دیرپا اثرات اور نفسیاتی صدمے بھی شامل ہیں

برطانوی فوٹو جرنلسٹ کیرن لی اسٹو نے اُن خواتین کی کہانیاں سنائی ہیں، جو تاریخ کے قابل ذکر واقعات کی چشم دید گواہ ہیں۔ لی اسٹو نے ایسی تین خواتین کے انٹرویوز کیے ہیں، جنہیں ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہونے والے ایٹم بم کے یہ دھماکے اب بھی اچھی طرح یاد ہیں

ایمیکو اوکادا

جب ہیروشیما پر ایٹمی حملہ ہوا اس وقت ایمیکو کی عمر صرف آٹھ برس تھی، ان کی بڑی بہن میاکو اور چار دیگر رشتہ دار اس حملے میں ہلاک ہوئے تھے

ایمیکو بتاتی ہیں ”اس دن میری بہن یہ کہتے ہوئے گھر سے روانہ ہوئی کہ ’میں تمہیں بعد میں ملوں گی!‘ وہ صرف بارہ سال کی تھی مگر زندگی سے بھرپور شخصیت تھی۔۔۔ لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئی۔ کوئی نہیں جانتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔۔۔ میرے والدین نے اسے بہت تلاش کیا، انہیں اس کی لاش کبھی نہیں ملی، اس لیے وہ ہمیشہ کہتے رہے کہ وہ کہیں زندہ ہوگی“

ایمیکو نے بتایا ”اس وقت میری والدہ حاملہ تھیں لیکن اُن کا اسقاط حمل ہو گیا۔۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ہمیں تابکاری کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، لہٰذا ہمیں کھانے کے لیے جو ملا بغیر سوچے سمجھے اٹھا لیا اس حقیقت سے قطع نظر کہ یہ سب تابکاری مواد سے آلودہ تھا“

ایمیکو کہتی ہیں ”چونکہ کھانے کو کچھ نہیں تھا اس لیے لوگ چوری چکاری کر رہے تھے۔ کھانا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ پانی مزیدار تھا! لوگوں کو اُس وقت اسی طرح رہنا پڑا، لیکن اب سب فراموش ہوتا جا رہا ہے“

وہ کہتی ہیں ”پھر میرے بال گرنے لگے، اور میرے دانتوں سے خون بہنے لگا۔ میں مستقل طور پر تھکا ہوا محسوس کرتی اور ہمیشہ لیٹی رہتی تھی۔۔ اس وقت کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ تابکاری کیا ہے۔ بارہ سال بعد مجھ میں اپلیسٹک انیمیا یعنی خون کی کمی یا نیا خون نہ بننے کی تشخیص ہوئی“

وہ کہتی ہیں ”ہر سال کئی بار ایسا ہوتا کہ غروبِ آفتاب کے وقت آسمان گہرا سرخ ہو جاتا، اتنا سرخ کہ اس کی روشنی میں لوگوں کے چہرے سرخ ہو جاتے۔۔ اور آج بھی میں خود کو ایٹمی بمباری کے دن ہونے والے غروبِ آفتاب کے بارے میں سوچنے سے روک نہیں پاتی۔ تین دن اور تین رات تک شہر جلتا رہا تھا“

ایمیکو کہتی ہیں ”مجھے غروبِ آفتاب سے نفرت ہے۔ اب بھی غروبِ آفتاب مجھے جلتے ہوئے شہر کی یاد دلاتا ہے“

انہوں نے کہا ”بہت سے ہیباکوشا ان چیزوں یا بمباری کی تفصیلات بتائے بغیر ہی فوت ہو گئے۔ اب وہ بول نہیں سکتے، لہٰذا میں بول رہی ہوں۔۔ بہت سے لوگ عالمی امن کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن میں چاہتی ہوں کہ لوگ عمل کریں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر شخص جو وہ کر سکتا ہے کرنا شروع کر دے۔ میں خود بھی کچھ ایسا کرنا چاہتی ہوں تاکہ ہمارے بچے اور پوتے پوتیاں، جو ہمارا مستقبل ہیں، ایسی دنیا میں رہ سکیں جہاں وہ ہر روز مسکرا سکیں“

ریکو ہادا

ریکو ہادا 9 سال کی تھیں، جب ان کے آبائی شہر ناگاساکی پر 9 اگست سنہ 1945 کو گیارہ بج کر دو منٹ پر ایٹم بم گرایا گیا۔۔ اس صبح ایک ہوائی حملے کے لیے انتباہ جاری کیا گیا تھا، لہٰذا ریکو گھر پر ہی تھی

جب سب ٹھیک ہونے کا اعلان ہوا تو وہ قریبی عبادت گاہ گئیں، جہاں اس کے پڑوس کے بچے اسکول جانے کے بجائے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ حملوں کے پیش نظر اسکول بند تھے۔۔ عبادت گاہ میں تقریبا چالیس منٹ کی کلاس کے بعد ٹیچر نے کلاس ختم کر دی اور ریکو گھر واپس آ گئیں

ریکو نے بتایا ”میں ابھی اپنے گھر کے دروازے تک پہنچی تھی اور مجھے لگتا ہے کہ میں نے ایک قدم گھر کے اندر بھی رکھ دیا تھا کہ اچانک یہ سب ہو گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے بجلی کوند گئی، پیلے، خاکی اور مالٹائی سب رنگ ایک ساتھ مل گئے تھے۔۔میرے پاس حیرت کا اظہار کرنے کا وقت بھی نہیں تھا کہ یہ کیا ہے۔۔۔ پل بھر میں ہر چیز سفید ہو گئی تھی“

انہوں نے کہا ”ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے بالکل تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، اگلے ہی لمحے ایک زور دار دھاڑ جیسی آواز سنائی دی۔ پھر میں بے ہوش ہو گئی۔۔ تھوڑی دیر بعد مجھے ہوش آیا۔ ہمارے استاد نے ایمرجنسی کی صورت میں ہمیں فضائی حملے سے محفوظ رکھنے والی پناہ گاہ میں جانے کے لیے کہا تھا، لہٰذا میں نے گھر کے اندر اپنی ماں کو تلاش کیا اور ہم اپنے پڑوس میں فضائی حملے سے بچنے والی پناہ گاہ میں چلے گئے۔۔مجھے ایک خراش بھی نہیں آئی تھی۔ مجھے کونپیرا پہاڑ نے بچا لیا تھا۔ لیکن پہاڑ کے دوسری طرف کے لوگوں کے لیے دنیا ہی دوسری تھی۔ انہیں بدترین صورتحال کا سامنا تھا“

ریکو نے بتایا ”بہت سے لوگ پہاڑ کونپیرا کے پار سے ہماری طرف بھاگے آئے۔ ان کی آنکھیں اُبل پڑی تھیں، ان کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ تقریباً سبھی لوگ برہنہ تھے، بُری طرح جھلسے ہوئے۔ ان کی جلدیں پھٹ کر نیچے لٹک رہی تھیں۔۔میری والدہ نے گھر میں تولیے اور چادریں اٹھا لیں اور خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ بھاگ کر آنے والے لوگوں کو قریبی کمرشل کالج کے آڈیٹوریم میں لے گئیں جہاں وہ آرام کر سکتے تھے“

وہ کہتی ہیں ”انہوں نے پانی مانگا۔ مجھ سے انہیں پانی دینے کو کہا گیا، مجھے ایک چپٹا سا کٹورا ملا جسے لے کر میں قریب کی ندی پر گئی اور اسے بھر کر واپس بھاگی۔۔ پانی پینے کے بعد چند لوگ مر گئے۔ لوگ ایک کے بعد ایک مرتے گئے۔۔ گرمی کا موسم تھا۔ کیڑے مکوڑوں اور انتہائی تعفن کی وجہ سے لاشوں کی فوری تدفین ضروری تھی۔ انہیں کالج کے سوئمنگ پول میں ڈال دیا گیا اور لکڑی کے ٹکڑوں میں دفن کر دیا گيا۔۔ یہ معلوم کرنا ناممکن تھا کہ یہ لوگ کون تھے۔ وہ انسانوں کی طرح نہیں مرے تھے!“

ریکو کہتی ہیں ”مجھے امید ہے کہ آنے والی نسلوں کو کبھی بھی ایسے حالات سے گزرنا نہیں پڑے گا۔ ہمیں کبھی بھی ان (جوہری ہتھیاروں) کو استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔یہ وہ لوگ ہیں جو امن قائم کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم مختلف ممالک میں کیوں نہ رہتے ہوں اور مختلف زبانیں کیوں نہ بولتے ہوں تو بھی ہماری امن کی خواہش ایک جیسی ہے“

ٹیروکو یواینو

ٹیروکو اُس وقت پندرہ سال کی تھیں، جب ہیروشیما پر ایٹمی بم گرایا گیا، تاہم وہ اس حملے میں زندہ بچ گئی تھیں

بمباری کے وقت ٹیروکو ہیروشیما ریڈ کراس ہسپتال میں نرسنگ اسکول کے دوسرے سال کی طالبہ تھیں

بم دھماکے کے نتیجے میں ہسپتال کے طلبا کے ہاسٹل میں آگ لگ گئی تھی۔ ٹیروکو نے آگ بجھانے میں مدد کی لیکن ان کے بہت سے ساتھی طلبا اس آتشزدگی میں جھلس کر ہلاک ہو گئے

ان کی بم دھماکے کے بعد کے ہفتے کی صرف خوفناک یادیں ہیں۔ وہ ہفتہ جس میں وہ زخمیوں اور متاثرہ افراد کا علاج کرنے کے لیے دن رات کام کر رہی تھیں اور اُن سب کے پانی اور خوراک کا بندوبست بھی

نرسنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیروکو نے ہسپتال میں کام جاری رکھا، جہاں انہوں نے ابتدا میں انسانی جلد پر ہونے والے آپریشنز میں ڈاکٹروں کو مدد فراہم کی

ایسے آپریشنز کے دوران مریض کی ران سے جلد لی جاتی اور جسم کے ان اعضا پر اس کی پیوند کاری کی جاتی، جہاں زخم یا جل جانے کی وجہ سے انمٹ نشان پڑ چکے تھے

بعد میں انہوں نے اس ایٹمی حملے میں زندہ بچ والے ایک شخص تاتسویوکی سے شادی کر لی

جب ٹیروکو پہلی مرتبہ حاملہ ہوئیں تو انہیں اس بات کی فکر لاحق ہو گئی کہ آیا اُن کا بچہ صحتمند پیدا ہوگا یا نہیں اور کیا وہ زندہ بھی بچ پائے گا؟

اور پھر اُن کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام توموکو رکھا گیا۔ یہ بچی صحت مند تھی جس کی وجہ سے ٹیروکو کو اپنے خاندان کو مزید وسعت دینے کی ہمت پیدا ہوئی

ٹیروکو کہتی ہیں ”میں جہنم میں نہیں گئی، اس لیے میں نہیں جانتی کہ وہ کیسا ہوتا ہے لیکن جہنم شاید ویسا ہی ہوگا، جس سے ہم گزرے تھے۔ ایسا پھر کبھی کہیں نہیں ہونے دینا چاہیے“

وہ کہتی ہیں ”ایسے لوگ ہیں، جو جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں پہلا قدم مقامی حکومت کے رہنماؤں کا اس ضمن میں کام کرنا ہے اور پھر ہمیں قومی سطح کے رہنماؤں اور پوری دنیا تک پہنچنا ہوگا“

ٹیروکو کی بیٹی توموکو نے کہا ”اب جبکہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی یادیں لوگوں کے ذہنوں سے مٹ رہی ہیں۔۔۔ ہم ایک دو راہے پر کھڑے ہیں“

وہ کہتی ہیں ”مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے۔ امن تب ہی ممکن ہے جب ہم غور کریں، دوسرے لوگوں کے بارے میں سوچیں، جو کچھ ہم کر سکتے ہیں کریں، اور امن کے قیام کے لیے ہر روز انتھک کوششیں جاری رکھیں“

ٹیروکو کی نواسی کونیکو نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ”مجھے جنگ یا ایٹمی بمباری کا تجربہ نہیں، میں تعمیر نو کے بعد والے ہیروشیما کی جانتی ہوں۔ میں صرف اُس واقعے کا تصور ہی کر سکتی ہوں۔ اُس دن شہر میں سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا تھا۔ لوگ، پرندے، ڈریگن فلائیز، گھاس، درخت، سب کچھ۔۔“

انہوں نے کہا ”جو لوگ ایٹمی حملے کے بعد امدادی کاموں یا اپنے اہل خانہ اور دوستوں کی تلاش کے لیے شہر میں داخل ہوئے تھے اُن میں سے بھی بہت سے افراد تابکاری اثرات کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے اور جو لوگ زندہ بچ گئے وہ مختلف بیماریوں کا شکار بنے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close