ڈبلیو ایچ او ’منکی پاکس‘ کا نام کیوں تبدیل کر رہا ہے؟

ویب ڈیسک

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے رواں برس مئی میں براعظم افریقہ کے باہر پھیلنے والی خارش سے ملتی جلتی جلد کی بیماری ’منکی پاکس‘ کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق متعدد ماہرین اور ممالک کی جانب سے ’منکی پاکس‘ کے نام کو توہین آمیز اور نسل پرستانہ قرار دیے جانے کے بعد عالمی ادارے نے اس کا نام تبدیل کرنے کے لیے دنیا بھر کے افراد سے مدد مانگی ہے

عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے افراد کو ’منکی پاکس‘ کا نیا نام تجویز کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ادارے کو ایسے ناموں کی تجاویز دی جائیں، جس سے کسی علاقے، جنس، قوم، خطے، مذہب، نسل، گروہ یا ثقافت پر منفی اثرات نہ پڑیں

ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او نے واضح کیا ہے کہ اس نے منکی پاکس کی دونوں پرانی اقسام کے وائرسز کے نام تبدیل کر کے اس میں رومن ہندسے بھی شامل کرلیے ہیں، تاکہ اس سے وائرسز کو بھی کسی ثقافت، خطے یا علاقے سے نہ جوڑا جا سکے

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اب سے وسطی افریقہ میں پائے جانے والے ’کانگو بیسن‘ وائرس کو ’کلیڈ I‘ جب کہ مغربی افریقی خطے میں پائے جانے والے وائرس کو ’کلیڈ II‘ کا نام دیا گیا ہے

اسی طرح بعد میں یورپ سمیت دیگر خطوں میں میں پائے گئے ’منکی پاکس‘ کے وائرسز کو ’کلیڈ I اے‘ اور ’کلیڈ II بی‘ کا نام دیا گیا ہے جب کہ جلد ہی عالمی ادارہ بیماری کا نام بھی تبدیل کردے گا

عالمی ادارے کی جانب سے منکی پاکس کے مختلف قسموں کو الگ الگ نام دیے جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بیماری کی بھی کورونا کی طرح متعدد قسمیں ہیں

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ برازیل میں بندروں پر انسانوں کے حملوں کے متعدد واقعات بھی رپورٹ ہوئے تھے، ان میں ساؤپولو کے جانوروں کی ایک پناہ گاہ میں دس بندروں کو زہر دینے کا واقعہ بھی شامل ہے

بتایا جاتا ہے کہ ان حملوں کی وجہ منکی پاکس کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے پھیلنے والا خوف ہے

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے برازیل میں منکی پاکس وائرس کے پھیلنے کے خوف سے بندروں پر حملے کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا تھا

برازیلی میڈیا کی خبروں کے مطابق دیگر شہروں میں بھی بندروں پر حملوں کے واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لوگوں نے بندروں پر پتھر برسائے یا انہیں زہر دے دیا

یاد رہے کہ اس بیماری پر ’منکی پاکس‘ نام 1958 میں اس وقت رکھا گیا تھا، جب اسے پہلی بار یورپی ملک ڈینمارک میں پایا گیا تھا، جس کے بعد یہ بیماری 1970 کے بعد بڑے پیمانے پر افریقہ میں پائے گئی

منکی پاکس کئی سال تک صرف براعظم افریقہ تک ہی محدود رہی تھی مگر رواں برس مئی میں اس کی تشخیص اٹلی اور اسپین کے بعد برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں تیزی سے ہوئی اور بعد ازاں یہ بیماری امریکا اور ایشیا تک بھی پھیل گئی

مئی 2022 سے اب تک منکی پاکس کے افریقہ کے باہر اکتیس ہزار کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور یہ بیماری دنیا کے 80 کے قریب ممالک تک پہنچ چکی ہے

منکی پاکس کے کیسز سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) بھارت اور اسرائیل سمیت کئی ایشیائی ممالک میں بھی سامنے آ چکے ہیں اور اب تک اس کی افریقہ سے باہر کم از کم پانچ اموات بھی ریکارڈ ہو چکی ہیں

منکی پاکس کا انسانوں سے جانوروں میں منتقلی کا پہلا مصدقہ کیس

انسان سے جانور میں منکی پاکس کے منتقل ہونے کا پہلا مصدقہ کیس سامنے آیا ہے، فرانس میں ایک پالتو کتے میں منکی پاکس کی تشخیص کی گئی ہے

میڈیا رپورٹس کے مطابق 10 جون کو چار سالہ اٹیلین گرے ہاؤنڈ کے جسم پر چھالے نمو دار ہونے کے بعد مالکان اس کو پیرس کے ایک اسپتال لے کر گئے، جہاں انہیں معلوم ہوا کہ ان کا پالتو کتا منکی پاکس میں مبتلا ہے

مالکان کا کہنا تھا کہ جب ان میں منکی پاکس کی علامات ظاہر ہوئیں تو انہوں نے اپنے کتے کو دیگر افراد اور جانوروں سے گھلنے ملنے سے روکنے کے لیے احتیاط برتی

مالکان میں وائرل بیماری سامنے آنے کے تقریباً دو ہفتوں کے اندر ہی ان کے کتے میں منکی پاکس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں

فرانس کے دارالحکومت میں قائم سوبون یونیورسٹی میں کتے کا معائنہ کیا گیا، جہاں محققین نے اس میں اس ہی وبائی بیماری کی تشخیص کی جو اس کے مالکان کو تھی

واضح رہے فرانس میں منکی پاکس سترہ سو سے زائد افراد کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close