لندن سے چوری کی گئی بینٹلے ملسین کار کراچی سے برآمد ہونے کی دلچسپ روداد

ویب ڈیسک

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یوں تو ہر طرح کی گاڑیاں سڑکوں پر چلتی دکھائی دیتی ہیں، لیکن اس خبر میں موجود گاڑی کی کہانی کچھ وکھری سی ہے، جس کے چرچے کئی روز سوشل میڈیا پر بھی ہو رہے ہیں

یہ کوئی عام کار نہیں بلکہ بینٹلے ملسین وی ایٹ آٹومیٹک ہے۔ اس وقت اس کی قیمت تیس کروڑ سے زیادہ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ لیکن اس کہانی میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ سے چوری ہونے والی اس کار کو پاکستان کسٹمز نے کراچی سے برآمد کیا ہے

کسٹم حکام نے بتایا کہ یہ کارروائی برطانوی سکیورٹی ادارے کی معلومات پر کی گئی

گذشتہ مہینے کی 30 تاریخ کو اطلاع ملنے کے بعد کسٹمز کے اہلکار اس گاڑی کی تلاش میں تھے

کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک گھر میں کھڑی گاڑی تحویل میں لے کر مقدمہ درج کر کے دو افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے

کلکٹریٹ آف کسٹمز انفورسمنٹ (سی سی ای) کے مطابق برآمد ہونے والی گاڑی پر مقامی رجسٹرڈ نمبر پلیٹ لگائی گئی تھی

کسٹم حکام نے بتایا ”کچھ تبدیلیاں کر کے گاڑی کو استعمال کیا جا رہا تھا۔ گاڑی کو تحویل میں لینے کے بعد تفصیلی جائزہ لیا گیا جس میں ثابت ہوا کہ مقامی گاڑی کا چیسس نمبر اور برطانیہ سے چوری ہونے والی گاڑی کا چیسس نمبر مماثلت رکھتا ہے“

انہوں نے بتایا کہ کارروائی برطانوی سکیورٹی ادارے کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں کی گئی

واضح رہے کہ لندن سے چوری ہونے والی بینٹلے ملسین برانڈ کی وی 8 کا شمار دنیا کی مہنگی گاڑیوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس کی مالیت تیس کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے

برآمد ہونے والی گاڑی محکمہ ایکسائز سندھ میں بھی رجسٹرڈ ہے۔ اسے ہلکے سرمئی رنگ کے کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا۔ کپڑے کو ہٹایا گیا تو مذکورہ گاڑی برآمد ہوئی

گاڑی کی پچھلی طرف سے پاکستانی رجسٹریشن نمبر پلیٹ ملی ہے، جو صوبہ سندھ میں رجسٹرڈ ہے۔ جبکہ سامنے سفید رنگ کی ہاتھ سے بنی نمبر پلیٹ برآمد ہوئی ہے

کسٹمز حکام کے مطابق ابتدائی انکوائری کے دوران گاڑی کے مالک نے انکشاف کیا کہ ان کو گاڑی کسی اور شخص نے فروخت کی ہے، جس نے متعلقہ حکام سے تمام مطلوبہ دستاویزات کو کلیئر کرنے کی ذمہ داری بھی لی تھی

اس شخص کی فراہم کردہ معلومات پر محکمہ نے دوسرے شخص کو بھی گرفتار کر لیا ہے، جس نے خود کو بروکر کے طور پر متعارف کرایا ہے، جبکہ مرکزی ملزم کو تاحال حراست میں نہیں لیا جا سکا ہے

محکمہ کسٹم کے سینیئر افسر کے مطابق ’اتنی مہنگی گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے وزارت خارجہ سے فروخت کی اجازت، پاکستان کسٹمز سے این او سی اور ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کی رسید درکار ہوتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے بغیر اس چوری شدہ گاڑی کو رجسٹرڈ کیا، جس سے ان غیر قانونی سرگرمیوں میں سندھ ایکسائز کے افسران کے ملوث ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے“

اس پورے واقعے میں شاید سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کار قانونی دستاویزات نہ ہونے کے باوجود سندھ میں رجسٹر ہوئی۔ ایف آئی آر میں اس قانون کا حوالہ بھی دیا گیا، جس کے مطابق ایسی کسی کار کی رجسٹریشن کے لیے وزارت خارجہ اور کسٹمز سے اجازت کے علاوہ تمام ڈیوٹی اور ٹیکسز کی ادائیگی درکار ہوتی ہے

یہی وجہ ہے کہ ایف آئی آر میں یہاں تک کہا گیا کہ موٹر رجسٹریشن ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کی ملی بھگت کے ساتھ ایسا ممکن ہوا

کسٹمز کا مزید کہنا ہے کہ کار کی چابی موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسے کار کیریئر کے ذریعے لفٹ کیا گیا

اس گاڑی کی ایک مختصر وڈیو سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں طرح طرح کے تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس گاڑی کے برطانیہ سے پاکستان منتقل ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اس پر نمبر پلیٹ کیسے لگی

کسٹمز حکام نے مزید بتایا کہ گاڑی برآمد کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے

گاڑی کے برطانیہ سے چوری ہو کر پاکستان پہنچنے کے حوالے سے حتمی تفصیلات تو تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آئیں گی، لیکن عام طور پر لندن سے چوری ہونے والی گاڑیاں پاکستان آ کیسے سکتی ہیں؟

اس بارے میں پاک وہیلز کے شریک بانی سنیل منج نے کچھ دلچسپ تفصیلات بتائی ہیں

وہ کہتے ہیں ”یہ گینگ کچھ اس طرح کام کرتا ہے کہ جہاں سے بھی گاڑی آتی ہے وہاں پہلے چوری رپورٹ نہیں کی جاتی کیونکہ جس ملک سے گاڑی نکل رہی ہے اور جس ملک میں آ رہی ہے، دونوں میں اس کا اسٹیٹس چیک کیا جاتا ہے کہ آیا اس کے کاغذات پورے ہیں اور کہیں یہ اُس ملک میں چوری شدہ تو نہیں ہے“

ان کا خیال ہے کہ اگر یہ کار واقعی چوری کی ہوتی تو سسٹم میں درج ہونے کے باعث یہ بندرگاہ پر ہی ضبط کر لی جاتی

سنیل کے مطابق ”کار لندن میں تھی، جب تک یہاں (پاکستان میں) شفٹ ہوئی تو کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ چوری کی ہے۔ یہاں جب کار کلیئر ہو گئی تو لندن میں چوری کی اطلاع دی گئی تاکہ انشورنس کا دعویٰ ہو سکے“

انھوں نے کہا کہ جو بھی گروہ یہ کام کرتا ہے وہ عام طور پر پہلے گاڑی دوسرے ملک منتقل کرتا ہے اور پھر جب اس ملک کی بندرگاہ پر گاڑی کلیئر ہو جائے تو اس کے بعد وہ اس ملک میں چوری رپورٹ کر دیتے ہیں اور پھر وہ ملک اس کی کھوج شروع کرتا ہے

سنیل منج کے مطابق یہ کوئی پہلا کیس نہیں بلکہ ایسی کئی گاڑیاں پاکستان میں رجسٹر ہوئی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ کار نان کسٹم نہیں تھی بلکہ کسی سفارتخانے کے کاغذات پر کلیئر ہوئی تھی۔ ’سفارتکاروں کو ڈیوٹی فری کار کی اجازت ہوتی ہے کہ جتنے برسوں کے لیے وہ قیام کریں گے اس کے لیے ڈیوٹی فری کار کی اجازت ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے حالات کے پیش نظر یہ بہت خطرناک بات ہے کیونکہ ان کاروں کے ذریعے کسی اصل مجرم تک پہنچنا بہت مشکل ہوسکتا ہے

کسٹمز کی جانب سے پاکستان میں منتقل ہوتے وقت اس گاڑی کی قیمت چار کروڑ 14 لاکھ روپے سے زیادہ بتائی گئی ہے جبکہ موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق اس کی قیمت پانچ کروڑ 85 لاکھ روپے سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکسز کے بعد اس کار کی قیمت 30 کروڑ 74 لاکھ روپے سے زیادہ بنتی ہے

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پاکستانی ایک طرف اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، وہیں طنز و مزاح میں بھی اکثر پیش پیش ہیں

ایک صارف شمس خان نے لکھا ’انہوں نے برطانیہ سے کیسے گاڑی پاکستان پہنچائی انہیں جواب دینا پڑے گا۔‘

عملقہ نامی صارف کا کہنا ہے کہ ’سوال یہ ہے کہ گاڑی لندن سے پاکستان آئی کیسے؟‘

پاکستان میں کرپشن کر کے لندن میں پراپرٹیز بنانے والے سیاستدانوں پر طنز کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا ’پہلا پاکستانی ہے، جو لندن سے چوری کر کے پاکستان لایا ہے، اس کو انعام دیا جائے ذلیل نہ کریں اس کو۔‘

اس وڈیو میں لوگوں کو گاڑی کو دھکے دیتے دیکھا جا سکتا ہے، جس پر صارفین یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اسے دھکے کیوں دیے جا رہے ہیں

ایک اور صارف نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لندن والے پورا برصغیر چوری کر کے لے گئے بھائی، یہ تو ایک گاڑی ہی لایا تھا۔‘

مگر اس پوری خبر کا خلاصہ ثاقب نے کچھ یوں کیا: ’کمال نہیں کہ بینٹلے کار کوئی لندن سے اپنی پاکٹ میں ڈال کر پاکستان کا بارڈر کراس کر کے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لے آتا ہے اور وہ گاڑی رجسٹر بھی ہو جاتی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close